شاعر مراز اسد اللہ خان غالب

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے تیرے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
کہوں کس سے میں کہ کیاہے شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
ہوئے مرکے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا