شاعرہ نوشی گیلانی

یہ نام ممکن نہیں رہے گا مقام ممکن نہیں رہے گا
غرور لہجے میں آ گیا تو کلام ممکن نہیں رہے گا
یہ برف موسم جو شہر جاں میں کچھ اور لمحے ٹھہر گیا تو
لہو کا دل کی کسی گلی میں قیام ممکن نہیں رہے گا
تم اپنی سانسوں سے میری سانسیں الگ تو کرنے لگے ہو لیکن
جو کام آساں سمجھ رہے ہو وہ کام ممکن نہیں رہے گا
وفا کا کاغذ تو بھیگ جائے گا بد گمانی کی بارشوں میں
خطوں کی باتیں تو خواب ہوں گی پیام ممکن نہیں رہے گا
یہ ہم محبت میں لا تعلق سے ہو رہے ہیں تو دیکھ لینا
دعائیں تو خیر کون دے گا سلام ممکن نہیں رہے گا