سرِ راہ لاش کے دو ٹکڑے پڑے تھے
سر اِدھر پڑا تھا. دھڑ ادھر پڑا تھا
تازہ خون جو اس لاش سے نکل رہا تھا
زمیں کا وہ حصہ اس سے تر پڑا تھا
پوچھا کسی نے کہ..کون بد بخت ہے یہ؟
کیا ہوا؟ اور کون سا جرم کر پڑا تھا
قاتل پاس کھڑا تھا..اور بےباک کھڑاتھا
بولا عشق ہوں میں یہ مجھ سےلڑ پڑا تھا
Bookmarks