part 1
part 2
part 3
آپ سب کو میرا سلام!
جی آج میں اپنے سفر نامے کے تیسرے اور آخری حصہ کے ساتھ حاظر ہوں۔اُمید ہے کہ آپ لوگوں کو پسند آرہا ہو گا۔
ہاں جی تو کہاں تھے ہم لوگ مممممممممممممممممممممم ہاں یاد آیا
کتاب دینے کے بعد دیال سنگھ ایک بار پھر ہم سب کو بہت بے دردی سے چلاتا ہوا تپتے فرش پر سے لے گیا۔10 منٹ بعد ہمارے پاوں ایک سایہ دار جگہ پر جا کے رُکے۔دیال نے بتایا کہ یہ جگہ اُن کی مین پالکی ہے۔یہ مین پالکی اس لیے کہلاتی ہے کیونکہ تہواروں میں ذیادہ سے ذیادہ لوگ آکر اس کے درشن کرتے ہیں اور عبادتوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔پھر ہم اُن کی آخری عبادت گاہ میں گئے۔جہاں دیال سنگھ کا باپ بیٹھا تھا۔ہم کو اندر آتا دیکھ کر اُس نے اپنی کتاب گوروگرنت کو ذور ذور سے پڑھنا شروع کر دیا۔ہم سب نے اپنی ہنسی بہت مشکل سے ضبت کی۔جس پر سر عمر نے ہم سب کو گہور کر دیکھنے کی کوشش کی مگر وہ خود بھی مسکرا پڑے۔وہاں کا جائزہ لینے کے بعد ہم سب مین درواذے سے ہوتے ہوئے اپنے بچھڑے ہوئے جوتوں تک پہنچے۔جوتے واپس پا کر ہم سب بہت خوش ہوئے۔ہم سب نے جوتے پہنے اور منہ ہاتھ دھوئے اور پانی پی کر اللہ کا شُکر ادا کر آگے بڑھے۔پھر اُن کے باورچی خانے میں پہنچے جہاں تہواروں کے دنوں میں لنگر پکتے ہیں۔بڑے بڑے چولہے اور برتن دیکھنے کے بعد سب کی بھوک میں اضافہ ہوگیا۔وہاں سے آگے بڑھے۔اب دیال سنگھ ہمیں آُس جگہ لے آیا جس جگہ کو وہ لوگ تلہ کہتے ہیں۔یہ ایک حوض نما جگہ تھی۔تہواروں کے دنوں میں لوگ یہاں آ کر نہاتے ہیں اور خود کو پاک جانتے ہیں۔اس کی تفصیل بتانے کے بعد دیال سنگھ ہم کو وہیں چھوڑ کر چلا گیا۔
اب سب لوگوں کے چہرے پر تھوڑی تھوڑی مسکراہٹ آرہی تھی۔سر عمر وہاں ذرا دیر سے پہنچے۔ابو بکر نے سر کو وہاں نہانے کی صلہ دی تاکہ سر کے تمام گناہ دُھل سکے۔اس تجویذ پر ہم سب مسکرا اُٹھے۔اب سب لوگ گرمی کی شددت کا کھل کر اظہار کر رہے تھے۔سب لوگوں نے ایک دوسرے کی بیگ میں رکھی ہوئی کھانے کی چیزوں کا اب قتل عام کرنا شروع کر دیا۔میں بھی اپنے چہرے کو صاف کرتے ہوئے ان دو گھنٹے میں ہونے والی بات چیت کا جائزہ لینے لگی۔مثال کے طور پر اُن کی رسم و رواج،مذہب میں موجود احکامات وغیرہ۔مگر ہر طرح سے سوچنے کے بعد ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ اُن کی بذات خود کوئی مکمل پہچان یاں ہسٹری نہیں ہے۔یہ لوگ دوسرے مذاہیب سے متاثر نظر آتے ہیں۔یعنی کہ اگر اُن کی خود کی کوئی ٹھوس
history ہوتی تو وہ اپنے کنویں کے پانی کے پاک ہونے کے بارے میں کوئی تو ٹھوس حکایت پش کرتا جس سے اُس پانی کے پاک ہونے کا ثبوت ملتا۔جبکہ دیال سنگھ نے کنویں کے پانی کو ہمارے آب زم ذم سے تشبیح دے کر بات کو ختم کر دیا۔منہ ہاتھ دھونے کی بات کو ہمارے وضو سے تشبیح دے دی۔اُن کی باتوں سے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ لاشعوری طور پر ہمارے مذہب کو سچا مانتے ہیں۔لیکن پھر بھی خود کو سچا ثابت کرنے کے لیئے یہ سب باتیں کر رہیں ہیں۔ایک اور بات جو میرے سامنے آئی وہ یہ کہ دیال سنگھ نے اپنی کسی بھی عبادت کو بس ہماری نماز سے تشبیح نہیں دی۔یہاں پر ہمارے نبی کریم کا ارشاد سچ ثابت ہوتا ہے کہ"نماز ہی مومن اور کافر کے درمیان فرق کرتی ہے"۔
اُس وقت یہ تمام سوچے میرے دماغ میں چل رہی تھیں اور آس پاس کے لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ بی بی تھک گئی ہے۔جس کا جواب میں نے سب کو صرف مسکرا کر دیا۔12:40 پر سب کوسٹر میں واپس آ کر بیٹھ گئے۔12:45 پر ہماری گاڑی وہاں کے ڈسٹرک ناظم {جس کا نام علی شاہ بتایا جاتا ہے} کے آفس کی طرف رواں دواں ہوئی۔کیونکہ وہاں ہمارے کچھ کھانے پینے کا انتظام کیا گیا تھا۔جب ہم وہاں پہنچے تو کچھ دیر کے بعد ہم سب کے لیئے مٹھائیاں،پکوڑے اور کولڑرنکس آگئی۔مٹھائیاں اور کولڑرنکس تو آخر تک موجود رہی۔مگر پکوڑوں کے جلد ختم ہونے کی وجہ کسی کو سمجھ نہ آسکی۔خیر سب نے وقتی طور اپنا پیٹ بھرا۔
1:10 پر ہماری گاڑی وہاں سے کالج کے لیئے روانہ ہوئی۔لیکن ابھی بھی بہت سے لوگ بھوک کی شکایت کر رہے تھے۔لیکن اچانک میری ناک کو پکوڑوں کی خوشبو آئی۔پکوڑوں کی خوشبو کا تعاقب کرنے بعد آخر کار چوری کا مال ہمارے محترم اُستاد سر عمر کی جیب سے برامد ہوا۔جس پر سب نے خوب حیرانگی کا اظہار کیا۔اب بہت سے سٹوڈینٹس نے راحت سے اپیل کی کہ راستے میں کہی کھانے کے لیئے رُکا جائے۔مگر اب راحت سب کو ستانے کے لیئے تیار تھا۔راحت نے انکار کر دیا۔جس پر ثناء،آنیکا،نوشین،کنول،حنا اور سعدیہ نے پُر زور احتجاج کیا۔راحت نے جب سب کو 15 منٹ تک خوب پریشان کر لیا تو اُس نے اعلان کر دیا کہ ہم شہر پہنچتے ہی کسی ریسٹورینٹ مین کھانا کھائیں۔یہ خبر پا کر سبھی کے دلوں نے راحت کو دُعاوں سے نوازہ ہو گا۔اب آپ لوگوں کو بتائے دیتی ہوں کہ واپسی کے سفر میں ہمارے ارسلان میاں کی طبعیت بگڑ گئی تھی۔اس ہی لیئے وہ خاموشی اختیار کیئے ہوئے تھے۔لیکن پھر بھی ارسلان کبھی کبھار اُٹھتا شور اور مستی میں سب کا ساتھ دیتا اور کمزوری محسوس ہونے پر پھر سے بیٹھ جاتا۔اب لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان آنتاکشری کا مقابلہ شروع ہوگیا۔میں نے بھی لڑکیوں کی ٹیم کو جوائن کر لیا۔1 گھنٹے کے مقابلے کے بعد جیت ہماری ہی ہونی تھی اور ہماری ہی ہوئی۔لیکن اس جیت کا سہرا ثناء اور آنیکا کو جاتا ہے۔
4:20 پر ہماری گاڑی شہر میں موجود ریسٹورینٹ پر تھی۔ہم لوگوں نے کھانا آڈر کیا۔کھانا آیا۔کھانا کھا کر خدا کا شُکر ادا کیا۔5:00 بجے تک سب لوگ پیٹ پوجا سے فارغ ہو چُکے تھے۔ہم گاڑی پر پھر سے سوار ہوئے اور اپنے کالج پہنچ گئے۔سب باری باری اپنے گھر کو چل دیئے۔کسی اور کا تو میں کہہ نہیں سکتی مگر یہ ٹرپ میرے لیئے بہت اچھا رہا۔بہت کچھ دیکھنے،سیکھنے اور سوچنے کو ملا۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب میں 8:36 پر کالج سے نکلی تھی تو صرف 4 لوگوں کو جانتی تھی۔اور اب اُس ہی دن کے 5:40 پر بہت سے لوگوں کو جانتی تھی۔خدا کا شُکر ہے کہ ہم سب صحیع سلامت اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے مگر بہت سی اچھی یادوں کے ساتھ۔۔
آپ لوگوں کے وقت کا شُکریہ۔آئندہ پھر کبھی حاضر ہونگی اپنی کسی نئی تحریر کے ساتھ۔۔
اللہ حافظ
sultana mustafa
Bookmarks