*میڈیکل ریپ کا ۔۔*
*مریضوں سے معاشی ریپ۔۔*


میڈیکل کے شعبے میں ایک شعبہ دوائی فروخت کنندگان کے نمائندگان کا بھی ہوتا ہے۔۔۔ کمپنی کی پراڈکٹس کو متعارف کروانے سے فروخت کروانے تک کے یہ ذمہ دار ہوتے ہیں۔۔ یعنی کہ دوا ساز کمپنیوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی۔۔۔

ان نمائندگان کو میڈیکل ریپ کہا جاتا ہے۔۔۔
غالباً یہ واحد شعبہ ہے جہاں تجربہ جوں جوں بڑھتا جاتا ہے۔۔ اس کی قدر و قیمت کم ہوتی جاتی ہے۔۔۔۔ اور ایک وقت آتا ہے کہ کمپنی کی منیجمنٹ یہ سوچتی ہے۔۔ جتنی تنخواہ و مراعات یہ بڈھا لیتا ہے اتنے میں تو ہم چار نوجوان بیوقوف رکھ سکتے ہیں۔۔۔۔ اور اس ایریا ۔۔ یا زونل منیجر کے پاس باعزت مستعفی ہونے کے علاوہ وہ کوئی راستہ ہی نہیں چھوڑتے۔۔۔۔
زندگی کے ناقابلِ واپسی قیمتی سال اور اچھی تنخواہ اور مراعات گنوا کر وہ کسی اور شعبے کے قابل نہیں رہتے۔۔۔۔

ان کے ساتھ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ اس شعبے کو مریضوں کی بددعائیں ہیں۔۔۔۔ ۔۔

دوا فروش کمپنیوں کے نمائندگان میڈیکل ریپریزینٹو کو مختصر کر کے میڈیکل ریپ کہتے ہیں۔۔۔۔
بزرگوں سے سنا ہے کہ ناموں کے زندگی پر اثرات ہوتے ہیں۔۔ جیسا نام ویسے اثرات ۔۔۔
یہ بات ان میڈیکل ریپ پر سچ ہوتے دیکھی۔۔۔
یہ لوگ صیح معنوں میں میں میڈیکل کا ریپ کرواتے ہیں۔۔۔

ان کا کردار ۔۔ دوا فروش کمپنیوں اور دوا کو فروخت کروانے والے ڈاکٹروں کے درمیان وہی۔ہوتا ہے جو *ہیرا منڈی*
میں *ماما مودا* یعنی کہ
*دلال* کا ہوتا ہے۔۔۔ جسے مہذّب الفاظ میں مڈل مین کہتے ہیں۔۔

ان کا کام دوا کی فروخت کے لیے ڈاکٹروں کو پرکشش مراعات دینا ۔۔ جس میں ڈاکٹروں کو کمیشن بذریعہ چیک ۔۔۔ اندرون اور بیرون ملک کے ٹرپ۔۔ بچوں کے فیس کی ادائیگی ۔۔ گھر اور کلینک کی تزئین و آرائش ۔ گھر یا کلینک کے کرائے۔۔۔ گھریلو اخراجات ۔۔۔ نئی گاڑیاں یا ذاتی گاڑیوں کے ماہانہ اخراجات ۔۔ ڈاکٹرز کو راضی رکھنے کے لیے بیگم و بچوں کے لیے قیمتی گفٹس۔۔ جس میں قیمتی موبائل اور زنانہ و مردانہ کپڑے وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں۔۔
ان تمام گناہوں کی معافی کے لیے حج و عمرے کا بندوبست بھی دوا فروش کمپنیاں کرتی ہیں۔۔ اور واپسی پر یہ مبارکباد خود سمیٹ رہے ہوتے ہیں۔۔۔
درج ذیل مراعات
*جیسا منہ ویسی چپیڑ* کی بنیاد پر دی جاتی ہیں۔۔۔ مطلب جتنی سیل ڈاکٹر دے گا اسی حساب سے کمپنی دے گی۔۔۔ عموماً یہ تناسب کمپنی کو دی گئی سیل کا دس فیصدی ہوتا ہے۔۔۔
مریض کی زبان چلنے سے پہلے ڈاکٹر کی قلم چلنا شروع ہو جاتی ہے۔۔۔ ڈاکٹر مرض کو دیکھ کر دوائی طے نہیں کرتا۔۔ وہ دیے گئے ٹارگٹ کو مدنظر رکھ کر دوائی طے کرتا ہے۔۔۔ ان خبیثوں کو یاد ہوتا ہے کہ وہ اب تک کتنی مالیت کی دوائیں کس کس کمپنی کی لکھ چکا ہے اور اس کا کمیشن کیا بنتا ہے۔۔۔۔ سامنے مریض غریب ہو یا امیر۔۔۔ اس وقت اسکا قلم چھرا بنا ہوتا ہے اور وہ اس چھرے کے بل بوتے پر کمپنیوں کے دلال کی دی گئی مراعات کو مدنظر رکھ کر مریضوں کا معاشی ریپ کرتے ہیں۔۔۔
پچھلی دہائی سے تو ڈاکٹروں نے ایک اور کام پکڑ لیا ہے۔۔۔ اپنی سستی اور گھٹیا پروڈکٹ خود بنوا کر کئی گنا زیادہ قیمت پر فروخت کرنے کے لیے مخصوص میڈیکل اسٹور پر رکھوا دیتے ہیں۔۔ اور نسخوں پر دھڑا دھڑ لکھتے ہیں فروخت کے لیے دھڑلے سے۔۔۔ بیس تیس روپے میں تیار ہونے والی دوا آٹھ سو روپے تک فروخت ہوتی ہے۔۔۔
ایکسرے۔۔۔ الٹرا سائونڈ۔۔ لیبارٹری ٹیسٹ۔۔۔ یہ بھی کمیشن کے سر پر چل رہے ہوتے ہیں۔۔ ان کی ضرورت نا بھی ہو تو ایک۔آدھ اضافی لکھ دیتے ہیں۔۔۔ ڈاکٹر یا اس کا عملہ زبانی بتاتا ہے کہ ٹیسٹ فلاں لیبارٹری سے کروائیں ۔۔۔ مریض بیچارے کے پاس سوچنے کا وقت ہی نہیں ہوتا اور وہ وہیں کو جاتا ہے۔۔ جہاں اسے بھیجا جاتا ہے۔۔۔ ان لیبارٹریوں ایکسرے والوں وغيرہ وغيرہ سے حساب روزانہ ۔۔ ماہانہ یا ہفتہ وار کے حساب سے ہوتا ہے۔۔ جو بھی طریقہ طے ہو۔۔۔
ڈاکٹر کا عملہ اپنے اور کمیشن دینے والے کے ریکارڈ کا موازنہ کر کے وصولی کرتے ہیں۔۔

یہ حقیقت ہے کہ اس شعبے۔ کمیونٹی ۔۔ قبیلے کی اکثریت ایسی ہی ہے۔۔۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی کیمونٹی ۔۔ قبیلے ۔۔ شعبے میں خوفِ خدا رکھنے والے مسیحا بھی ہیں۔۔ جن کی مسیحائی کی تاثیر روح تک اثر کرتی ہے۔۔۔ انکی کمائی صرف آخرت ہوتی ہے۔۔۔
لیکن دوا فروش کمپنیوں کی سیل شعبہ طب کا ریپ کروانے والے میڈیکل ریپ کے بغیر نہیں ۔۔۔۔۔

Sent from my XT1254 using Tapatalk