Results 1 to 2 of 2

Thread: معمولاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم

  1. #1
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default معمولاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم


    محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا معمول مبارک تھا کہ رات گئے بیدارہوتے تھے،وضو فرماتے اور پھر تہجد کی نماز کے لےے کھڑے ہوجاتے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی تہجد کی نماز بہت طویل ہوا کرتی تھی۔ قیام کی حالت میں بہت لمبی تلاوت فرماتے تھے اور رکوع و سجود بھی بہت طویل ہواکرتے تھے۔کچھ صحابہ کرامِؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ تہجد کی نماز میں شریک ہونے کی کوشش کی لیکن ان کے لیے ممکن نہ رہا۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اتنا طویل قیام فرماتے تھے کہ پاؤں مبارک سوج جاتے اور پنڈلیوں میں ورم آجاتا۔جب سجدہ کرنا مقصود ہوتا تو حجرہ مبارک میں اتنی جگہ نہ ہوتی کہ سجدہ کر سکتے۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ سجدہ کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم میری ٹانگوں پر اپنا ہاتھ مارتے میں اپنے پاؤں اکٹھے کرتی تو اس جگہ پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سجدہ فرماتے تھے۔اس بات سے حجرہ مبارک کی لمبائی چوڑائی کااندازہ کیا جاسکتا ہے جبکہ اونچائی اتنی تھی کہ لمبے قد کاآدمی کھڑاہوجائے تو کھجورکے پتوں سے لیپی ہوئی چھت سے اسکاسرٹکراجائے۔
    تہجد کی نمازمکمل ہونے پر حضرت بلالؓ کی آذان بلند ہوجاتی، تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم فجر کی دورکعتیں اداکرتے جنہیں امت فجر کی سنتوں کے نام سے جانتی ہے، پہلی رکعت میں سورة الکافرون اور دوسری میں سورة اخلاص تلاوت فرماتے، یہ مختصر رکعتیں ہوتی تھیں۔اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم تہجد کی تھکاوٹ کے باعث سستانے کے لیے لیٹ جاتے اور مسلمان بھی اتنی دیر میں مسجد میں جمع ہوچکے ہوتے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نمازپڑھانے کے لیے مسجد میں تشریف لے جاتے اور فجر کی طویل قرات والے دو فرائض پڑھاتے اور پھر مسلمانوں کی طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے ۔کوئی خواب دیکھاہوتا تو مسلمانوں کو سناتے اور اگر مسلمانوں میں سے کسی نے خواب دیکھاہوتا تو سن کر اسکی تعبیر دیتے۔ بعض اوقات فجر کے بعد دیگر امور پر بھی گفتگو فرماتے اورانہیں جملہ ہدایات دیتے اس بہانے مسلمانوں کی تعلیم کا انتظام بھی ہوجاتا۔
    فجر کے بعد سوناآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو بے حد ناپسند تھا۔ یہ بہت برکت والاوقت ہوتا ہے جسے ذکر و فکر میں گزارنا چاہیے۔ قرآن مجید نے بھی فجر کے وقت تلاوت کی ترغیب دی ہے۔عشراق اور چاشت کے نوافل بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے معمولات کاحصہ تھے لیکن یہ نوافل بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی عادت مبارکہ تھی کہ رات کے نوافل لمبے لمبے اداکرتے اور دن کے نوافل کو بہت مختصر کر کے تو ختم کردیتے۔اسکے بعد بعض اوقات بازار تشریف لے جاتے اور معاملات کی نگرانی کرتے۔ایک بار ایک دکان کے باہر غلّے کے ڈھیر میں آپ نے ہاتھ ڈالا تو وہ باہر سے خشک اور اندر سے گیلا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے دکاندار سے پوچھایہ کیاہے؟؟اس نے جواب دیا رات کو بارش کی پھوار کے باعث گندم گیلی ہوگئی۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اسکو ناپسند فرمایا کہ اوپراوراندر میں فرق ہے تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ”جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں“۔ بازار میں ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو بہت پرانا شناسا دکھائی دیا،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرطِ محبت میں پیچھے سے اسکی آنکھوں پر ہاتھ دیے، یہ اشارہ تھا کہ مجھے پہچانو!ابتداءتو اسے اندازہ نہ ہوا لیکن جب پتہ چل گیا تو اس نے اپنی کمر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے سینے سے خوب خوب مس کی۔ بعض اوقات اچھاکھانا کھائے بہت دن گزرجاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کسی امیر مسلمان کے تشریف لے جاتے۔اسی طرح ایک دن آپ ایک انصاری صحابی کے باغ میں تشریف لے گئے اور اس سے بے تکلفی سے فرمایا کہ ہمیں کھانا کھلاؤ،اس کے دروازے پر تو گویا دنیاوآخرت کی خوش بختیاں پہنچ گئی تھیں۔اس نے فوراً ہی کھجور کے کچے پکے پھلوں کی ایک ڈالی بطور سلاد کے خدمت اقدس میں پیش کی اور گھروالوں کو روٹیاں پکانے کا کہ کر خود ایک بکری ذبح کرنے میں مشغول ہو گیااور تھوڑی دیر بعدایک تھال میں بھنا ہواگوشت اور ایک رومال میں پکی ہوئی روٹیاں دسترخوان پر چن دی گئیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے کھانا تناول کرنے سے پہلے چار روٹیوں میں کچھ سالن کی بوٹیاں رکھ کر حضرت ابوہریرہ ؓکو دیں کہ جاؤ فاطمہ ؓکو دے آؤ اس نے اتنے دنوں سے کھانا نہیں کھایا۔
    بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم دوستوں کے ساتھ شہر سے باہر تشریف لے جاتے اور انکے ساتھ اچھاوقت گزارتے۔ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم قریب کی جھیل میں گئے اور دودوکی جوڑیاں بناکر تیراکی کی مشق کی اور مقابلے کیے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ جوڑے میں حضرت ابوبکرصدیق ؓشامل تھے۔ بعض اوقات جنات کو ملنے کے لیے بھی پہاڑوں پر تشریف لے جاتے تھے اور ایک خاص مقام پر پہنچ کر صحابہ کرامؓ کو آگے آنے سے روک دیتے اور خود آگے بڑھ کر جنات کے قبائل میں تبلیغ فرماتے۔ کبھی کبھی مسجد میں دن کاکافی وقت گزارتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے صحابہ کرام نے اپنی تعداد کے دو حصے کیے ہوتے تھے،ایک حصہ فجر سے ظہر تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ رہتا اور دوسرا حصہ کاروبار دنیا میں مشغول ہوتاجبکہ ظہر بعد پہلا حصہ دنیا میں مشغول ہوجاتااور دوسرے حصے کے اصحاب صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے فیض یاب ہوتے تھے۔
    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم بہت کم بولتے تھے اور مجلس میں کافی کافی دیر تک خاموشی رہتی۔ فضول سوال کرنا سخت ناپسند تھا،ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ ”حج فرض ہے“،ایک مسلمان نے سوال داغ دیا کہ کیا ہرسال؟؟اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگےااور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم خاموش ہوگئے۔ غصہ تحلیل ہونے پر فرمایا مجھ سے سوال کیوں کرتے ہو؟؟ اگر میں ہاں کہ دیتا تو پھر۔ قرآن مجید نے بھی مسلمانوں کو منع کیا کہ بنی اسرائیل نے جس طرح حضرت موسٰی علیہ السلام سے سوال کیے تھے تم نہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے اس طرح سوال نہ کرو۔تاہم اہم سوال کا جواب دیا کرتے تھے مثلاً محفل میں خوشبو پھیل جانے پر مسلمانوں کو اندازہ ہوجاتا تھا کہ جبریل علیہ السلام آ گئے ہیں،ایک بار مسلمانوں نے پوچھا کہ جبریل علیہ السلام ہمیشہ اس طرف والی گلی سے کیوں آتے ہیں؟؟ تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا اس لیے کہ اس گلی میں حضرت حسان بن ثابت ؓکا گھر ہے جو نعت گو شاعر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم تھے۔
    ظہر سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اپنے حجرے میں تشریف لے آتے اور تھوڑی دیر کے لیے قیلولہ فرماتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا ارشادمبارک ہے کہ رات کو اٹھنے (تہجدپڑھنے)کے لیے دوپہر کے سونے سے مدد لو۔اس دوران کوئی ملنے گھر پر آجاتا تو طبیعت اقدس پر ناگوار گزرتاتھا، لیکن آپ کااخلاق اتنا بلند تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے کبھی اپنی ناگواری کا اظہار نہیں فرمایاتھا،اس پر اﷲ تبارک وتعالی نے سورة حجرات میں مسلمانوں کو حکم دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم جب اپنے گھر میں استراحت فرمارہے ہوں توانکو آوازیں نہ دیا کرو بلکہ مسجد میں بیٹھ کر انکا انتظار کیاکرو۔ قیلولہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ظہر کے لیے نکلتے اور مسلمانوں کو ظہر کی نماز پڑھاتے تھے۔
    کھانے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو کدو شریف پسند تھا،بکری کی اگلی ٹانگ، دستی، شوق سے تناول فرماتے تھے، سفید لباس خوش ہو کر پہنتے تھے، زندگی بھر میں ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے سرخ دھاری دار کپڑے بھی زیب تن کیے تھے۔ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم یمنی چادر اوڑھ کر بیٹھے تھے اور مسلمانوں کے درمیان بیٹھے ایسے لگ رہے تھے جیسے ستاروں میں چاند جگمگارہاہو، سب مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو شوق سے دیکھ رہے تھے کہ ایک صحابیؓ نے وہ چادرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے مانگ لی، عادت مبارکہ تھی کہ مانگنے والے کو انکار نہیں کیاکرتے تھے،اس کو چادر دے دی تو سب مسلمان اس آدمی سے ناراض ہوگئے اس پر اس آدمی نے کہا کہ میں اس سے اپنا کفن بناؤں گا اور دوزخ کی آگ سے محفوظ و مامون ہوجاؤں گا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو خوشبو بہت پسند تھی،خوشبو کا تحفہ لیاکرتے تھے اور دیا بھی کرتے تھے۔جانوروں میں بلّی سے بہت پیار تھاکبھی غصہ آتا تو کپاس کا گولہ بلی کو دے مارتے تھے۔ مسلمانوں کو نمازکی بہت تاکیدکرتے تھے اورجب بھی کوئی مشکل وقت ہوتا توخود بھی نماز میں کھڑے ہوجاتے۔دعائیں اور مناجات بہت کثرت سے کرتے تھے اور مسلمانوں کو بھی اسکی تلقین کرتے تھے۔
    ”گوہ “ایک حلال جانور ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو کھانے میں پسند نہ تھا، بدبو سے بہت نفرت تھی اسی لیے کثرت سے مسواک کرتے تھے سوکر اٹھنے پر مسواک کرتے ،وضومیں مسواک کرتے اور اگلی نماز میں گزشتہ وضو برقرار ہوتا تب بھی نماز شروع کرنے سے قبل مسواک دانتوں پر پھیرا کرتے تھے اورکافی دیر گزر جاتی تو بھی مسواک کرلیتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے حکم دیا کہ جب اپنی بیویوں کے پاس جاؤ تو دانت صاف کرکے جاؤ یعنی اس دوران منہ سے بو نہیں آنی چاہیے۔ فجر کے بعد سونااور عشاء کے بعد محفلیں جمانا بہت ناپسند تھا، راستوں میں بیٹھنے سے بھی آ ُپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے منع فرمایا۔ایک صحابیؓ پرندوں کے بچے اٹھالائے تو آپ نے سخت ناپسند فرمایا اور اسے حکم دیا واپس چھوڑ آؤ۔مردوں کے لیے سونا، ریشم اور مخمل سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے منع فرمایا۔ رات عشاءکے بعد جلد سوجانے کے عادی تھے اور سونے سے پہلے قرآن مجید کی کچھ آیات کی تلاوت کر کے سوتے تھے جن میں چاروں قل اور آیت الکرسی کی روایات بہت ملتی ہیں۔

    اﷲ تعالٰی ہمیں بھی معمولات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،آمین۔

  2. #2
    Doctor is offline Senior Member+
    Last Online
    13th September 2009 @ 08:57 AM
    Join Date
    26 Sep 2006
    Location
    Alkamuniya
    Age
    52
    Posts
    21,458
    Threads
    1525
    Credits
    1,000
    Thanked
    36

    Default

    bhai eis ki source bhi likh dain

    Thanks

Similar Threads

  1. Replies: 4
    Last Post: 17th April 2022, 09:38 PM
  2. Replies: 6
    Last Post: 17th April 2022, 09:30 PM
  3. Replies: 25
    Last Post: 29th October 2012, 09:08 PM
  4. Replies: 2
    Last Post: 13th August 2011, 06:44 PM
  5. Replies: 3
    Last Post: 12th July 2011, 07:46 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •