الوداع الوداع
اے وقت پرانے الوداع
جس وقت میں میری سوچ کی ٹہنی
جھولتے جھولتے سوکھ گئی ہے
کئی خواہشوں کی مالا پروتے
امید کی کرن روٹھ گئی ہے
کتنے ہیرے ملے مٹی میں
کتنے چہرے یاد تھے کل تک
پل میں سب کچھ چھوٹ گیا ہے
ربط کا دامن ٹوٹ گیا ہے
آو مل کر عزم بنائیں
پھر اک سال آنے کو ہے
اب کے بار تو موت بھی ہو گی
سب منصوبوں میں پیش پیش
تاکہ وقت کا دامن جب بھی
چھوٹے تو کوئی نا روٹھے
بے رخی موت اور تنگی
جھومتی گاتی غربت ننگی
میرا رستہ روک رہی ہے
مجھ کو اب تک کوس رہی ہے
پر کہنا ہے اب برملا
الوداع الوداع
اے وقت پرانے الوداع
مجھ کو اب تک کوسنے والی
وقت کے ساتھ حکومت بدلی
پھر بھی مفلس کایہ جسم
در در کی ٹھوکر کھا کے
لمبی تان کے سو گیا ہے
بن ہاتھوں اور آنکھوں کے
قیامت کو کھوج رہا ہے
تاکہ وقت قیامت آئے
ایک وہی تو امید جگائے
گزرئے وقت کی یاد مٹائے
خوشیاں اور غم کرئے جدا
الوداع الوداع
اے وقت پرانے الوداع
زندگی کی کرن کے پیچھے
اپنی اداس آکھین بھینچے
سارے غم کو نظم میں سینچے
پھر بھی کچھ آگے نا پیچھے
مستقبل پربس ایک نگاہ
وقت پرانے الوداع



مبشر احمد