جس کی ہجرت پہ مجھ کو یقین تھا کہ وہ لمحہ مجھ سےبچھڑ گیا
وہی اب بتاتا ہے مستقل کہ میں رگ جاں میں اتر گیا
یاد کرتے ہیں سب اسے جو گزر گیا جو نذر ہوا
کون دیکھے گا اب اسے جو وقت مجھ پہ ٹھہر گیا
تیری قسمت جس کی گواہ تھی وہ کچھ اور نہیں میری آہ تھی
اس آہ میں اتنی چاہ تھی کہ تیر امقدر سنورگیا
یہ رتبہ ملا ہے کسے کسے جسے میزبان یہ شرف بخش دے
میں تو ساحل پہ بیٹھا ہوا تھا جب مجھے خود بلانے بھنور گیا
میری خاک کا یہ مزاج ہے اور یہ اسی کا خراج ہے
وہ جو کرنے آیا تھا باہنر وہی لے کے مجھ سے ہنر گیا