ایک بزرگ نے بیان فرمایا کہ میں نے ایک شخص کو مطاف میں دیکھا کہ اس شان کے ساتھ طواف کر رہا ہے کہ اس کے پیچھے خدام ہیں۔ اس کے لیے راستہ صاف کیاجا رہا ہے۔ دھکوں، مکوں کے ذریعے طواف کرنے والوں کو ہٹایا جا رہا ہے۔ لوگ گردنیں اٹھا اٹھا کر ان کو دیکھ رہے ہیں، میں نے بھی ان صاحب کو غور سے دیکھا۔دل میں خیال آیا کہ یہ تو اظہار بندگی، عجز و انکساری کا مقام ہے، جس کو اللہ تعالیٰ اس مقام پر پہنچا دے اس کو تو خوب شکر ادا کرنا چاہیے اوراپنے دل سے دنیا کی حرص، کبر، نخوت، خیالات و تصورات کو نکال کر صرف ایک اللہ کی بڑائی کو دل میں جمانا چاہیے۔ اسی دھیان کے ساتھ اس کے آگے سر کو جھکانا چاہیے۔ یہاں پہنچ کر اپنی شان ظاہر کرنا، اگرچہ ظاہری طور پر ہی ہو، قطعاً مناسب نہیں، بس یہ خیالات آئے اور ختم ہو گئے، وہ صاحب بھی طواف سے فارغ ہو کر چلے گئے۔چند سالوں کے بعد بغداد جانا ہوا، وہاں ایک پل کے کنارہ ایک فقیر پر نظر پڑی جو ہر گزرنے والے سے بھیک مانگتا پھر رہا تھا۔ لوگ اس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے اور گزر جاتے۔ میں نے اس فقیر کی طرف غور سے دیکھا تو وہ کہنے لگا۔ ’’کیوں گھور کردیکھ رہے ہو؟‘‘تومیں نے کہا کہ ’’چند سال قبل میں نے ایک امیر شخص کو بڑی شان و شوکت کے ساتھ طواف کرتے دیکھا تھا، وہ شخص آپ کی شکل کا تھا، اس لیے غور سے دیکھ رہا ہوں۔‘‘تو اس نے کہا کہ ’’وہ امیر شخص میں ہی تھا۔ میں نے اس عبدیت کے مقام پر تکبر کیا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ سزا دی کہ مجھے مخلوق کے سامنے ذلیل کیا، آج میں دن بھر لوگوں سے بھیک مانگتا ہوں اور ذلیل ہوتا ہوں، اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو کبر و نخوت کی بلا سے حفاظت میں رکھے اور میرے انجام بد سے سبق حاصل کرنے کی توفیق دے۔‘‘یہ تو دنیا کی سزا ہے، آخرت کی سزا تو اس سے بڑی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر کبر ہو وہ دخول جنت سے محروم ہوگا۔ اس کے علاوہ بھی عجب و کبر پر وعیدیں مذکور ہیں۔ فاعتبر و ایا اولیٰ الابصار۔