جنت والوں کے بادشاہ

ایک مرتبہ سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے صحابہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے فرمایا : کیا نہ بتاؤں میں تم کو جنت والوں کے بادشاہ؟ صحابہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی: ہاں ! یارسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم بتادیجئے! فرمایا: ضَعِیفٌ مُْسْتَضْعِفٌ اَغْبَرَ اَشْعَثَ ذِیْ طِمْرَیْنِ لَا یُؤْبَہُ لَہُ لَوْ اَقْسَمَ عَلَی اللہِ لَاَ بَرَّہُ۔
(بخاری،کتاب التفسیر، باب عتل بعد ذلک زنیم، ۳/۳۶۳، الحدیث :۴۹۱۸ و المعجم الکبیر،۲۰/۸۴ ، الحدیث: ۱۵۹و احیاء العلوم، کتاب الفقر والزہد ، ۴/۲۴۳) (بخاری، مسلم)
آدمی ضعیف کہ لوگ اسے ضعیف جانیں ، غبار آلود،پریشان مو،دو چادریں رکھنے والا، لوگوں کے نزدیک بے قدر (حقیر) لیکن اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم دیدے تو اللہ تعالیٰ اس کو سچا کردے (اس کا کہا پورا کردے)۔
نیز فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فقیر کو بلا کر یوں معذرت کرے گا جیسے آدمی آپس میں ایک دوسرے سے معذرت کرتے ہیں ۔ارشاد فرمایاے گا : قسم ہے اپنی عزت و جلال کی! میں نے دنیا تجھ سے اس وجہ سے علیحدہ نہیں رکھی تھی کہ تو میرے نزدیک حقیر تھا بلکہ اس جہت سے کہ تجھ کو یہاں کرامت اور فضیلت دینی تھی میرے بندے! اب تو اِن (جہنمیوں کی) صفوں میں جااور پہچان کہ جس نے تجھ کو دنیا میں میرے واسطے (کچھ) کھلایا ہویا (کوئی کپڑا) پہنایا ہو اور اس کی غرض سوائے میری رضا (حاصل کرنے) کے اور کچھ نہ ہو تو تُو اس کا ہاتھ پکڑلے( اور اس کو جنت میں لے جا) اس کا میں نے تجھ کو اختیار دے دیا۔ اور اس وقت (جہنمی) لوگوں کا یہ حال ہوگا کہ پسینہ منہ تک آیا ہوا ہوگا، یہ شخص صفوں کو چیرتا ہوا جائے گا اور دیکھے گا کہ کس نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا تھا، جسے ایسا دیکھے گا اس کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں لے جائے گا۔
(احیاء العلوم، کتاب الفقر والزہد ، ۴/۲۴۳)