Haseeb Alamgir said:
اگر اس کو کسی حد تک لفاظی یا ایک خاص طبقے کے حوالے سے آگاہی کہا جائے تو ٹھیک ہے
ورنہ جو لوگ ابھی تک اپنے اسلاف کے نقشے قدم پر چل رہے ہیں
وہاں
اس طرح کی بھینک بھی نہیں ہے
اسی لئے کہا جاتا ہے کہ خود بھی جانو اور اپنی اولاد کی تربیت بھی کرو
تاکہ
معاشرہ ۔۔۔معاشرہ رہے جنگل کا قانو ن نہ بن جائے
کبھی کسی زمانے میں تقریر کرنے کا شوق تھا تو
ایک جملہ کہا تھا وہ آج بھی یاد ہے
کہ
آج کی عورت ۔۔۔۔لڑکا۔۔۔۔یا۔۔۔۔لڑکی ۔۔۔پید ا کرتی ہے
محمد بن قاسم اور رضیہ سلطانہ نہیں
پھر
کیا تھا۔۔۔ہاہاہاہاہا
تو برادربہتر تربیت ہی میں والدین اور اطراف میں رہنے والوں کا فائدہ ہے
ہمارے دین نے زندگی گزارنے کے جو اُصول واضح کر دیے ہیں
اُن سے ہٹ کر کوئی بھی چلے گا تو
نتیجہ
آپ کی شئیرینگ جیسا ہی نکلے گا
جناب آپ سے عرض ہے کہ
تقریر تو ہم کردیتے ہیں مگر ہمارا خود کا کوئی عمل نظر نہیں آتا، اور اپنے آپ کو سمجھدار لوگوں میں شمار کرتے ہیں ،اپنے آپ کو دوسروں کا استاد سمجھ بیٹھے ہیں،ہم اپنے گریبان میں کبھی خود بھی تو جھانکیں کہ واقعی میں ہم سمجھدار ہیں ، ہمیں دوسروں کی دل آزاری کرنے سے فرصت نہیں،جگہ جگہ ہم دوسروں کا دل دکھاتے ہیں، دوسروں میں عیب تلاش کرتے ہیں اور دوسری طرف بڑے معزز بنے پھرتے ہیں، لوگوں کو سکھاتے ہیں، سکھانا سمجھانا بہت اچھی بات ہے مگر ہمیں خود بھی تو عمل کرنا ہوگا جب ہی ہماری تقریر میں ،ہمارے درس میں اثر آئے گا
یہ آپ کی محبت میں آگاہی ہے جناب
Bookmarks