Page 1 of 2 12 LastLast
Results 1 to 12 of 22

Thread: ** اسلام میں مختلف فرقے بننے کے اسباب ***

  1. #1
    Kartos Khan's Avatar
    Kartos Khan is offline Senior Member+
    Last Online
    30th June 2010 @ 11:58 AM
    Join Date
    18 Apr 2006
    Location
    Saudi Arabia
    Age
    45
    Posts
    90
    Threads
    27
    Credits
    0
    Thanked
    0

    Default ** اسلام میں مختلف فرقے بننے کے اسباب ***

    اسلام میں مختلف فرقے بننے کے اسباب

    اہل کتاب (یہود و نصارٰی) کے اختلافات کے اسباب و وجوہ پر قرآن مجید کی بیشمار آیتیں شاہد ہیں جن اسباب سے اہل کتاب میں اختلاف پھوٹنے وہ اسباب امت مُسملہ میں بھی مدت دراز سے وجود پذیر ہو چکے ہیں اور اختلافات باہمی کا جو نتیجہ یہود و نصارٰی کے حق میں نکلا تھا مسلمان بھی صدیوں سے اس کا خمیازہ اُٹھا رہے ہیں۔ کتاب الہٰی کو پس پشت ڈالنے اور انبیاء کی سنت و طریقے کو فراموش کردینے اور اس کی جگہ کم علم اور دنیا ساز علماء اور گمراہ مشائخ کی پیروی اختیار کرنے کا جو وطیرہ اہل کتاب نے اختیار کر رکھا تھا مسلمان بھی عرصہ دراز سے اسی شاہراہ پر گامزن ہیں واضع مسائل اور اختراع بدعتا سے دین کو تبدیل کرنے کا جو فتنہ یہود و نصارٰی نے برپا کیا تھا بدقسمتی سے مسلمان بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے دین حنیف کا حلیہ بگاڑ چکے ہیں۔۔۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمت میں اختلاف بے حد ناگوار تھا۔ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم گذشتہ اُمتوں کی مثال دے کر اپنی اُمت کو باہمی اختلاف سے ڈرایا کرتے تھے۔ حدیث کے الفاظ ہیں۔۔۔

    حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک دن میں دوپہر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کی آواز سنی جو کسی آیت کی نسبت آپس میں اختلاف کر رہے تھے پس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے اور آپ کے چہرہ مبارک پر غصہ کے آثار ظاہر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بات یہی ہے کہ تم سے پہلے لوگ کتاب اللہ میں اختلاف کرنے ہی کے سبب ہلاک ہوگئے۔(مشکوٰۃ باب الاعتصام صفحہ ٢٠)۔۔۔

    قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو دین میں اختلاف پیدا کرنے اور مختلف فرقوں میں بٹ جانے سے منع فرمایا ہے۔۔۔

    اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان ہے!۔
    اور اُن لوگوں کی طرح نہ ہونا جو متفرق ہو گئے اور احکام بین آنے کے بعد ایک دوسرے سے (خلاف و) اختلاف کرنے لگے یہ وہ لوگ ہیں جن کی قیامت کے دن بڑا عذاب ہے۔(ال عمران۔١٠٥)۔


    یہ آیت دین میں باہمی اختلافات اور گروہ بندی کی ممنانعت میں بالکل واضع اور صریح ہے۔ اللہ تعالٰی نے گذشتہ اُمتوں کا ذکر کرتے ہوئے اُمت مسلمہ کو ان کی روش پر چلنے سے منع فرمایا ہے۔ (تفسیر خازن) میں اس آیت کے ذیل میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول نقل کیا گیا ہے۔۔۔

    حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس آیت میں مومنوں کو آپس میں متحد رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور ان کو اختلاف و فرقہ بندی سے منع کیا گیا ہے اور ان کو خبر دی گئی ہے کہ پہلی اُمتین صرف آپس کے جھگڑوں اور مذہبی عداوتوں کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، بعض نے کہا ان سے اس اُمت کے بدعتی لوگ مراد ہیں اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ حروری خارجی ہیں۔(تفسیر خازن، علامہ علاء الدین ابو الحسن بن ابراہیم بغدادی جلد ١ صفحہ ٢٦٨)۔۔۔

    بعض لوگ (اختلاف اُمتی رحمۃ) کی روایت کو صحیح قرار دے کر اُمت مسلمہ کے ہر اختلاف کو بے پرواہی سے دیکھتے ہیں حالانکہ محدثین کے نزدیک یہ روایت ثابت امام سخاوی رحمہ اللہ نے (المقاصد الحسنہ) میں اور ملا علی قاری حنفی نے (موضاعات کبیر) میں اس روایت کا بے اصل ہونا ثابت کیا ہے (مجمع البحار) کے خاتمہ پر شیخ محمد طاہر پٹنی گجراتی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے موضوع ہونے پر بڑی سیر حاصل بحث کی ہے اس لئے اختلاف اُمت کو رحمت سمجھنے والوں کو اپنی غلط فہمی دور کر لینی چاہئے۔۔۔

    اُمت مسلمہ میں اختلاف اور باہمی نزاع پیدا ہونے اور مختلف فرقے بن جانے کی پیشنگوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی مرتبہ فرمائی تھی بہت سی صحیح احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان پیشنگوئیوں کا تذکرہ ہے۔

    حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ نے ارشاد فرمایا تم پہلی اُمتوں کی پیروی میں ایسے برابر ہو جاؤ گے جیسے تیر سے تیر، یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گھسے تھے تو تم بھی گھسو گے صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا، کیا یہود و نصارٰی کی پیروی مسلمان کریں گے؟؟؟۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اور کون ہوسکتا ہے؟؟؟ (بخاری ومسلم)۔۔۔

    صحیح مسلم میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ!۔
    اللہ تعالٰی نے زمین کو میرے سامنے اس طرح سمیت دیا کہ مشرق و مغرب تک بہ یک وقت دیکھ دہا تھا اور میری اُمت کی حدود مملکت وہاں تک پہنچیں گی جہاں تک مجھے زمین کو سمیٹ کر دکھایا گیا ہے اور مجھے دو خزانے عطاء فرمائے گئے ہیں ایک سرخ اور دوسرا سفید۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالٰی سے اپنی اُمت کے بارے میں عرض کیا تھا کہ اسے ایک ہی قحظ سالی میں صفحہ ہستی سے نہ مٹایا جائے اور یہ کہ میری اُمت پر مسلمان کے علاموہ کوئی خارجی دشمن مسلط نہ کیا جائے جو مسلمان کے بلادو اسباب کو مُباح سمجھے۔ چنانچہ اللہ تعالٰی نے جوابا ارشاد فرمایا کہ اے محمد! جب میں کسی بات کا فیصلہ کر دیتا ہوں تو اسے ٹالا نہیں جاسکتا میں نے آپ کی اُمت کے بارے میں آپ کو یہ وعدہ دے دیا ہے کہ اسے ایک ہی قحط سالی میں تباہ نہیں کیا جائے گا اور دوسرے یہ کہ ان کے اپنے افراد کے علاوہ کسی دوسرے کو ان پر مسلط نہیں کیا جائے گا جو ان کے مملو کہ مال واسباب کو مُباح سمجھ لے اگرچہ کفر کی ساری طاقتیں اکٹھی ہو کر مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے جمع کیوں نہ ہوجائیں ہاں! مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک کرتے رہیں گے۔۔۔

    حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں لکھا ہے اور اس میں یہ الفاظ زائد ہیں۔۔۔
    میں اپنی اُمت کے بارے میں ان کے گمراہ کن پیشواؤن سے ڈرتا ہوں اور جب میری اُمت میں آپس میں تلوار چل پڑے گی تو قیامت تک نہ رُک سکے گی اور اس وقت تک قیامت نہ ہوگی جب تک میری اُمت کی ایک جماعت مشرکوں سے نہ مل جائے اور یہ کہ میری اُمت کے بہت سے لوگ بُت پرستی نہ کرلیں اور میری اُمت میں تیس جھوٹے دجال پیدا ہوں گے جو سب کے سب نبوت کا دعوٰی کریں گے حالانکہ میں آخری نبی ہوں میرے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آئے گا اور میری اُمت میں ایک گروہ حق پر قائم رہے گا اور فتح یاب ہوگا جن کی مدد چھوڑنے والے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالٰی کا حکم آجائے گا۔۔۔

    حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!۔
    جو فتنہ بنی اسرائیل پر آیا، وہی قدم بہ قدم میری اُمت پر آنے والا ہے کہ اگر اُن میں سے ایک شخص ایسا ہوا ہے جس نے اعلانیہ اپنی ماں کے ساتھ زنا کیا ہوگا تو میری اُمت میں بھی ایسا شخص ہوگا جو یہ حرکت کرے گا بنی اسرائیل میں پھوٹ پڑنے کے بعد بہتر (٧٢) فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے اور میری اُمت تہتر (٧٣) فرقوں میں متفرق ہو جائے گی ان میں سے بہتر (٧٢) دوزخی ہوں گے اور ایک فرقہ ناجی یعنی جنتی ہوگا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا۔ یارسول اللہ ! ناجی فرقہ کون سا ہوگا؟؟؟۔۔۔ فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے طریقے پر چلتا ہوگا۔(ترمذی)۔۔۔


    اس حدیث مبارک میں اُمت کے اندر تفریق و گروہ بندی کی جو پیشنگوئی تھی وہ محض بطور تنبیہہ و نصیحت تھی۔ لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں کے مختلف فرقوں نے اس حدیث کو اپنے ڈھال بنا لیا ہے اور (ما انا علیہ واصحابی) کی کسوٹی سے صرف نظر کرتے ہیں ہر گروہ اپنے آپ کو (ناجی فرقہ) کہتا ہے اور اپنے علاوہ دیگر تمام مکاتب فکر و ضال و مضل اور بہتر (٧٢) باری فرقوں میں شمار کرتا ہے۔۔۔

    حالانکہ اگر اس حقیقت پر غور کیا جائے کہ اختلاف مسالک اور فروعات دین مختلف الرائے ہونے کے باوجود تمام مسلمان جو اللہ تعالٰی پر اس کے ملائکہ پر اس کے رسولوں پر قیامت کے دن پر اچھی یا برُی تقدیر کے منجانب اللہ ہونے پر اور موت کے بعد دوبارہ اٹھنے پر ایمان رکھتے ہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہونے پر حج کرتے ہیں معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکرات سے روکتے ہیں تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک یہ سب مومن ہیں۔ بشرطیکہ وہ اللہ کی ذات یا اس کی صفات میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرتے ہوں احادیث قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں تمام مومنین کو آپس میں بھائی بھائی کہا گیا ہے۔۔۔

    اور قرآن مجید میں انہیں ایسی جنتیں دینے کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ہمشہ ان میں رہیں گے۔۔۔

    ارشاد باری تعالٰی ہے!۔
    جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کو اللہ بہشتوں میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں داخل فرمائے گا۔۔۔

    یہ اور اس طرح کی بیشمار آیتیں قرآن مجید میں موجود ہیں، جن میں مومنین صالحین کی مغفرت اور فوز و فلاح کا وعدہ کیا گیا ہے اور کفارہ مشرکین کے لئے جہنم کی وعید سنائی گئی ہے جو شخص دین کی مبادیات پر ایمان رکھتا ہو اور ارکان اسلام پر عمل پیرا ہو وہ دین کے فروعات میں دیگر مسلمانوں سے اختلاف رائے رکھنے کے باوجود مومن و مسلم ہی رہتا ہے ایمان سے خارج نہیں ہوتا ہے دین کا فہم نہ تو سب کو یکساں عطا کیا گیا ہے اور نہ ہی اللہ تعالٰی نے تمام انسانوں کے ذہن صلاحیتیں اور طبائع ایک جیسے رکھے ہیں بہرحال یہ طے شدہ بات ہے کہ فروعی اختلافات میں قلت فہم کی بنا پر دو فریقوں میں ایک یقینی طور پر غلطی پر ہوگا اور دوسرے فریق کا نظریہ درست اور شریعت کے مزاج و احکام کے مطابق لہذا ایسی صورت میں جو فریق دانستہ پر غلطی پر ہے تو اس کا دینی اور اخلاقی فرض یہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنی (انانیت) اور کبرہ غرور کو پس پشت ڈال کر اس غلطی تائب ہو جائے اور اپنی کم فہمی اور جہالت کے لئے اللہ تعالٰی سے مغفرت طلب کرے بلاشبہ وہ غفور رحیم ہے اور اگر اس فریق سے غلطی کا ارتکاب نادانستہ طور پر ہو ریا ہے تو اس کا شمار (سئیات) میں ہوگا ایسی صورت میں فریق مخالف یعنی فریق حق کا فرض ہوگا کہ وہ اپنے بھائیوں کو نرمی محبت اور دلسوزی سے سمجھائیں اور صحیح راہ عمل واضع کریں اس کے باوجود بھی اگر دوسرا فریق سمجھ کر نہیں دیتا تو اس کے لئے ہدایت کی دُعا کریں آپ اپنی ذمداریوں سے سبکدوش ہوگئے مسلمانوں کی سئیات یعنی کوتاہیوں کے بارے میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے۔۔۔

  2. #2
    Kartos Khan's Avatar
    Kartos Khan is offline Senior Member+
    Last Online
    30th June 2010 @ 11:58 AM
    Join Date
    18 Apr 2006
    Location
    Saudi Arabia
    Age
    45
    Posts
    90
    Threads
    27
    Credits
    0
    Thanked
    0

    Default

    اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کئے اور ان سب چیزوں پر ایمان لائے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئیں وہ چیزیں ان کے رب کے پاس سے امر واقعی ہیں تو اللہ تعالٰی ان کی کوتاہیوں کو درگذر فرمائے گا اور ان کی حالت درست کردے گا۔۔۔

    لہذا معلوم ہوا کہ جب اللہ تعالٰی اپنے بندوں سے ایمان و عمل صالح کے مطالبہ کو پورا کرنے کے بعد ان کے تمام گناہوں اور کوتاہیوں کو معاف کرنے کا اعلان عام کر رہا ہے تو دوسروں کو یہ حق کب پہنچتا ہے کہ وہ اپنے صاحب ایمان بھائیوں کو محض فروعی اختلاف کی بنا پر جہنم رسید کر دیں اور ان کا شمار ان بہتر (٧٢) ناری فرقوں میں کرتے رہیں جو خارج از ایمان ہونے کی بنا پر زبان وحی و رسالت سے دوزخی قرار پائے؟؟؟۔۔۔ کیا ان کی یہ روش اللہ کے کلام کو جھٹلانے کے مترادف نہیں ہے؟؟؟۔۔۔

    گذشتہ صفحات میں جو حدیث مبارک اُمت مسلمہ میں تہتر (٧٣) فرقوں کے ہونے کی پیشنگوئی سے متعلق گذری ہے اسے امام ترمذی رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اور ابوداؤد رحمہ اللہ نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے حدیث کے الفاظ یہ ہیں۔۔۔

    یہود اکہتر (٧١) اور نصارٰی بہتر (٧٢) فرقوں میں بٹ گئے اور یہ اُمت مسلمہ عنقریب تہتر (٧٣) فرقوں میں بٹ جائے گی ایک کو چھوڑ کر سارے فرقے جہنم رسید ہوں گے ہم نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ جہنم سے بچ جانے والا فرقہ کون سا ہوگا؟؟؟۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اس طور طریقے پر ہوگا جس پر اس وقت میں اور میرے صحابہ ہیں۔۔۔

    اس حدیث میں افتراق اُمت مسلمہ کی پیشنگوئی کے لئے (ستفترق) کا لفظ آیا ہے جس کا مطلب ہے کہ (عنقریب یا بہت جلد متفرق ہو جائیں گے) عربی زبان کے قواعد کے مطابق مستقبل قریب کے لئے مضارع کے صیغہ کے شروع میں (س) کا اضافہ کیا جاتا ہے اور مستقبل بعید کے لئے لفظ (سوف) لکھا جاتا ہے جیسے قیامت کے وقوع اور جہنم کو سر کی آنکھوں سے دیکھنے کے لئے (سورہ الہاکم التکاثر) میں (کلا سوف تعلمون ) لئے الفاظ سے آگاہ کیا گیا ہے یعنی (ہر گز نہیں جلد ہی تمہیں معلوم ہوجائے گا) چونکہ اس حدیث میں (سوف تفترق) کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا ہے بلکہ (ستفترق) کہا گیا ہے اس لئے اس حدیث کی رد سے اُمت مسلمہ میں بہتر (٧٢) فرقوں کا وجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے فورا بعد ہونا لازم آتا ہے اور فی الحقیقت ایسا ہوا بھی ہے پہلی صدی ہجری میں ہی بہتر (٧٢) گمراہ فرقوں کا وجود شروع ہوگیا تھا جن کی تشریح اور وضاحت علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ علیہ نے جو چھٹی صدی ہجری کے بزرک اور جید عالم ہیں اپنی کتاب (تلبس ابلیس) میں کی ہے البتہ اس کے بعد بہت سے فرقے اُمت مسلمہ میں پیدا ہوتے رہے ہیں اور آج بھی کئی نئے فرقے موجود ہیں جیسے قادیانی، نصیری، بہائی، اور اہل تصوف وغیرہ لیکن ان کے وجود سے اس حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ بعد میں پیدا ہونے والے تمام فرقے لازمی طور پر ان بہتر (٧٢) گمراہ فرقوں کے خیالات کا چربہ یا ان کا نیا ادیشن ہیں۔ یہ بات ان کے خیالات اور معتقدات کا بغور مطالعہ کرنے اور انہیں قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھنے سے نآسانی معلوم کی جاسکتی ہے بہرحال بنیادی طور پر اُمت مسلمہ میں بہتر (٧٢) گمراہ فرقے رہیں گے اس سے زیادہ کبھی نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ صادق و مصدوق نبی کرام صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اور آپ کا فرمان کبھی غلط نہیں ہوتا اور اگر تہتر سے عدد مخصوص نہیں بلکہ کثرت مراد لی جائے۔(جیسا کہ اہل علم کی ایک جماعت کی رائے ہے) تو ایسی صورت میں واقعہ حال اور حدیث میں سرے سے کوئی تعارض ہی نہیں ہوگا۔

    فرقہ بندی کی ابتداء
    اُمت مسلمہ میں فرقہ واریت کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں سب سے پہلے سبائیوں کا فتنہ پیدا ہوا جس کا بانی عبداللہ بن سبا یہودی تھا، جو اسلام میں فتنہ انگیزی کی غرض سے بظاہر مسلمان ہوگیا تھا اسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے استحقاق خلافت کے متعلق تو کچھ کہنے کی جرات نہیں ہوئی البتہ ان کے نظم ونسق کے خلاف نکتہ چینی اور سیاسی تحریک اس یہودی نے مصر و عراق کے نو مسلموں کی مدد سے شروع کر دی ان سبائی باغیوں نے مدینہ منورہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور اس شورش کے تنیجہ میں بالآخر ١٨ ذی الحجہ ٣٥ ھ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان باغیوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔۔۔

    حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے بعد جب انصار و مہاجرین کے متفقہ انتخاب سے حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو سبائی باغیوں کا یہ گروہ بھی ان سے بیعت خلافت لینے میں پیش پیش تھا ادھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب خون عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کا مطالبہ کیا اور مجرموں کو خود سزا دینے کی غرض سے خلیفہ وقت سے علیحیدہ ہو کر کے نہ صرف یہ کہ ملک شام میں اپنی الگ حکومت قائم کر لی بلکہ اس تنازع کے نتیجہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ میں اس قدر اختلاف اور بگاڑ پیدا ہوگیا کہ بالآخر دونوں کے لشکر ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوگئے اس طرح جنگ جمل اور پھر جنگ صفین میں مسلمانوں کے آپس میں ٹکرا جانے سے بڑا خوں خرابہ ہو تھا آخر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی تجویز فریقین میں قرآن مجید کو حکم بنانے کا فیصلہ ہوا۔ سبائی گروہ جو کہ فتنہ انگیز تھا اور مسلمانوں میں باہم صلح و صفائی ان یہود فطرت لوگوں کو پسند نہیں تھی اس لئے انہوں نے تحکیم کے اس فعل کے خلاف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بھرپور مخالفت کی اور ان کی اطاعت سے خارج ہو کر ایک علیحدہ گروہ بنا لیا اس لئے اس کا نام (خارجی) پڑ گیا ان کا کہنا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اللہ کو چھوڑ کر ایک انسان کا (حکم) مانا ہے اور یہ امر قرآن مجید کی آیت۔۔(افغیر اللہ ابتغی حکما) کی رد سے شرک ہے اور مشرک کی اطاعت جائز نہیں ان لوگوں کے نزدیک ہر کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر ہے اور وہ سدا دوزخ میں رہے گا۔۔۔

    سبائیوں کا ایک بڑا گروہ جو (حرورا) کے مقام پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت سے خارج ہو گیا تھا اس مناسبت سے (حروری خارجی) کہلایا اور باقی سبائی جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں رہے (شیعان علی) کے نام سے موسوم ہوئے انہوں نے خارجیوں کے برخلاف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں غُلو اختیار کر کے الوہیت کا مرتبہ دے دیا اس طرح شیعہ مذہب کا ظہور ہوا چنانچہ جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم سے الک ہو کر دہ گمراہ فرقے وجود میں آگئے۔۔۔


    ١۔ خارجی۔۔۔
    ٢۔ رافضی شیعہ



  3. #3
    Muslim is offline Senior Member+
    Last Online
    15th July 2010 @ 11:26 PM
    Join Date
    01 Oct 2006
    Posts
    172
    Threads
    26
    Credits
    0
    Thanked
    10

    Default

    Jazak Allahu Khairan , very informative

  4. #4
    Muslim is offline Senior Member+
    Last Online
    15th July 2010 @ 11:26 PM
    Join Date
    01 Oct 2006
    Posts
    172
    Threads
    26
    Credits
    0
    Thanked
    10

    Default


  5. #5
    Kartos Khan's Avatar
    Kartos Khan is offline Senior Member+
    Last Online
    30th June 2010 @ 11:58 AM
    Join Date
    18 Apr 2006
    Location
    Saudi Arabia
    Age
    45
    Posts
    90
    Threads
    27
    Credits
    0
    Thanked
    0

    Default


    علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ اپنی کتاب (تلبس ابلیس) میں لکھا ہے کہ خوارج میں سب سے اول اور سب سے بدتر ذوالخویصرہ تمیمی تھا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے کمائے ہوئے چمڑے کے تھیلے میں کافی مقدار میں سونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تھا یہ سونا خال میں مخلوط تھا اس سے صاف نہیں کیا گیا تھا اس سونے کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زید الخیل اقرع بن حابس، عسیینہ بن حصصن اور علقمہ بن ثلاثہ یا عامر بن الطفیل چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا عمارہ راوی کو شک ہے کہ علقمہ بن ثلاثہ کا نام لیا تھا یا عامر الطفیل کا اس سے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم کو آزردگی ہوئی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم مجھے امین نہیں سمجھتے ؟؟۔۔ حالانکہ میں آسمان والے کا امین ہوں مجھے ہر صبح و شام آسمان سے خبریں پہنچتی ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص ایا جس کی آنکھ اندر کو دھنسی ہوئی، پیشانی اُبھری ہوئی، کانوں کا گوشت چٹھا ہوا تھا اس کی داڑھی کے بال بہت گھنے تھے وہ پنڈلیوں پر اونچی ازار باندھے اور سرگھٹائے (منڈائے) ہوئے تھا اس نے آگر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !۔ اللہ سے ڈرو یعنی انصاف کرو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سر اُٹھایا اور فرمایا؛ کیا میں اللہ سے تقوٰی کرنے میں سب سے بڑھ کر لائق نہیں ہوں؟؟؟۔۔۔ پھر وہ شخص پیٹھ پھیر کر جانے لگا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں اس منافق کی گردن نہ ماروں؟؟؟۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شاید وہ نماز پڑھتا ہو اس پر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ بعض نمازی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے مُنہ سے ایسی باتیں کہتے ہیں جو اُن کے دل میں نہیں ہوتیں یہ سُن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے دل چیر کر دیکھوں اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس شخص کی طرف دیکھا جو پیٹھ پھیرے جارہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ آگاہ رہو اس کے جھتے سے ایک قوم نکلے گی جو قرآن پڑھیں گے مگر وہ اُن کے حلق سے نہیں اُترے گا اور وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوجائیں گے جس طرح کمان سے تیر نکل جاتا ہے یہ شخص جس نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کی تھی ذوالخویصرہ تمیمی تھا یہ سب سے پہلا خارجی تھا اسی خارجی کے تابعین وہ لوگ تھے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نہروان کے مقام پر جنگ کی تھی۔(تلبس ابلیس، علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ صفحہ ١١٩(۔۔۔

    صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ہی سے خوارج کے متعلق ایک دوسری روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ تم میں سے ایک قوم نکلے گی کہ ان کی نماز کے مقابلہ میں تم اپنی نماز کو حقیر سمجھو گے اور ان کے روزے کے مقابلہ میں تمہیں اپنے روزے بے حقیقت معلوم ہوں گے اسی طرح ان کے دیگر اعمال کے مقابلے میں تمہیں اپنے اعمال حقیر نظر آئیں گے یہ لوگ قرآن پڑھیں گے مگر ان کے حلق سے نہیں اُترے گا اور وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے نشانے سے تیر نکل جاتا ہے۔۔۔

    حضرت عبداللہ بن اوفی رضی اللہ عنہ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!۔ خوارج جہنمیوں کے کُتے ہیں ۔۔۔

    عبدالرحمٰن بن ملجم خارجی، جس نے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے شہید کیا تھا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد جب اُس کی قصاص میں قتل کرنے کے لئے قید خانہ سے نکالا گیا اور حضرت عبداللہ بن جعفر نے اس کے ہاتھ پاؤن کاٹ دیئے تو اس نے کچھ آہ و فریاد نہیں کی پھر گرم سیخ سے اس کی آنکھوں میں سلائی پھیری گئی تو بھی اس نے کچھ اُف نہیں کی اور نہ کوئی آہ اس کی زبان سے نکلی اس دوران وہ برابر سورہ ( اقراء باسم ربک الذی خلق) پڑھتا رہا یہاں تک کہ سورۃ ختم کردی اس حالت میں کہ اس کی آنکھوں سے مواد جاری تھا پھر جب اس کی زبان کاٹنے کا قصد کیا گیا تو وہ گھبرانے لگا اس سے پوچھا گیا کہ ایسا کیوں ہے؟؟؟۔۔۔ تو اُس نے جواب دیا کہ مجھے یہ گوارہ نہیں کہ دنیا میں کچھ دیر بھی ایسی حالت میں رہوں کہ اللہ کا ذکر نہ کر سکوں ابن ملجم ایک گندم گوں شخص تھا جس کے ماتھے پر سجدے کا گہرا نشان تھا۔۔۔

    خوارج کے عقائد۔
    نافع بن الازرق خارجی اور اس کے ساتھی یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ جب تک ہم شرک کے ملک میں ہیں تب تک مشرک ہیں اور جب ملک شرک سے نکل جائیں گے تو مومن ہوں گے ان کا کہنا تھا کہ جس کسی سے گناہ کبیرہ سرزد ہو وہ مشرک ہے اور جو ہمارے اس عقیدے کا مخالف ہو وہ بھی مشرک ہے جو لڑائی میں ہمارے ساتھ نہ ہو وہ کافر ہے۔۔۔

    ابراہیم الخارجی کا عقیدہ تھا کہ دیگر تمام مسلمان قوم کفار ہیں اور ہم کو اُن کے ساتھ سلام و دُعا کرنا اور نکاح ورشتہ داری جائز نہیں اور نہ ہی میراث میں اُن کا حصہ بانٹ کر دینا درست ہے ان کے نزدیک مسلمانوں کے بچے اور عورتوں کا قتل بھی جائز تھا کیونکہ ان کے اللہ تعالٰی نے یتیم کا مال کھانے پر آتش جہنم کی وعید سنائی ہے لیکن اگر کوئی شخص یتیم کو قتل کر دے یا اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے یا اس کا پیٹ پھاڑ ڈالے تو جہنم واجب نہیں۔(تلبس ابلیس علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ صفحہ ١٢٦ ، ١٢٧)۔۔۔

    روافض یعنی شیعوں کے عقائد و خیالات کے بارے میں گذشتہ صفحات میں (یہودیت اور شیعت کی مشترکہ قدریں) کے عنوان سے بہت کچھ بتایا جاچکا ہے اس لئے یہاں ان کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

    مختصر یہ کہ یہود کی سازش اور شرانگیزی سے اُمت مسلمہ میں شامل وہ نو مسلم اور خود غرض و طالع آزما مسلمان متاثر ہوئے جو زیادہ تر مصر و عراق کے ناشندے تھے اس قسم کے لوگ جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم اور سواد اعظم سے کٹ کر خارجی اور رافضی شیعوں کی صورت میں علیحدہ ہوگئے یہ دونوں ہی دشمن اسلام فرقے مسلمانوں سے شدید عداوت اور بغض و کدورت رکھتے تھے اور جنگ نہروان میں خارجیوں کی پزیمت اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کے ہاتھوں ان کے قتل عام نے ان کی بغض و عداوت کی آگ کو اور زیادہ پھڑکا دیا امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہم کی شہادت کا سانحہ اسی عداوت و دشمنی کا شاخسانہ تھا۔۔۔

    ان حالات میں جب ہم اس دور کے سیاسی حالات پر نظر ڈالتے ہیں اور اسلامی مفتوحہ علاقوں میں لوگوں کے مقامی رجحان و خیالات کا اندازہ لگاتے ہیں تو ہمیں صاف طور پر یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ فارس و روم کی قومیں جو اسلامی فتوحات کے سیلاب میں بہہ کر عارضی اور اضطرابی طور پر دین اسلام کی پناہ گاہ میں چلی ضرور آئی تھیں مگر انہیں اپنی ہزاروں سال پرانی تہذیب و روایات اور سلطنت و جاہ حشمت کے کھُو جانے کا بُری طرح احساس تھا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ لوگ بظاہر مسلمان ہو کر اُمت مسلمہ میں شامل ضرور ہوگئے تھے مگر ان میں بیشتر اپنے قدیم مذاہب اور تہذیب و روایات سے ذہنی وابستگی کو ختم نہیں کر پائے تھے خاص طور سے ایران کے باشندوں کو اپنی ہزاروں سالہ تہذیب و روایات اور ساسانی شوکت و جبروت اور ملک و سلطنت کے خال میں جانے کا بے حد افسوس تھا۔۔۔

    ادھر خلافت راشدہ کے سقوط کے بعد جب ملوکیت کا دور آیا اور مسلم حکمرانوں کے موروثی عربی تفاخر کے جذبات دوبارہ پیدا ہوگئے اور وہ اسلام کی تعلیمات کو پش پشت ڈال کر عرب کو عجم پر فضیلت دینے لگے تو بلا دروم اور سر زمین ایران کے نو مسلم ذہن جو پہلے ہی سے اپنے قدیم تہذیبی ورثے کی محرومی سے ملال گرفتہ تھے، مسلم حکمرانوں کی باہمی آویزش اور عرب وعجم کے سیاسی تفریق سے وہ زیادہ بددل ہوگئے ان حالات میں دشمنان اسلام یعنی خوارج اور روافض نے ان غیر مطمئن عناصر کی دلدہی کی ان کی ہمت بڑھائی اور اسلام کی طرف سے اُن کے دلوں میں شکوک و شبہات کے بیج بونے میں مصروف ہوگئے یہود و نصاریٰ کی خفیہ کوششیش اور کھلی ہمدردیاں بھی ان کے ساتھ تھیں یہ غیر مطمئن عناصر جو بظاہر مسلمان ہی تھے کھل کر اسلام کی مخالفت کرنے اور اس کے خلاف مہم چلانے کی جرآت تو نہیں کر سکتے تھے، کیونکہ اسلامی حکمرانوں کی سیاسی گرفت ان پر بہت ہی سخت اور مضبوط تھی اس لئے ان دشمنان اسلام نے عقلی اور اعتقادی راستے سے اسلام کے قلعہ میں شگاف ڈالنے کی کوششیں شروع کر دیں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نہ صرف خوارج اور روافض اور ان کے ذیلی فرقوں میں بلکہ ان کے علاوہ جتنے بھی نئے نئے فرقے وجود میں آئے ان سب میں غالب اکثریت عراق و ایران کے انہیں غیر مطمئن اور نو مسلم افراد داعیان کی نظر آئے گی ان گمراہ فرقوں کے بانی بیشتر عراق و ایران ہی کے باشندے ملیں گے جو خیر القرون میں ہونے کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے دین کو سمجھنے اور ان سے فیض اُٹھانے کے بجائے اپنی عقل و جذبات پر بھروسہ کرنے لگے تھے اور اپنی کم علمی کے باوجود دین کے فہم کے دعویدار بن بیھٹے تھے۔۔۔

    ابتداء میں جو فرقے بننے تھے وہ زیادہ تر ایک دوسرے کی ضد میں یا فریق مخالف پر اپنی ذہنی برتری اور عقل و فہم کا مظاہرہ کرنے کی دُھن میں وجود پذیر ہوئے تھے مثال کے طور پر خوارج شیعوں کے ضد میں یا جبریہ فرقہ قدریہ کی مخالفت میں وجود میں آیا تھا اور وعید یہ فرقہ مرجیہ کے خیالات کی مخالفت میں پیدا ہوا اعلیٰ ھذا القیاس۔۔۔

    علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کی تصریح کے مطابق ابتداء میں جماعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سواد اعظم سے علیحدہ ہو کر خوارج اور شیعہ فرقے بنے تھے پھر ان کے رد عمل میں مزید چار فرقے اور پیدا ہوئے یعنی قدریہ، جبریہ، جہمیہ اور مرجیہ۔ اس طرح ان گمراہ فرقوں کی کل تعداد چھ ہوگئی علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ کا بیان ہے کہ ان چھ فرقوں میں آپس میں مسلسل ٹؤٹ پھوٹ اور تفریق ہوتی رہی یہاں تک کہ ان میں سے ہر فرقہ بارہ بارہ فرقوں میں تقسیم ہو گیا اس طرح مجموعی طور پر ان گمراہ فرقوں کی تعداد حدیث نبوی کی تصریح کے مطابق بہتر (٧٢) ہو گئی۔۔۔

    سطور ذیل میں ہم اجمالی طور پر ان تمام گمراہ فرقوں اور ان کے خیالات و معتقدات کا ایک جائزہ علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ کی کتاب (تلبس ابلیس) سے پیش کر رہے ہیں۔۔۔

  6. #6
    Kartos Khan's Avatar
    Kartos Khan is offline Senior Member+
    Last Online
    30th June 2010 @ 11:58 AM
    Join Date
    18 Apr 2006
    Location
    Saudi Arabia
    Age
    45
    Posts
    90
    Threads
    27
    Credits
    0
    Thanked
    0

    Default


    بہتر (٧٢) گمراہ فرقوں کی تفصیل۔

    ابتدائی چھ گمراہ فرقوں میں سے خوارج اور شیعوں کے بارے میں گذشتہ صفحات میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے بقیہ فرقوں کے احوال اور ان سب فرقوں کی ذیلی شاخوں کی تفصیلات درج ذیل ہیں ۔۔۔

    ١۔ مرجیہ!۔
    یہ فرقہ خوارج کی ضد میں نکلا تھا ان لوگوں کا قول یہ ہے کہ مومن کو گناہ سے مطلقا کوئی ضرر نہیں پہنچے گا جس طرح کافر کو اطاعت سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا یہ عقیدہ عراق کے شہر بصرہ میں سب سے پہلے حسان بن بلال مزنی نے اختیار کیا تھا کچھ لوگ اس فرقے کا بانی ابو سلت کو بتاتے ہیں جو ١٥٢ھ میں فوت ہوا۔۔۔

    ٢۔ قدریہ!۔
    عبدالملک بن مروان کے عہد حکومت می شہر بصرہ میں ایک شخص (معبد جہنی) ظاہر ہوا جس نے تقدیر کا انکار کیا امام اوزاعی رحمۃ اللہ کا قول ہے کہ معبد نے انکار تقدیر ایک نصرانی شخص سوسن نامی سے سیکھا تھا جو کچھ مدت مسلمان رہ کر مرتد ہو گیا تھا شہر بصرہ کے بہت سے لوگ اس فتنے میں مبتلا ہو گئے اور اس طرح انکار تقدیر کی وجہ سے اس فرقے کا نام (قدریہ) پڑ گیا۔۔۔

    ٣۔ جبریہ!۔
    یہ فرقہ (قدریہ) کی ضد میں نکلا تھا ان کا عقیدہ تھا کہ انسان کچھ بھی نہیں کر سکتا جو کچھ اچھا یا بُرا انسان سے سرزد ہوتا ہے اس کا فاعل اللہ تعالٰی ہے کیونکہ تقدیر میں اس کام کا ہونا یا نہ ہونا اسی نے لکھ دیا تھا اسی طرح انسان تو محض آلہ ہے اور اسی کے ذریعہ سے ہر اچھے اور بُرے فعل کے ہونے کا ذمدار خود اللہ تعالٰی ہے۔۔۔

    ٤۔ جہیمہ!۔
    ہشام بن عبدالمالک کے عہد میں ایک شخص جعد بن درہم نے اللہ تعالٰی کی صفات کا انکار کیا تھا کوفہ میں جعد کا ایک شاگرد تھا جہم بن صفوان جو اگرچہ کوئی عالم نہیں تھا مگر بڑا چرب زبان اور فصیح اللسان تھا اس نے جعد بن درہم کے خیالات کی اشاعت نہایت زور شور سے کی اس طرح بہت سے لوگ اس کے ہم خیال ہو گئے اس فرقے کا نام جہم کے نام پر (جہمیہ) ہوا۔۔

    جعد بن درہم کو خالد بن عبداللہ القسری حاکم عراق نے عین بقرعید کے دن شہر میں یہ کہتے ہوئے قتل کر دیا تھا!۔

    لوگوں قربانیاں کرو اللہ تعالٰی تمہاری قربانیوں کو قبول فرمائے میں جعد بن درہم کو ذبح کر رہا ہوں اس کا باطل گمان ہے کہ اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دوست نہیں بنایا نہ حضرت موسٰی علیہ السلام سے کلام کیا۔۔۔

    جعد بن درھم کو قتل کر دینے پر حضرت حسن بصری اور دیگر علماء سلف نے خالد کا شکریہ ادا کیا تھا جہم بن صفوان بھی بنوامیہ کے آخری خلیفہ مروان الحمار کے عہد حکومت میں نصربن سیار حاکم خراسان کے حکم سے قتل کیا گیا۔۔۔

    جمہور اہل علم کے نزدیک بدعت و ضلالت کی جڑ یہی چھ فرقے ہیں ان میں سے ہر فرقے کی بارہ شاخیں ہیں اس طرح مجموعی طور پر ان گمراہ فرقوں کی کل تعداد (٧٢) ہو جاتی ہے۔۔۔

    تفصیل حسب ذیل ہے۔

    ١۔ خوارج کی بارہ شاخیں حسب ذیل ہیں۔۔۔

    ١۔ ازرقیہ، ٢۔ اباضیہ، ٣۔ ثعلبیہ، ٤۔ حازمیہ، ٥۔ خلفیہ، ٦۔ کوزیہ۔ ٧۔ کنزیہ، ٨۔ شمراخیہ، ٩۔ اخنسیہ، ١٠۔ محکمیہ، ١١۔ معتزلہ حروریہ، ١٢۔ میمونیہ۔۔۔

    ١۔ فرقہ ازرقیہ!۔
    فرقہ ازرقیہ کا بانی ابو راشد نافع بن ازراق خارجی تھا۔ اس فرقہ کا زعم یہ تھا کہ ہم لوگوں کو اپنے سوا کوئی مومن نہیں دیکھائی دیتا انہوں نے اہل قبلہ کو کافر قرار دے دیا تھا حالانکہ اس زمانے میں ایک جماعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اور بکثرت تابعین موجود تھے اس طرح ان کے عقیدے کے مطابق سب ہی کافر قرار پائے۔۔۔

    ٢۔ فرقہ اباضیہ!۔
    فرقہ اباضیہ کا بانی عبداللہ بن اباض تھا جس کا قول تھا کہ جو ہمارے قول کے مطابق ہو وہ مومن ہے اور جو ہم سے پھرے وہ منافق۔

    ٣۔ فرقہ ثعلبیہ!۔
    فرقہ ثلبیہ کا بانی ثعلبہ بن مشکان بن مشکان تھا اس گمراہ فرقے کا اعتقاد یہ تھا کہ اللہ تعالٰی نے نہ کچھ جاری کیا اور نہ تقدیر میں مقدر کیا۔۔۔

    ٤۔ فرقہ حازمیہ!۔
    فرقہ حازمیہ کا بانی حازم بن علی تھا اس فرقے کے ماننے والوں کا قول ہے کہ ہم نہیں جان سکتے کہ ایمان کیا چیز ہے اور مخلوق بے چاری سب معذور ہے کیونکہ ایمان کی پہچان ان کے لئے محال ہے۔۔۔

    ٥۔ فرقہ خلفیہ!۔
    فرقہ خلفیہ جس کا بانی خلف خارجی تھا اس کا قول تھا کہ جس کسی نے جہاد چھوڑا وہ کافر ہے خواہ مرد ہو یا عورت۔۔۔

    ٦۔ فرقہ کوزیہ!۔
    فرقہ کوزیہ کے عقیدے کے مطابق کسی کا دوسرے کو چھونا روا نہیں ہے کیونکہ ہمیں نجس و ناپاک کی شناخت واقعی نہیں ہوسکتی ہے اور جب تک ہمارے سامنے کوئی غسل کر کے توبہ نہ کرے اس وقت تک اس کے ساتھ کھانا جائز نہیں۔۔۔

    ٧۔ فرقہ کنزیہ!۔
    فرقہ کنزیہ کا قول ہے کہ کسی کو کچھ مال دینا حلال نہیں کیونکہ شاید وہ شخص اس مال کے پانے کا مستحق نہ ہوا ایسی صورت میں غیر مستحق کو دینا ظلم ہوگا اور اس ظلم کے گناہ سے وہ کافر ہوجائے گا بلکہ واجب یہ ہے کہ مال کو خزانہ بنا کر زمین میں دفن کر دے جب قطعی دلیل سے کوئی شخص سب سے زیادہ واجب یہ ہے کہ مال کو خزانہ بنا کر زمیں میں دفن کر دے جب قطعی دلیل سے کوئی شخص سب سے زیادہ مستحق معلوم ہو تو اس کو دے یہ گویا زکوۃٰ کی ادائیگی سے روگردانی اور انکار تھا۔۔۔

    ٨۔ فرقہ شمراخیہ!۔
    فرقہ شمراخیہ کا قول ہے کہ اجنبی عورتوں کے چھونے یا مساس کرنے سے کوئی ڈر نہیں اس لئے کہ عورتیں ریا حین بنائی گئی ہیں اور ریاحین کی خوشبو سونگھنا اور چھونا روا ہوتاہے۔۔۔

    ٩۔ فرقہ اخنسیہ!۔
    فرقہ اخنسیہ کے قول کے مطابق مرنے کے بعد میت کو کوئی بھلائی یا برائی لاحق نہیں ہوتی یعنی یہ لوگ قبر میں عذاب یا ثوات کے منکر ہیں۔۔۔

    ١٠۔ فرقہ محکمیہ!۔
    فرقہ محکمیہ کہتے ہیں کہ جو کوئی کسی مخلوق سے فیصلہ کا خواہش مند ہو یعنی اس کو ثالث یا حکم بنائے تو وہ کافر ہے اسی عقیدے کی بنیاد پر انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کافر قرار دیا تھا حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ بھی اسی بنیاد پر ان کے نزدیک کافر تھے۔۔۔

    ١١۔ فرقہ معتزلہ حروریہ!۔
    فرقہ معتزلہ حروریہ کا قول ہے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کا معاملہ ہم پر مشتبہ ہوا اس لئے ہم ان دونوں فریقوں سے بیزاری اور تبرا کرتے ہیں۔۔۔

    فرقہ میمونہ!۔
    فرقہ میمو نہ کا بانی میمون بن خالد تھا یہ فرقہ کہتا ہے کہ کوئی امام نہیں ہوسکتا جب تک کہ ہمارے چاہنے والے اس سے راضی نہ ہو۔۔۔(تلبس ابلیس، علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ صفحہ ٢٢۔٢٤)۔۔۔

  7. #7
    Kartos Khan's Avatar
    Kartos Khan is offline Senior Member+
    Last Online
    30th June 2010 @ 11:58 AM
    Join Date
    18 Apr 2006
    Location
    Saudi Arabia
    Age
    45
    Posts
    90
    Threads
    27
    Credits
    0
    Thanked
    0

    Default

    ٢۔ روافض کی بارہ شاخیں یہ ہیں۔۔۔
    ١۔ علویہ، ٢۔امریہ، ٣۔شیعیہ، ٤۔ اسحاقیہ، ٥۔ نادوسیہ، ٦۔ امامیہ، ٧۔زیدیہ، ٨۔عباسیہ، ٩۔متناسخہ، ١٠۔رجعیہ، ١١۔لاغیہ، ١٢۔متربصہ۔۔۔

    ١۔ فرقہ علویہ!۔
    فرقہ علویہ۔۔۔ کا کہنا یہ ہے کہ رسول بنانے کا پیغام اصل میں جبرئیل علیہ السلام کے ہاتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجا گیا تھا، مگر جبرئیل علیہ السلام نے غلطی سے وہ محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیا!۔ یہ بالکل وہی بات ہے جو قرآن مجید میں یہود کے بارے میں بیان کی گئی ہے یعنی یہود کہتے تھے کہ جبرئیل نے ہماری عداوت میں بنی اسرائیل کو چھوڑ کر اپنی وحی اسماعیل میں اتار دی اس لئے ہم جبرئیل کے دشمن ہیں۔۔۔

    ٢۔ فرقہ امریہ!۔
    فرقہ امریہ۔۔۔ کا کہنا ہے کہ کار نبوت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی شریک ہیں۔۔۔

    ٣۔ فرقہ شیعیہ!۔
    فرقہ شیعیہ۔۔۔ کا قول ہے کہ علی رضی اللہ عنہ وصی رسول اللہ اور آپ کے بعد خلیفہ بلافصل ہیں اُمت نے دوسرے سے بیعت کر کے کفر کیا۔۔۔

    ٤۔ فرقہ اسحاقیہ!۔
    فرقہ اسحاقیہ۔۔۔ کہتا ہے کہ نبوت تا قیامت ہوتی چلی جائے گی اور جو کوئی اہل بیت کا علم جانے وہی نبی ہوتا رہے گا۔۔۔

    ٥۔ فرقہ بادوسیہ!۔
    فرقہ نادوسیہ۔۔۔ کا اعتقاد تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اُمت میں سب سے افضل ہیں پس جو کوئی کسی دوسرے صحابی کو آپ پر افضلیت دے وہ کافر ہوگا۔۔۔

    ٦۔ فرقہ امامیہ!۔
    فرقہ امامیہ۔۔۔ کہتا ہے کہ دنیا کبھی امام سے خالی نہ ہوگی اور وہ امام اولاد حسین رضی اللہ عنہ سے ہوگا اور اُس کو جبرئیل السلام تعلیم دیتے رہیں گے جب وہ فوت ہوگا تو کوئی دوسرا اس کا قائم مقام ہوگا۔۔۔

    ٧۔ فرقہ زیدیہ!۔
    فرقہ زیدیہ۔۔۔ کے عقیدے کے مطابق نماز کے کل امام اولاد حسین رضی اللہ عنہ ہی ہیں تو جب تک ان میں سے کوئی موجود نہ ہو کسی غیر کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے خواہ وہ کتنا ہی پرہیزگار کیوں نہ ہو۔۔۔

    ٨۔ فرقہ عباسیہ!۔
    فرقہ عباسیہ۔۔۔ کا زعم تھا کہ سب سے زیادہ حقدار خلافت عباس بن عبدالمطلب تھے دوسروں نے اُن کا حق غصب کیا۔۔۔

    ٩۔ فرقہ متناسخہ!۔
    فرقہ متناسخہ۔۔۔ کا عقیدہ تھا کہ روحیں ایک بدن سے نکل کر دوسرے میں جاتی ہیں چنانچہ اگر وہ نیکوکار شخص تھا تو اس کی روح نکل کر ایسے بدن میں پڑجاتی ہے جو دنیا میں عیش کرنے والا ہے اور اگر بدکار تھا تو اس کی روح کو ایسے بدن میں ڈالا جاتا ہے جو دنیا میں مصائب و پریشانی سے زندگی بسر کرے گا۔۔۔

    ١٠۔ فرقہ رجعیہ!۔
    فرقہ رجعیہ۔۔۔کا زعم یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے اصحاب دنیا میں دوبارہ پلٹ کر آئیں گے اور یہاں اپنے دشمنوں سے بدلہ لیں گے۔۔۔

    ١١۔ فرقہ لاغیہ!۔
    فرقہ لاغیہ۔۔۔ کے ماننے والے حضرت عثمان غنی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت امیر معاویہ، حضرت ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہم اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما پر لعنت کرتے ہیں۔۔۔

    ١٢۔ فرقہ متربصہ!۔
    فرقہ متربصہ۔۔۔ کے پیروکار عابد فقیروں کا لباس پہنتے ہیں اور ہر دور میں ایک شخص کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہی اس زمانے کا صاحب الامر ہے اور یہی اس اُمت کا مہدی ہے پھر جب اس کی موت آجاتی ہے تو دوسرے کو اس کی طرح صاحب الامر مقرر کر لیتے ہیں۔۔۔(تلبس ابلیس، علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ صفحہ ٢٧۔٢٨)۔۔۔

  8. #8
    Kartos Khan's Avatar
    Kartos Khan is offline Senior Member+
    Last Online
    30th June 2010 @ 11:58 AM
    Join Date
    18 Apr 2006
    Location
    Saudi Arabia
    Age
    45
    Posts
    90
    Threads
    27
    Credits
    0
    Thanked
    0

    Default

    (٣)۔ فرقہ مرجیہ کی بارہ شاخیں اس طرح ہیں!۔
    ١۔ تارکیہ، ٢۔ سائیبیہ، ٣۔ راجیہ، ٤۔ شاکیہ، ٥۔ تیہسیہ، ٦۔ عملیہ، ٧۔ مستثنیہ، ٨۔ مشبہ، ٩۔ حشویہ، ١٠، ظاہریہ، ١١، بدعیہ، ١٢۔ منقوصیہ۔۔۔

    ١۔ فرقہ تارکیہ!۔
    فرقہ تارکیہ۔۔۔ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالٰی کے واسطے مخلوق پر کوئی عمل فرض نہیں سوائے ایمان کے پس جب بندہ اس پر ایمان لایا اور اس کو پہچانا تو پھر جو چاہے عمل کرے۔۔۔

    ٢۔ فرقہ سائبیہ!۔
    فرقہ سائبیہ۔۔۔ کا قول ہے کہ اللہ تعالٰی نے خلق کو پیدا کر کے چھوڑ دیا ہے کہ وہ جو چاہے کریں، لیکن خلق کے اچھے بُرے اعمال کا بدلہ آخرت میں ملے گا اس بات سے یہ لوگ انکار کرتے ہیں۔۔۔

    ٣۔ فرقہ راجیہ!۔
    فرقہ راجیہ۔۔۔ کہتا ہے کہ ہم کسی بدکار کو عاصی یا نافرمان نہیں کہہ سکتے اور نہ کسی نیکوکار کو صالح اور فرمانبردار کہہ سکتے ہیں کیونکہ ہمیں معلوم نہیں کہ عنداللہ اس کا کیا مقام ہے؟؟؟۔۔۔ ان کے نزدیک بدکار کی بدکاری قابل مذمت اس لئے نہیں کہ شاید وہ اللہ تعالٰی کے نزدیک پسندیدہ بندہ ہو۔۔۔

    واضع رہے کہ یہی قبیح گمراہی عامۃ المسلمین میں بھی تصوف کے راستے گھس آئی ہے آج بھی بہت سے مسلمان گمراہ صوفیوں کے قبیح اور غیر شرعی اعمال کی توجیہہ اسی طرح کرتے ہیں۔۔۔

    ٤۔ فرقپ شاکیہ!۔
    فرقہ شاکیہ۔۔۔ کا عقیدہ ہے کہ نیک اعمال اور طاعات ایمان کا جزء نہیں ہے۔۔۔

    ٥۔ فرقہ بیہسیہ!۔
    فرقہ بیہسیہ۔۔۔ کا قول ہے کہ ایمان علم ہے جس نے حق کو باطل سے تمیز کرنا نہ جانا وہ کافر ہے۔۔۔

    ٦۔ فرقہ عملیہ!۔
    فرقہ عملیہ۔۔۔ کا کہنا ہے کہ ایمان فقط عمل کا نام ہے جو عمل نہیں کرتا وہ ایمان سے خارج اور قطعی کافر ہے۔۔۔

    ٧۔ فرقہ مستثنیہ!۔
    فرقہ مستثنیہ۔۔۔ نے ایمان سے استثناء (یعنی یہ کہنا کہ میں مومن ہوں، انشاء اللہ) سے انکار کیا۔۔۔

    ٨۔ فرقہ مشبہ!۔
    فرقہ مشبہ۔۔۔ کے ماننے والے کہتے ہیں کہ اللہ کی آنکھ ہماری آنکھ کی طرح ہے اور کے ہاتھ پاؤن بعینیہ ہمارے ہاتھ پاؤں جیسے ہیں۔۔۔

    ٩۔ فرقہ حشویہ!۔
    فرقہ حشویہ۔۔۔ نے سب احادیث کا ایک ہی حکم ٹہرایا چنانچہ ان کے نزدیک فرض ترک کرنے کا حکم ایسا ہی ہے جیسا نفل ترک کرنے کا ان لوگوں کے خیال کے مطابق قرآن کے حروف مقطعات یعنی الم، حم، وغیرہ قرآن سے زائد اور بے معنی حروف ہیں اور جو آیتیں عذاب کا خوف دلانے والی ہیں وہ فقط دھمکی ہیں۔۔۔

    ١٠۔ فرقہ ظاہریہ!۔
    فرقہ ظاہریہ۔۔۔۔ کے ماننے والے شرعی مسائل میں قیاس سے حکم اجتہادی نکالنے سے انکار کرتے ہیں۔۔۔

    ١١۔ فرقہ بدعیہ!۔
    فرقہ بدعیہ۔۔۔ یہی وہ فرقہ ہے جس نے اول اول اُمت مسلمہ میں بدعات نکالنے کی ابتداء کی اور دین میں نئی نئی باتوں کو عقیدت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اولیاء اللہ کی محبت کے غلاف میں لپیٹ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا اسی طرح بے شمار بدعات مسلمانوں میں رواج پاگئیں آج بھی یہ فرقہ مختلف ناموں سے اُمت مسلمہ کے اندر موجود ہے اور بدعت و ضلالت پھیلا رہا ہے اسی کی ٹیکنک وہی پرانی ہے یعنی جب رسول اور عقیدت اولیاء بزرگان دین کی آڑ میں یہ لوگ کاروبار بدعت و خرافات پھیلاتے ہیں بلاشہت اس دور کے تمام بدعت پرستوں کا شمار بھی اسی گمراہ فرقے میں ہوگا جو صدر اول میں (بدعیہ) کے نام سے وجود میں آیا تھا۔۔۔

    ١٢۔ فرقہ منقوصیہ!۔
    فرقہ منقوصیہ۔۔۔ کا اعتقاد ہے کہ ایمان گھٹتا بڑھتا نہیں ہے یہ لوگ اس بات کا بھی دعوٰی کرتے ہیں کہ جب ہم نے ایمان کا اقرار کر لیا تو جو کچھ نیکی کریں گے وہ مقبول ہوگی اور جو بھی گناہ اور بدکاری کریں گے وہ بخشی جائے گی چاہے توبہ کریں یا نہ کریں قطع نظر اس کے وہ گناہ کبیرہ یعنی زنا، چوری اور جھوٹ و غیبت وغیرہ ہوں یا صغیرہ گناہ۔(تلبس ابلیس، علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ صفحہ ٢٦۔٢٧)۔۔۔

  9. #9
    Kartos Khan's Avatar
    Kartos Khan is offline Senior Member+
    Last Online
    30th June 2010 @ 11:58 AM
    Join Date
    18 Apr 2006
    Location
    Saudi Arabia
    Age
    45
    Posts
    90
    Threads
    27
    Credits
    0
    Thanked
    0

    Default

    (٤) فرقہ قدریہ کی بارہ شاخیں!۔
    ١۔ احمریہ، ٢۔ ثنویہ، ٣۔ معتزلہ، ٤۔ کیسانیہ، ٥۔ شیطانیہ، ٦۔شریکیہ، ٧۔ وہمیہ، ٨۔ ربوییا راوندیہ، ٩۔ بزیہ، ١٠۔ ناکسیہ، ١١۔ قاسطیہ، ١٢۔ نظامیہ۔۔۔

    ١۔ فرقہ احمریہ!۔
    فرقہ احمریہ۔۔۔ کا قول ہے کہ اللہ تعالٰی پر عدل جاری کرنا فرض ہے اور اللہ تعالٰی کے عدل میں شرط یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ان کے کاموں کا مختار کرے اور اُن کے گناہوں کے درمیان ان میں حائل ہو کر روکے۔۔۔

    ٢۔ فرقہ ثنویہ!۔
    فرقہ ثنویہ۔۔۔ کہتا ہے کہ بھلائی تو اللہ تعالٰی کی طرف سے پیدا ہوتی ہے اور برائی ابلیس پیدا کرتا ہے۔۔۔

    ٣۔ فرقہ معتزلہ!۔
    فرقہ معتزلہ۔۔۔ کا قول ہے کہ قرآن مخلوق ہے اور آخرت میں اللہ تعالٰی کا دیدار محال ہے واضع رہے کہ اسی فرقہ عتزلہ کو عباسی خلیفہ مامون الرشید کے دور میں عروج حاصل ہوا تھا ان لوگوں کے نزدیک اللہ تعالٰی پر واجب ہے کہ اطاعت گذار بندے کو ثواب دے اور عاصہ کو اگر وہ توبہ بغیر مر گیا ہو تو لازما عذاب دے ورنہ اس کا (عدل) قائم نہ ہوگا شیعوں کی طرح یہ لوگ بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے افضل سمجھتے تھے۔۔۔

    ٤۔ فرقہ کیسانیہ!۔
    فرقہ کیسانیہ۔۔۔ کا کہنا تھا کہ ہم نہیں جانتے کہ یہ افعال جو سرزد ہوتے ہیں وہ بندوں سے پیدا ہوتے ہیں یا اللہ تعالٰی کی طرف سے پیدا ہوتے ہیں اور ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ بندے موت کے بعد ثوات پائیں گے یا انہیں عذاب دیا جائیگا۔۔۔

    ٥۔ فرقہ شیطانیہ!۔
    فرقہ شیطانیہ۔۔۔ کا قول یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے شیطان کو پیدا نہیں کیا، کیونکہ وہ صرف خالق خیر ہے خالق شر نہیں۔۔۔

    ٦۔ فرقہ شریکیہ!۔
    فرقہ شریکیہ۔۔۔ والے کہتے ہیں سب برائیاں مقدر ہیں سوائے کفر کے۔۔۔

    ٧۔ فرقہ وہمیہ!۔
    فرقہ وہمیہ۔۔۔ کا نظریہ ہے کہ مخلوق کے افعال کی ذات نہیں ہے اور نہ نیکی و بدی کی ذات ہے۔۔۔

    ٨۔ فرقہ ربویہ!۔
    فرقہ ربویہ۔۔۔ یا راوندیہ۔۔۔ کا قول ہے کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے جو کتابیں اُتری ہیں ان سب پر عمل کرنا فرض ہے خواہ کوئی اس کو ناسخ کہے یا منسوخ!۔ یعنی اس نفس پرست فرقہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر حضرت آدم علیہ السلام کے وقت میں بھائی اور بہن کا باہم نکاح دونطن مختلف سے جائز تھا تو اب بھی یہ لوگ اس پر عمل کریں گے یا اسی طرح حضرت یعقوب علیہ السلام کے وقت شریعت میں (دو) بہنوں کے ساتھ ایک وقت میں نکاح جائز تھا تو اب بھی ایسا کیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔۔۔

    ٩۔ فرقہ بزیہ!۔
    فرقہ بزیہ۔۔۔ والے کہتے ہیں کہ جس نے گناہ کرکے توبہ کی تو اس کی توبہ قبول نہ ہوگی۔۔۔

    ١٠۔ فرقہ ناکسیہ!۔
    فرقہ ناکسیہ۔۔۔ کا کہنا ہے کہ جس نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت توڑدی تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔۔۔

    ١١۔ فرقہ قاسطیہ!۔
    فرقہ قاسطیہ۔۔۔ کا قول ہے کہ دنیا میں زاہد ہونے سے افضل یہ ہے کہ دنیا تلاش کرنے میں کوشش کرے۔۔۔

    ١٢۔ فرقہ نظامیہ!۔
    فرقہ نظامیہ جو نظام ابراہیم کے پیروکاروں پر مشتمل ہے ان کا قول ہے کہ جو اللہ تعالٰی کو( شئی) کہے تو وہ کافر ہے۔(تلبس ابلیس، علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ صفحہ ٢٤۔٢٥، دیباچہ نہج البلاغہ)۔۔۔

  10. #10
    Kartos Khan's Avatar
    Kartos Khan is offline Senior Member+
    Last Online
    30th June 2010 @ 11:58 AM
    Join Date
    18 Apr 2006
    Location
    Saudi Arabia
    Age
    45
    Posts
    90
    Threads
    27
    Credits
    0
    Thanked
    0

    Default

    (٦) فرقہ جہمیہ کی بارہ شاخیں حسب ذیل ہیں۔۔۔
    ١۔ معطلہ، ٢۔ مرسیہ(مریسیہ)، ٣۔ ملتزقہ، ٤۔ واردیہ، ٥۔ زنادقہ، ٦۔ حرقیہ، ٧، مخلوقیہ، ٨۔فانیہ، ٩۔عریہ(غیریہ)، ١٠۔ واقفیہ، ١١۔ قبریہ، ١٢۔ لفظیہ۔۔۔

    ١۔ فرقہ معطلہ!۔
    اس فرقے کے نزدیک جس چیز پر انسان کا وہم پڑے وہ مخلوق ہے اور جو کوئی دعوٰی کرے کہ اللہ تعالٰی کا دیدار ممکن ہے تو وہ کافر ہے۔۔۔

    ٢۔ فرقہ مرسیہ!۔
    اس فرقے کا کہنا ہے کہ اللہ تعالٰی کی اکثر صفات مخلوق ہیں۔۔۔

    ٣۔ فرقہ ملتزقہ!۔
    اس فرقے کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالٰی ہر جگہ موجود ہے تعجب خیز بات یہ ہے کہ اس گمراہ فرقے کا یہ اعتقاد اکثر عوام اہلسنت میں بھی پھیل گیا ہے اور عام مسلمان بھی کہنے لگے ہیں کہ اللہ تعالٰی ہر جگہ موجود ہے علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ لکھتے ہیں کہ شاید اس کا سبب یہ ہوا کہ محکمہ عدالت و قضا میں قسم لینے کا یہ طریقہ رائج ہے کہ اللہ کو حاضر وناظر جان کر قسم کھاؤ یا گواہی دو تو عوام اپنی بے علمی سے یہ سمجھ بیٹھے کہ اللہ حاضرو موجود ہے حالانکہ قاضی کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالٰی عالم و ناظر ہے اور یہی عربی زبان کا محاورہ ہے یعنی اللہ تعالٰی تجھ کو دیکھتا اور علیم و خبیر ہے عوام نے اپنی سمجھ سے حاضر کے یہ معنی لگائے جس طرح آپس میں بولا کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔۔۔(الرحمن علی العرش استوٰی) یعنی رحمٰن عرش پر مستوی ہے لیکن عرش پر قرار پکڑنے کی کوئی صورت و کیفیت تجویز کرنا اور اپنی حالت پر قیاس کر کے جسمیت باری تعالٰی کا وہم کرنا بالکل ناجائز ہے ایمان کا منشاء یہ ہے کہ عرش پر اللہ کے قرار پکڑنے کا یقین رکھیں لیکن اس کی کیفیت یا تشبیہ سے سکوت کریں کیونکہ باری تعالٰی بے چون وبے چگون ہے۔(تفسیر بیان القرآن، مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ، سورۃ الحدید)۔۔۔

    ٤۔ فرقہ واردیہ!۔
    اس فرقے کا عقیدہ ہے کہ جس نے اللہ تعالٰی کو پہچانا وہ جہنم میں نہ جائے گا اور جو کوئی جہنم میں چلا گیا تو کبھی وہاں سے نکالا نہ جائےگا۔۔۔

    ٥۔ فرقہ زنادقہ!۔
    اس فرقے کہ لوگ کہتے ہیں کہ کسی واسطے یہ ممکن نہیں کہ اپنی ذات کے لئے کوئی رب ثابت کرے اس لئے کہ ثابت کرنا جب ہی ہوسکتا ہے کہ اس سے ادراک کرلے، حالانکے یہ ادراک ممکن نہیں کیونکہ ہمارے حواس جو ادراک کرنے کا آلہ ہیں کسی رب یا پروردگار کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں لہذا جو چیز ادراک ہی نہیں ہوسکتی تو ثابت ہی نہیں ہوسکتی۔۔۔

    ٦۔ فرقہ حرقیہ!۔
    اس فرقے کا قول ہے کہ کافر کو جب جہنم میں ڈالا جائے گا تو آگ اس کو ایک بار چلا کر کوئلہ کر دے گی پھر وہ ہمیشہ کوئلہ بنا پڑا رہے گا اس کو آگ کی جلن قطعی محسوس نہ ہوگی۔۔۔

    ٧۔ فرقہ مخلوقیہ!۔
    فرقہ مخلوقیہ کا عقیدہ ہے کہ قرآن مخلوق ہے۔۔۔

    ٨۔ فرقہ فانیہ!۔
    اس فرقے کا قول ہے کہ جنت دوزخ دونوں فنا ہونے والی ہیں اور اُن میں سے بعض کہتے ہیں کہ ابھی وہ دونوں پیدا ہی نہیں ہوئیں۔۔۔

    ٩۔ فرقہ عریہ(غیریہ)!۔
    اس فرقے کے ماننے والوں نے رسولوں کا انکار کیا یعنی ان کے نزدیک وہ اللہ تعالٰی کے فرستادہ نہیں بلکہ عقلاء ہیں۔۔۔

    ١٠۔ فرقہ واقفیہ!۔
    اس فرقے کے ماننے والے کہتے ہیں کہ ہم توقف کرتے ہیں نہ یہ کہتے ہیں کہ قرآن مخلوق ہے اور نہ یہ کہ مخلوق نہیں۔۔۔

    ١١۔ فرقہ قبریہ!۔
    اس فرقے کا عقیدہ ہے کہ قبر میں عذاب و ثواب نہیں ہے اور نہ آخرت میں شفاعت ممکن ہے۔۔۔

    ١٢۔ فرقہ لفظیہ!۔
    اس فرقے کا قول ہے کہ قرآن کے ساتھ ہمارا تلفظ کرنا مخلوق ہے۔(تلبس ابلیس، علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ صفحہ ٢٥۔٢٦)۔۔۔

    احادیث صحیحہ میں اُمت مسلمہ کے اندر بہتر گمراہ فرقوں کے ہونے کی جو پیشنگوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے ان کی تفصیل اور ان کے عقائد باطلہ کا اجمالی خاکہ آپ نے گذشتہ صفحات میں ملاحظہ فرمالیا، ان تمام گمراہ فرقوں کے عقائد باطلہ پر مجموعی طور پر غور کریں تو محسوس ہوگا کہ ان لوگوں کی گمراہی اور ذہنی کچ روی کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے قرآن و حدیث کے صریح احکامات سے صرف نظر کرکے محض اپنی عقلوں کو رہنما بنا لیا تھا۔اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تابعین رحمہم اللہ کے دین کے فہم کو تاقابل اعتبار سمجھتے ہوئے اپنی عقل و وجدان کے سہارے قرآن و حدیث کا احکام کو سمجھنے کو کوشش کی تھی۔۔۔ معتزلہ کے (علم کلام) کی ایجاد اور مامون و معتصم کی اعتزال و علم کلام کی سر پرستی نے نیز اسی دور میں فلاسفر یونان کی کتابوں کے عربی ترجموں اور ان کی اشاعت کے عمل نے نفسیاتی طور پر اس دور کے سادہ لوح مسلمانوں کے ذہن وفکر سے (سمع وطاعت) کے رجحان کو رفتہ رفتہ ختم کر کے عقلی دلائل اور مصالح مرسلہ کو پیش نظر رکھ کر دین کے مسائل کو سمجھنے اور قرآن و حدیث کے احکامات کی عقلی توجیہہ کرنے کا داعیہ پیدا کر دیا تھا اس طرح مختلف مکاتب فکر پیدا ہونے لگے جن کے اپنے اپنے نظریات تھے اور الگ الگ فقہی مسالک، ہر مکتب فکر اپنی دانست میں خالص قرآن وسنت پر عمل پیرا ہونے کا دعویدار تھا۔۔۔

    چنانچہ صورت حال یہ ہوگئی کہ ایک طرف تو وہ بہتر (٧٢) باطل گمراہ فرقے اور ان کے متبعین دین اسلام میں رخنہ اندازی میں مصروف تھے جو اسلام کے نام پر اس کے ماتھے پر بدنماداغوں کی حیثیت رکھتے تھے تو دوسری طرف اُمت مسلمہ میں مختلف مکاتب فکر کی باہمی آویزش اور اختلافات نے عوام الناس کے ذہنوں کو مکدر اور بدحواس کر کے رکھ دیا تھا اس طرح اسلام کی پہلی ہی صدی میں ملت اسلامیہ کے اندر تفرقہ و اختلاف کی آبیاری شروع ہوگئی تھی اشعری، ماتریدیوں سے جھگڑنے لگے حنابلہ احناف کے مخالف ہوگئے اہلحدیث اہل الرائے پر نقدوجرح کرنے لگے اور شوافع و مالکی ایک دوسرے کے مسلک پر اعتراض و ناراضگی کا اطہار کرنے لگے۔۔۔

    اُمت مسلمہ کے (فرقہ ناجیہ) میں جس کی مغفرت کی بشارت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی اس زمانہ آگے بڑھتا رہا بعد کی نسلوں نے ان اختلافات کو اپنا حقیقی دین و مذہب اور اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا اور ہر مکتب فکر اپنے آپ کو درست اور سنت کے طریقے پر اور دوسرے کو ضال و مفصل سمجھنے لگا اس کی وجہ یہ ہے کہ گروہ بندی یا جماعت سازی شروع میں خواہ کتنے ہی مخلصانہ جذبے سے کی جائے کچھ عرصہ گذرنے کے بعد اس کا تعصب کی سنگین سل میں تبدیل ہوجانا لازمی ہے جس سے ٹکرا کر فریق مخالف کی ہر جائز دلیل اور افہام و تفہیم کی ہر کوشش ناکام ثابت ہوتی ہے۔۔۔۔

  11. #11
    Join Date
    30 Oct 2006
    Location
    Faisalabad
    Age
    36
    Posts
    265
    Threads
    18
    Credits
    735
    Thanked: 1

    Default

    Masas Allah Nice Post

  12. #12
    Join Date
    22 Oct 2007
    Location
    Peshawar
    Posts
    806
    Threads
    18
    Credits
    1,146
    Thanked
    9

    Default

    جزاک اللہ بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے تو یہ آرٹیکل آج ہی پڑھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Page 1 of 2 12 LastLast

Similar Threads

  1. Replies: 12
    Last Post: 12th March 2015, 04:49 PM
  2. Replies: 31
    Last Post: 14th January 2014, 08:16 PM
  3. Replies: 18
    Last Post: 11th January 2012, 11:57 AM
  4. Replies: 32
    Last Post: 17th November 2009, 07:39 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •