ایک مولانا صاحب نے اپنا علاقے کا ایک واقعہ بیان کیا کہ والد کے پاس لوگ آئے کہ فلاں کی شادی ہے آپ نکاح پڑھا دیں۔
نکاح میں تین چیزیں واجب ہیں، ایک حق مہر،دو لڑکی کا رضا مند ہونا، تین گواہوں کا ہونا، خطبہ نکاح واجب نہیں اگر یہ نہیں بھی پڑھا جائے تو نکاح ہوجائے گا۔
مولاناکے والد نے لڑکے والوں سے پوچھا کہ لڑکی کی رضامندی ہے، انہوں نے کہا کہ جی ہاں لڑکی رضا مند ہے،گواہ موجود تھے حق مہر جو بتایا گیا تھا کے مطابق مولانا کے والد نے نکاح پڑھا دیا۔

وہ لوگ جب بارات لینے پہنچے تو لڑکی کو معلوم پڑا کہ اس کی تو فلاں سے شادی ہوچکی ہے،لڑکی نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ مجھ سے بغیر پوچھے رائے جانے(ایجاب و قبول) میرانکاح ہو گیا اور مجھے خبر تک نہیں۔

انہوں نے کہا کہ فلاں لڑکی جو اس کی سہیلی یا گھر کی فرد تھی سے انہوں نے پوچھا تو اس نے کہا کہ لڑکی(دولہن) کی مرضی ہے، لیکن اس لڑکی نے صاف انکار کردیا ہے کہ مجھ سے کسی لڑکی نے میری مرضی نہیں پوچھی میں بالکل لاعلم ہوں۔

لڑکی (دلہن)کے صاف انکار سے نکاح کی حیثیت ہی ختم ہوگئی اور لڑکے والے خاندان کو سبکی اٹھانی پڑی ، لڑکا خود انہی مولانا صاحب کا کلاس فیلو بھی تھا(انہوں نے دولہے سے کہا کہ اگر ایسی کوئی بات تھی تو مجھ سے کہہ دیتے میں بتا دیتا کہ اس طرح نکاح نہیں ہوتا)،وہ لوگ دوبارہ ان کے والد کے پاس گئے تو مولانا صاحب کے والد نے کہا کہ جب میں نے پوچھا تھا کہ لڑکی کی رضامندی پوچھی گئی ہے تو آپ لوگوں نے کہا کہ ہاں پوچھ لی ،اس پر وہ شرمند ہ ہوئے ،انہوں نے دوبارہ سے لڑکی کی رضامندی پوچھی ،لیکن اس باروالد نے اپنے عالم فرزندمولانا کو بھیجا کہ وہ خود جا کر دوبارہ سے نکاح کا خطبہ پڑھا دیں۔
بقلم ص