Page 1 of 2 12 LastLast
Results 1 to 12 of 14

Thread: ”طالبانائزیشن“ یا اسلامائزیشن؟

  1. #1
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default ”طالبانائزیشن“ یا اسلامائزیشن؟

    ”طالبانائزیشن“ یا اسلامائزیشن؟

    حال ہی میں کراچی کی طرف سے ایک زبردست دہائی ہوئی ہے کہ وہاں طالبان آ رہے ہیں ۔ وہاں کی ایک بڑی تعداد اردو بولنے والے مہاجرین کی اولاد پر مشتمل ہے۔ ان کے ایک اعتبار سے مسلّمہ لیڈر‘ بلکہ بہت سے لوگوں کے نزدیک ان کے پیرو مرشد الطاف حسین صاحب ہیں جو خود تو لندن میں براجمان ہیں ‘لیکن اُن کا حکم کراچی‘ حیدر آباد اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں چلتا ہے۔ ان کی طرف سے بڑی بلند آواز کے ساتھ دہائی آئی ہے کہ کراچی میں طالبان آ رہے ہیں۔ گویا وہاں پر کوئی حملہ ہونے والا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہاں لٹھ بردار شریعت نہیں چلے گی‘ شریعت کو زبردستی نافذ نہیں ہونے دیا جائے گا۔ یہاں تک کہ انہوں نے کھلم کھلا اپنے پیروکاروں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں لائسنس بنوانے اور اسلحہ خریدنے کی ترغیب دی ہے۔ گویاکراچی میں بدامنی بلکہ خانہ جنگی کا شدید خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ سندھ حکومت کے دو اہم ذمہ داران نے نوٹس لیا ہے۔ میں نے سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار علی مرزا کا بیان سنا ہے کہ یہاں ایسا خطرہ محسوس تو کیا جا رہا ہے لیکن یہ خطرہ حقیقی نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ حکومت کا کام تو یہی ہے کہ خوف کو ختم کیا جائے ۔ اسی طرح سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ صاحب نے بھی یہی بات کہی ہے۔
    اِس وقت اگر کچھ پختون پاکستان کے شمالی علاقوں سے آ کر کراچی کی طرف آباد ہو رہے ہیں تو یہ اس بات کافوری نتیجہ ہے کہ ان کے علاقے میں بدامنی اور دہشت گردی ہے۔ وہاں پر کچھ غنڈہ گردی بھی ہو رہی ہے۔ مختلف قوتیں جن کے بارے میں مَیں بعد میں تجزیہ کر کے بیان کروں گا‘ وہاںبرسرپیکار ہیں۔ پاکستان آرمی کا ایکشن بھی ہو رہا ہے۔ پھر یہ کہ امریکہ کے جہازآ کر بمباری کرتے ہیں‘ میزائل برساتے ہیں۔ لہٰذا وہاں زندگی مخدوش ہو گئی ہے۔ان علاقوں کے رہنے والے ایسے حالات میں وہاں کیسے رہیں! چنانچہ وہ نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ان کا سب سے آسان انتخاب کراچی ہے‘ اس لیے کہ وہاں ایک بہت بڑی تعداد میں‘ جوکہ پندرہ بیس لاکھ سے کم نہیں ہے‘ پختون آباد ہیں۔ ان کی اپنی بستیاں ہیں‘ علیحدہ گڑھیاں ہیں۔ وہ سب کے سب محنت کش ہیں۔ ان کا کام زیادہ تر ٹرانسپورٹ کا ہے۔ یہ بسیں‘ منی بسیں‘ رکشا‘ ٹیکسی چلانے والے لوگ ہیں۔ ان کا تعلق وزیرستان کے مختلف علاقوں سے ہے۔ جن علاقوں کے لوگ اس وقت پریشان ہو کر نقل مکانی کر رہے ہیں‘ چونکہ ان کے رشتہ دار کراچی میں موجود ہیں اس لیے وہاں ان کو آسانی کے ساتھ پناہ مل سکتی ہے‘ کہیں ٹکنے کی جگہ مل سکتی ہے۔ چنانچہ وہ آ رہے ہیں ۔ سندھ حکومت کے ان دونوں حضرات نے یہ بھی کہا کہ اگر یہ لوگ آ رہے ہیں تو پاکستان میں ہی آ رہے ہیں‘ پاکستان کے ایک علاقے سے پاکستان ہی کے دوسرے علاقے میں آ رہے ہیں‘ کوئی باہر سے نہیں آ رہے اور نہ کسی غیر ملک میں جا رہے ہیں۔ مجھے ذاتی طو رپر ان کے یہ الفاظ بہت اچھے لگے ہیں کہ کراچی کی سرزمین پر ہر پاکستانی کا حق ہے۔ کراچی تو گویا پورے پاکستان کی ’دولت مشترکہ‘ ہے۔ یہ دونوں باتیں اچھی ہیں۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر ایک بہت اہم بات انہوںنے کہی ہے اور آگے چل کر وہ میری گفتگو کا مرکزی مضمون بنے گا‘اوروہ یہ ہے کہ ”طالبانائزیشن اور ہے‘ اسلامائزیشن اور ہے“۔ یہ بات اپنی جگہ پر بڑی اہم ہے اور اس کے نتائج کو سمجھنا اور قبول کرنا بہت ضروری ہے۔
    طالبان کون؟ وجود میں کیسے آئے؟
    اس پس منظر کو بیان کر کے سب سے پہلے میں آپ کے سامنے یہ معاملہ لانا چاہتا ہوںکہ یہ طالبان کون ہیں؟ کہاں سے آ گئے ہیں؟ تیس سال پہلے تک تو اِن کا کوئی تذکرہ نہیں تھا‘ سوائے اس کے کہ افغانستان میں دینی مدارس کے طالب علموں کو طالبان کہہ دیا جاتا تھا۔ طالبان ایک سیاسی یا عسکری قوت کی حیثیت سے کیسے منظر پر آئے‘ اس کے لیے سرسری طور پر افغانستان کی تاریخ کے پچھلے ۰۳‘۵۳ سال کا جائزہ لینا ہو گا۔ افغانستان میں کئی سو سال سے ایک بادشاہی نظام اکثر و بیشتر بڑے اطمینان اور امن کے ساتھ چل رہا تھا۔افغانستان کے دیہی علاقوں میں رہنے والوں کی عظیم اکثریت بڑے شدید مذہبی مزاج کی تھی۔ نماز روزہ اور پردہ و حجاب ان کے کلچر میں شامل تھا۔ ان کے ہاں ان چیزوں کے مذہب ہونے کا پہلو بعد میں آتا ہے‘ یہ ان کے کلچر کا جزو تھا۔اس کے برعکس بڑے شہر خاص طور پر کابل‘ بادشاہی نظام کے تحت پوری طرح مغربیت کے رنگ میں رنگے جا چکے تھے۔ ایک دفعہ جب ظاہر شاہ پاکستان آئے تھے اور ان کے ساتھ ان کی بیگم ملکہ¿ افغانستان بھی تھیں تو وہ سکرٹ پہنے ہوئے تھیں‘ ان کی پنڈلیاں ننگی تھیں۔ اس پر لوگ بڑے حیران ہوئے تھے ۔ چنانچہ واقعہ یہی ہے کہ کابل پورے طور پر مغربی طرزِ معاشرت میں ڈھل چکا تھا۔ ا س کیفیت میں اس وقت تبدیلی آئی جب سردار داﺅد خان نے ظاہر شاہ کا تختہ الٹا۔ اگرچہ ان کا جھکاﺅ اور رجحان روس کی طرف زیادہ تھا‘ تاہم وہ کوئی خالص نظریاتی کمیونسٹ نہیں تھے۔ اس کے بعد افغانستان میں یکے بعد دیگرے کئی حکمران قتل ہوئے۔سردار داﺅد کو کسی نے قتل کیا ‘ اس کو کسی اور نے قتل کیا ‘ پھر کسی اور نے اسے قتل کر دیا۔ اس کے بعد روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہو گئیں۔ اس کے خلاف اسلامی قوتوں کی طرف سے مزاحمت ہوئی‘ کیونکہ اب کمیونزم کم سے کم افغانستان کے شہری علاقوں میں مضبوط قدم جما چکا تھا۔ پارٹیاں اگرچہ دو تھیں‘ یعنی پرچم اور خلق‘ لیکن ان دونوں کے درمیان فرق وہی تھا جو روسی انقلاب میں مانشویک اور بالشویک کا تھا‘ یعنی پارٹیاں دو لیکن نظریہ ایک‘ بالفاظِ دیگر کمیونزم ایک‘ قیادتیں دو۔ اسی طرح افغانستان میں دوپارٹیاں تھیں۔ اقتدار کے لیے ان کی آپس میں جنگ بھی جاری تھی‘ لیکن کمیونزم پر وہ بالکل پوری طرح متفق تھے۔
    اب یہاں پاکستان میں اس کا جوردّعمل ہوا‘ اس کو سمجھئے۔ ابھی جبکہ وہ تحریک شروع ہوئی ہی تھی اور روسی فوجیں ابھی نہیں آئی تھیں‘ گویا یہ افغانستان کے اندر ایک لوکل phenomenonتھا‘ سب کچھ melting potکے اندر تھا ‘تو اُس وقت بھی مسلمانوں کے اندر مذہبی مزاج کے لوگوں میں کمیونزم کے خلاف ایک ردّعمل شروع ہوا۔ ان میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ کا حصہ بہت زیادہ تھا۔ یہ لوگ یا تو پاک و ہند کی جماعت اسلامی کے یا پھر عالم عرب کے الاخوان المسلمون کے زیر اثر تھے۔ انہی کے لیڈروں میں گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود بھی تھے۔ ان دونوں کی بڑی گہری دوستی تھی اور یہ گویا کامریڈز تھے ۔ پھر استاد ربانی اور عبدالرسول سیاف بھی تھے۔ اس قسم کے لوگوں نے مزاحمتی تحریک شروع کی تو یہاں بھٹو صاحب نے اس وقت صحیح قدم اٹھایا اور ان میں سے بعض لوگوں کو دعوت دی۔ وہ آئے اور دارالحکومت میں بھٹو صاحب کے مہمان رہے۔ بھٹو صاحب نے ان کی پیٹھ تھپکی کہ ٹھیک ہے کوشش کرو۔ اندازہ ہے کہ کچھ نہ کچھ انہیں مدد بھی دی ہو گی‘ کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ اگر افغانستان میں کمیونزم آ گیا اور روس قابض ہو گیا تو پھر اس کا اگلا ہدف پاکستان ہوگا‘ زار ازم کو توسیع دینے کے لیے روس کا یہ صدیوں پرانا خواب ہے۔ سائبیرین ریچھ چاہتا تھا کہ کسی طریقے سے افغانستان اور پاکستان کو روندتا ہوا بحیرئہ عرب اور بحر ہند کے گرم پانیوں تک پہنچ جائے۔ لہٰذا اگر افغانستان میں اس کے قدم جم جاتے تو اس کا اگلا ہدف پاکستان ہوتا! یہ صورت حال تھی جس میں بھٹو صاحب نے ایک بالکل صحیح قدم اٹھایا تھا۔
    بعد میں جب روسی فوجیں آ گئیں تو ایک زبردست مزاحمت شروع ہوئی۔ درحقیقت اس مزاحمتی تحریک کا عنوان ”جہاد فی سبیل الحریت“ ہونا چاہیے تھا۔ اس کی بنیاد مذہب نہیں بلکہ آزادی تھی‘ اس لیے کہ افغان قوم غلام رہنے کی عادی نہیں ہے۔ وہ ذہنی اور جذباتی طور پر اس کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتی۔ پوری افغان تاریخ اس کی گواہ ہے۔ جب روس کے خلاف جنگ جاری تھی اور افغانستان میں جہاد ہو رہا تھا تو ایک دفعہ انگلستان کی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر پاکستان کے دورے پر آئی تھیں۔ انہوں نے طورخم کے مقام پر لوگوں سے ایک خطاب کیا تھا‘ جس میں یہ بڑا تاریخی جملہ کہا تھاکہ :
    "We learnt our lesson and the Russians will also soon learn their lesson."
    یعنی افغانستان کے بارے میں ہم نے تو سبق سیکھ لیا تھا۔ ہم نے بار بار فوج کشی کی اور اسے فتح کیا‘ لیکن یہاں پر اپناقبضہ برقرار نہیں رکھ سکے۔ اسی طرح بالفرض روس نے یہاں قبضہ کر بھی لیا تو وہ یہاں رہ نہیں سکے گا۔ یہ سبق ہم نے تو سیکھ لیا ہے‘ روسی بھی سیکھ لیں گے!
    بہرحال اس موقع پر جو صورت حال پیدا ہوئی‘ اس میں ایک نیا عنصر بھی شامل تھا جسے ذہن میں رکھنا چاہیے۔ یہ وہ دَور تھا جب پورے عالمِ اسلام میں احیائے اسلام اور نفاذِ شریعت کا ایک جذبہ پروان چڑھ رہا تھا۔ یہ جذبہ اُس وقت شروع ہوا جب یورپی ممالک کی نوآبادیاتی حکمرانی کا بستر طے ہونا شروع ہوا۔جیسے کوئی آدمی نیند سے اٹھے تو اسے یاد آتا ہے کہ میں نے کوئی خواب دیکھا تھا‘ اسی طرح جیسے جیسے مسلمان ممالک آزاد ہونا شروع ہوئے تو ان کو یاد آیا کہ ہمارا بھی ایک نظام ہوتا تھا۔ انگریزوں ‘ ولندیزیوں‘ فرانسیسیوں‘ اطالویوں یا ہسپانویوں کے آنے سے پہلے ہمارا ایک نظام تھا تو کیوں نہ اب ہم اس نظام کو دوبارہ قائم کریں! یہ ایک جذبہ تھا‘ اگرچہ مبہم سا! آج کے دور میں اسلامی نظام کیسا ہو گا‘ اس کے کوئی واضح تصورات نہیں تھے‘ لیکن جذبہ بہرحال موجود تھا۔ اسی کو علامہ اقبال نے ”ابلیس کی مجلس شوریٰ “میں ابلیس کی زبان سے کہلوایا ہے کہ مجھے دنیا میں جمہوریت سے کوئی اندیشہ نہیں ہے ۔ اس لیے کہ :
    ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
    جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر!
    یہ تو ہم نے خود ہی بادشاہت کو ایک اور لبادہ اوڑھا کر اسے جمہوریت کا رنگ دے دیا ہے اور اسے ”شخصی حاکمیت“ کے بجائے ”عوامی حاکمیت“ اور ”اجتماعی حاکمیت“ کی صورت دے دی ہے۔ غیر اللہ کی حاکمیت کا شرک اور کفر تو جوں کا توں موجود ہے۔ اسی طرح مجھے اشتراکیت سے بھی کوئی اندیشہ نہیں ہے:
    کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد
    یہ پریشاں روزگار ‘ آشفتہ مغز ‘ آشفتہ ہُو
    ابلیس اپنے شیطانی نظام کے لیے کسی کو اگر خطرہ سمجھ رہا ہے تو وہ اُمت مسلمہ ہے ۔
    ہے اگر کوئی خطر مجھ کو تو اِس اُمت سے ہے
    جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو
    یہ جذبہ اور تڑپ اگرچہ پورے عالم اسلام میں تھی‘ لیکن کہیں بھی اس کی کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی

  2. #2
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default

    [SIZE="4"]کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ اُس وقت اس جذبے نے جہادِ افغانستان کی پشت پناہی کی کہ شاید افغانستان کے اندر اب یہ کام عملاً ہو جائے۔ اس کے لیے پوری دنیا سے مجاہدین آئے اور انہوں نے جانیں دیں۔ انڈونیشیا‘ برما‘فلسطین‘ فلپائن‘ تھائی لینڈ‘ سعودی عرب‘ مصر‘ لیبیا‘ چیچنیا وغیرہ سے بہت سارے لوگ وہاں آئے ‘کیونکہ اب کہا گیا کہ یہ ”جہاد فی سبیل اللہ“ ہے۔ تاہم میں واضح کرچکا ہوں کہ میرے نزدیک وہ ”جہاد فی سبیل اللہ“ نہیں تھا۔ جہاد فی سبیل اللہ کی شرائط یہ ہیں کہ پہلے دعوت دی جائے‘ پھر جو لوگ دعوت کو قبول کر لیں انہیں منظم کر کے ایک جماعت کی شکل دی جائے جو ایک امیر کی بیعت کر کے اس کے تابع ہوں۔ پھر اس جماعت کا تزکیہ اور تربیت اس طور سے ہو کہ دل میں سوائے اللہ کی رضا اور آخرت کی فلاح کے کوئی اور جذبہ باقی نہ رہے۔ ان کے لیے دنیا کے مال و دولت اور حکومت و سیادت میں کوئی کشش باقی نہ رہے۔ رضائے الٰہی کے حصول کا جذبہ اتناابھر آئے کہ تن من دھن حتیٰ کہ جان دینے کے لیے تیار ہو جائیں۔ یہ ساری شرائط جہاد فی سبیل اللہ کی ہیں۔ افغانستان پر چونکہ ایک دم حملہ ہو گیا تھا اور روسی افواج داخل ہو گئی تھیں تو نہ ان شرائط کو پورا کرنے کا موقع تھا نہ وقت۔ وہ لوگ تو بس روس کے خلاف کھڑے ہو گئے ۔لہٰذا یہ جہاد فی سبیل الحر ّیت تھا‘ اور مسلمان جب آزادی کا جہاد کرتا ہے تو وہ بھی جائز جہاد ہے‘ اس میںجان دینا بھی شہادت ہے۔
    بہرحال ایک تو یہ کہ جذبہ جہاد اُن کو کھینچ کر لایا۔ دوسری طرف امریکہ یہ چاہتا تھا کہ روس سے ایک پرانا حساب برابر کر لیا جائے۔ امریکہ نے ویت نام میں روسیوں کے ہاتھوں جو شکست کھائی تھی اس کا بدلہ لینے کے لیے یہ سنہری وقت تھا۔چنانچہ امریکہ نے اس جہاد کا غلغلہ مسلمانوں سے بڑھ کر بلند کیااور پوری دنیا میں جہادی لیڈروں کے کردار اور شخصیت کو ابھارا۔ احمد شاہ مسعود کو ”دی لائن آف پنج شیر“ کہا گیا۔ پوری دنیا میں اس کی دھاک بٹھائی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ مجاہدین مل جائیں۔ امریکہ نے سوچا کہ ہمارا تو کوئی آدمی نہیں مرے گا‘ ہم نے صرف پیسے اور ہتھیار دینے ہیں۔ مریں گے تو یہ مسلمان‘ چاہے وہ افغان ہوں یا باہر سے آنے والے۔ امریکہ کے اس ایجنڈے کو نہ سمجھتے ہوئے افغان لیڈروں نے لاعلمی میں اسے تقویت پہنچائی۔ وہ جہاد کے لیے لوگوں کو عرب ممالک سے کھینچ کھینچ کر لے آئے۔ ان میں عبداللہ بن عزام شہید بھی تھے۔انہی میں عمر عبدالرحمن ہیں‘ جو اِس وقت امریکہ کی جیل میں قید ہیں۔ انہی میں اسامہ بن لادن بھی ہیں۔ یہ سب لوگ جہاد کے نام پر دنیا بھر سے لوگوں کو لے کر آ رہے تھے اور یوں نہ جانتے ہوئے وہ امریکہ کے آلہ¿ کار بن گئے تھے۔ مجاہدین کی فتح میں دونوں عوامل کارفرما تھے۔ صرف مجاہدین کی سرفروشی اور جانفشانی ہی نہیں‘ امریکہ کے ہتھیاروں نے بھی یقینا اس میں ایک بڑا فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ خصوصاً جدید ترین ہتھیار سٹنگر میزائل جسے دنیا جانتی ہی نہیں تھی‘ وہ مجاہدین کو دے دیاگیا۔روسی فوج جودلبرداشتہ ہو کر بھاگی ہے تو اس میں سب سے بڑا دخل سٹنگر میزائل کو حاصل تھا۔ روسیوں کا سب سے بڑا ہتھیار گن شپ ہیلی کاپٹر تھے۔ پہاڑوں کے اوپر ٹینک تو نہیں پہنچ سکتے تھے۔ بڑے جہازوں کے لیے بہت نیچے آ کر بمباری کرنا بھی ممکن نہیں تھا۔ اس لیے وہ گن شپ ہیلی کاپٹر سے فائرنگ کرتے تھے۔ یہی ان کا سب سے بڑا ہتھیار تھاجسے سٹنگر میزائل نے بالکل بیکار کرکے رکھ دیا۔ یہ میزائل داغے جانے کے بعد اگر ہدف اپنی جگہ تبدیل کر لے تو یہ میزائل ضائع نہیں ہوتا ‘بلکہ جدھر وہ ہدف جائے گا یہ اس کا پیچھا کرے گا‘ جدھر وہ مڑے گا اُدھر ہی یہ مڑ جائے گا اور بالآخر اس کو تباہ کر دے گا۔
    روس کی شکست کے بعد امریکہ بھی فوری طور پر وہاں سے غائب ہو گیا۔ اس نے مجاہدین کے اندر گروپ بندی یہاں تک کہ باہمی دشمنی کے بھی بیج بو دیے تھے۔ اس میں آئی ایس آئی نے بھی کردار ادا کیا ۔ انہوں نے جو کچھ کیا وہ نیک نیتی سے پاکستان کے لیے کیا۔ اب امریکہ بجائے اس کے کہ وہاں کوئی حکومت قائم کرواتا اور اسے مستحکم کرنے کے بعد آرام سے رخصت ہوتا‘ جیسا کہ وہ عراق کے اندر اپنا سر توڑ زور لگا رہا ہے کہ کوئی حکومت قائم ہو جائے اور پھر ہم یہاں سے رفتہ رفتہ نکلیں‘ وہ ان کے مابین دشمنی کے بیج بو کر فوراً بھاگ گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ کو اندیشہ تھا کہ یہ لوگ پڑھے لکھے اور جدید تعلیم یافتہ ہیں۔ ان میں انجینئرز بھی ہیں۔ گلبدین حکمت یار‘ احمد شاہ مسعود‘ استاد ربانی بڑے عالم فاضل ہیں۔ عبدالرسول سیاف الازہر کے پڑھے ہوئے تھے۔ اسی طرح صبغت اللہ مجددی بھی بڑے عالم اور پڑھے لکھے آدمی تھے۔ اس اعتبار سے امریکہ کو اندیشہ تھا کہ اگر ان لوگوں کی حکومت بن گئی تو یہ افغانستان کو ایک جدید اسلامی فلاحی ریاست بنا دیں گے ۔ یہ وہ شے ہے جو اُن کے لیے سب سے زیادہ خطرناک اور سب سے زیادہ ناپسندیدہ تھی‘ اس لیے کہ اگر واقعتا ایک اسلامی فلاحی ریاست وجود میں آجاتی تو ان کے نظام کا خاتمہ ہو جاتا۔ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو تاریکی کو جانا ہی ہوتا ہے۔ انہیں یہ اندازہ تھا ‘اس لیے انہوں نے خاص طو رپر انہیں لڑایا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جہاد فی سبیل اللہ ‘ فساد فی سبیل اللہ بن گیا اور افغانستان پر وہ تباہی آئی جو پہلے روسیوں کے ہاتھوں بھی نہیں آئی تھی۔ اصل تباہی و بربادی خانہ جنگی سے آئی ہے۔ اس کا ایک اور نتیجہ یہ نکلا کہ مختلف علاقوں میں جنگجو سرداروں (War Lords) نے اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کر لیں۔ وہی ہتھیار جو دورانِ جنگ امریکہ نے دیے تھے ‘ کافی تعداد میں موجود تھے۔ ان میں سے ہر ایک کا اپنا اسلحہ خانہ تھا‘ لہٰذا انہوں نے اپنے اپنے علاقے معین کر لیے اور انہوں نے وہاں ٹیکس لینے شروع کیے کہ جو بھی گاڑی‘ بس‘ ٹیکسی وغیرہ گزرے ٹیکس دے۔ لوگ ایک علاقے سے نکلتے تو اگلے جنگجو سردار کا علاقہ آ جاتا اور وہاں پھر ٹیکس دیتے۔ نہ صرف ٹیکس بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ خوبصورت عورتوں اور لڑکوں کو بھی اُتار لیتے تھے۔ اس صورتِ حال سے افغان لوگوں کی ناک میں دم آ گیا۔
    ان حالات میں ایک مردِ مجاہد ملا عمر کھڑے ہوئے۔ وہ کوئی بڑے عالم دین نہیں ہیں‘بلکہ عربی مدارس سے پوری طرح تعلیم یافتہ بھی نہیں ہیں۔ ان کے ساتھ عربی مدارس کے کچھ طلبہ کھڑے ہو گئے۔ ان لوگوں نے کمر کس لی کہ یہاں کسی طرح امن قائم کیا جائے۔یہ پکار ایسی تھی جو ہر افغان کے دل کی پکار تھی۔ لوگ جنگجو سرداروں اور اُن کے مظالم سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ لہٰذا طالبان جہاں گئے‘ ان کا استقبال ہوا۔ اکثر لوگوں نے اپنے ہتھیار ان کے حوالے کر دیے۔ گلبدین حکمت یار کابل کے پاس اپنی فوجیں لے کر فیصلہ کن حملے کی تیاری میں تھے‘ لیکن جب طالبان آئے تو ان کو راستہ دے دیا اور خود پیچھے ہٹ گئے۔یوں سمجھئے کہ درحقیقت افغانستان میں طالبان کی حکومت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خصوصی انعام تھا۔ وہ جو ایک شعر ہے کہ :
    خود بخود تیار ہے پکے ہوئے پھل کی طرح
    دیکھئے گرتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ
    حالات نے ایسی صورت اختیار کر لی تھی کہ طالبان کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور ان کی حکومت قائم ہو گئی۔ یہ گویا اللہ تعالیٰ کی حکمت کا ایک ظہور ہوا ہے۔ خود امریکہ نے اور اس کے کہنے پر پاکستان‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے طالبان کی حمایت کی۔ کہاں بے نظیر جیسی سیکولر ذہن کی حامل اور آزاد خیال عورت‘ کہاں طالبان مولوی ملاٹے!اس کی وجہ کیا ہے؟ دراصل امریکہ سمجھ رہا تھا کہ یہ ہمارے مطلب کے لوگ ہیں‘ انہیں دنیا کا کوئی علم نہیں ہے‘ یہ کچھ جانتے ہی نہیں‘ لہٰذا انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا اور اِن سے کھیلنا آسان ہو گا۔ انہیں ہم اپنی انگلیوں پر نچائیں گے ‘ کٹھ پتلی بنا لیں گے۔ اس پہلو سے انہوںنے سمجھا کہ اچھا ہے اگر یہ لوگ آ جائیں‘ ان سے وہ خطرہ نہیں ہے کہ یہاں ایسا اسلامی نظام آ جائے جو بیک وقت جدید دنیا کے تمام تصورات کو بھی پورا کرتا ہو اور کتاب و سنت کے تقاضوں کو بھی ۔لہٰذا امریکہ نے انہیں مدد دی۔ لیکن ہوا کیا؟
    کفر کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں
    طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد دو کام ایسے ہوئے کہ امریکہ کی آنکھیں کھل گئیں۔ ایک تو جب افغانستان کے نوے فیصد علاقے پر طالبان کا قبضہ ہوا تو وہاں امن قائم ہو گیا۔ چوری ‘ڈکیتی ‘ قتل و غارت‘ بدکاری اور زنا بالجبر کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ دوسرے یہ کہ ملا عمر کے ایک ہی حکم پر پوست کی کاشت بند ہو گئی۔ اب کفر کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجیں کہ یہ کیا معاملہ ہے :
    نعرہ زد عشق کہ خونیں جگرے پیدا شد
    حسن لرزید کہ صاحب نظرے پیدا شد!

  3. #3
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default

    ہم جس سے ڈر رہے تھے‘ جس کا ہمیں خوف اور اندیشہ تھاوہی حقیقت سامنے آ رہی ہے۔ حالانکہ ابھی تو پورے نظام کی بات نہیں ہوئی تھی‘ صرف چند اسلامی سزائیں نافذ کی گئی تھیں۔ ہم خود جب وہاں پر ایک وفد لے کر گئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی کوئی پارلیمنٹ‘ مجلس شوریٰ یا مجلس ملی ہے؟ کہنے لگے نہیں‘ کوئی نہیں ہے۔ اورنہ ہی کسی معاشی نظام کا نقشہ ان کے سامنے تھا۔ میں نے پوچھا: آپ کے ہاں بینک ہیں؟ جواب ملا: نہیں۔ میں نے پوچھا آپ اپنا پیسہ کہاں رکھتے ہیں؟ کہنے لگے ہمارے پاس پیسہ ہے ہی نہیں۔ یعنی وہاں کوئی نظام قائم کرنے کی بات نہیں تھی‘ لیکن چور کا ہاتھ کاٹنا‘ زانی کو رجم کرنا‘ قتل کے بدلے قتل جیسی سزائیں سرعام دی جاتی تھیں۔ ایک صاحب نے آنکھوں دیکھا واقعہ بیان کیا کہ جب ایک شخص نے کسی دوسرے شخص کو سینے میں خنجر گھونپ کر قتل کیا تو اس کو پکڑ کر اور رسیوں سے باندھ کر ایک سٹیڈیم کے اندر ڈال دیا گیا۔ چاروں طرف لوگ کھڑے دیکھ رہے ہیں۔ اب مقتول کی بیوی کے ہاتھ میں خنجر دے کر کہا گیا کہ اس کے سینے کے اندر گھونپو۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ یہ مناظر دیکھنے کے بعدکیا کہیں کوئی جرم باقی رہ سکتا ہے؟ اس اعتبار سے مغربی دنیا نے بڑا شدید خطرہ محسوس کیا۔
    البتہ یہ ضرور نوٹ کر لیجیے کہ اس ابتدائی عرصے میں طالبان سے کچھ غلطیاں بھی ہوئیں۔ پہلی بات یہ کہ نہ ان کی کوئی تعلیم ہوئی تھی‘ نہ تربیت‘ نہ تنظیم اور نہ کوئی ڈسپلن قائم ہواتھا۔ لہٰذا ان سے بڑی بڑی غلطیاں ہوئیں‘ مثلاً مزار شریف میں ایران کے سفارت خانے پر حملہ کر کے سفارت کاروں کو قتل کر دیا گیا۔ پھر یہ کہ ان کے اندر مذہبی شدت پسندی بہت تھی۔ وہ کٹر حنفی تھے اور ان میں کسی قدر تشدد کا عنصر بھی پایا جاتا تھا۔ تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باعث بعض معاملات میں ان کی سوچ انتہا پسندانہ تھی۔ مثلاًداڑھی چونکہ سنت مو¿کدہ ہے اس لیے جو نہیں رکھتا اسے سزا دی جائے۔ حجام اگر شیونگ کرتا ہے تو اس کا سرقلم کر دیا جائے ۔اسی طرح پردے کا شدت کے ساتھ نفاذ کیا گیا۔ عورتیں اپنے گھروں میں رہیں یا پھر پورا برقع لے کر باہر نکلیں۔اس حوالے سے تشدد پسندی بھی ہوئی ہے‘ کچھ غلطیاں اور زیادتیاں بھی ہوئی ہیں۔ کچھ انتہائی تنگ نظر مذہبیت بھی تھی۔ یہ حقائق ہمیں ماننے پڑیں گے۔چنانچہ عالمِ کفر کے اندر خطرے کی گھنٹیاں بج گئیں کہ ع ”نعرہ زد عشق کہ خونیں جگرے پیدا شد“۔ وہ خونی جگر رکھنے والا تو سامنے آ گیا ‘یہی وہ خطرہ ہے جس سے ہم ڈر رہے تھے‘ کانپ رہے تھے۔
    نائن الیون کا ڈرامہ اور اس کے مقاصد
    آپ کو معلوم ہو گا کہ جب سوویت یونین کا خاتمہ ہوا اور اس کے بعد نیٹو کو ازسر نو آرگنائز کرنے اور توسیع دینے کی باتیں شروع ہوئیںتو کسی نے نیٹو چیف سے پوچھا کہ اب آپ کس لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں؟ آپ کا وہ دشمن جس کے لیے آپ نے سیٹو‘ سینٹو اور نیٹو جیسے اتحاد بنائے تھے‘ وہ تو اب ختم ہو گیااور آپ کے قدموں میں پڑا مدد کی بھیک مانگ رہا ہے۔ اب تمہیں کاہے کا خوف ہے؟ تو اس نے کہا: ہمیں اب اسلامک فنڈامنٹلزم کا خطرہ ہے۔اس کے لیے انہوں نے اپنی کمر کسنے کا پروگرام بنایا۔ چنانچہ نائن الیون کا حادثہ فاجعہ خود کروایا گیا۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے ۔ اس میں طالبان کے ملوث ہونے کا توصفر فیصد بھی کوئی امکان نہیں‘ القاعدہ کا بھی کوئی حصہ نہیں تھا۔ البتہ یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ ا س کام کے لیے جن لوگوں کو منتخب کیا گیا اور دنیا کو دکھانے کے لیے سامنے لایا گیا وہ نوجوان پائلٹ تھے جنہوں نے چھوٹے چھوٹے جہازوں پر تربیت حاصل کی تھی اور غالباً ان میں سے کسی کا کوئی تعلق اسامہ بن لادن کے ساتھ تھا‘جس پر اس نے یہ کہہ دیا تھا کہ عنقریب ایک بہت بڑا واقعہ ہو گا۔ بس اس حد تک یہ بات صحیح ہے‘ باقی اسامہ بن لادن کا قطعاً کوئی حصہ نہیں تھا۔
    درحقیقت اس کی ساری پلاننگ موساد‘ نیوکانز (NEO-CONS)اور سی آئی اے نے کی تھی۔ اس لیے کہ انہیں اب افغانستان پر بڑے پیمانے پر فوج کشی کرنے کے لیے ایک بہت بڑی طاقت کی ضرورت تھی۔ اس کے لیے امریکہ کی رائے عامہ اس وقت تک تیار نہ ہوتی جب تک کہ کوئی بڑا حادثہ نہ ہو جائے۔ دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ ایک فوجی اتحاد قائم کرنے کے لیے بھی ایک بڑے واقعے کی ضرورت تھی۔ چنانچہ یہ انہوں نے خود کروایا۔
    اس سے پہلے ۰۹۹۱ءکی دہائی کے اواخر میں امریکہ کے تھنک ٹینکس یہ سوچ رہے تھے کہ ۱۲ویں صدی میں امریکہ اس گلوب کی سپر پاور کیسے رہے‘اپنی موجودہ پوزیشن کو کیسے مضبوط کرے؟ ابھی روس‘ چین اور بھارت اس کے دائرہ اقتدار سے باہر ہیں۔ لیکن آگے بڑھ کر پوری دنیا پر اپنی طاقت اور کنٹرول کو کیسے برقرار رکھا جائے؟ اسی موضوع پر ان کا ایک مقالہ بھی شائع ہوا تھا:
    "America needs a Pearl Harbour."
    یہ تاریخی بات سمجھ لیجیے کہ امریکہ دوسری عالمگیر جنگ تک بین الاقوامی معاملات میں کبھی آیا ہی نہیں تھا۔ دو بڑے سمندروں کے درمیان آرام سے اپنے معاملات میں مگن تھا۔ اِدھر بحر اوقیانوس ہے‘ اُدھر بحر الکاہل ہے‘ قریب قریب کوئی دشمن ہے ہی نہیں۔ تو اس نے ساری توجہ اپنے حالات‘ ماحول اور معیارِ زندگی بہتر بنانے پر مرکوز رکھی۔ دوسری جنگ عظیم میں جب جرمنی اور جاپان اتحادی افواج کا بھرکس نکال رہے تھے تو بڑی شدید ضرورت پیدا ہوئی کہ کسی طرح امریکہ کو آمادہ کیا جائے۔چنانچہ چرچل امریکہ گیا اور اس نے خوشامدیں کیں۔ یہ بھی کہا کہ جان لو‘ اگر آج ہم ختم ہو گئے تو اگلا نمبر تمہارا ہو گا‘ یہ نازی تمہیں بھی نہیں چھوڑیں گے۔ پھر بھی وہاں کی رائے عامہ جنگ میں کودنے کو تیار نہیں تھی۔ اس دوران جاپانیوں نے ایک فاش غلطی کی ۔ ”پرل ہاربر“ ہونولولو کے قریب ایک بہت دور دراز کی بندرگاہ تھی‘ جہاں امریکہ کا ایک بہت بڑا نیول بیس تھا۔ جاپان نے اچانک اس پر حملہ کیا اور ان کے بے شمار جہاز غرق کر دیے۔ بہت بڑی تعداد میں امریکی فوجی مارے گئے‘ بہت سے زخمی یا معذور ہوئے۔ اس پر امریکہ کو غصہ چڑھا ۔چنانچہ سویا ہو اشیر جاگااور دوسری جنگ عظیم کے میدان میں کود پڑا۔ جرمنی کو اسی کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ جب اس کی فوجیں نارمنڈی کے ساحل پر اتریں تو اس کے بعد جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ پھر جاپان پر اس نے ایٹم بم گرا کر اس کا بھرکس نکال دیا!
    اس اعتبار سے یہ خیال کیا گیا کہ اگر پرل ہاربر جیسا کوئی حادثہ نہیں ہو گاتو امریکن رائے عامہ بیدارنہیں ہو گی اور نہ ہی کانگریس اور سینیٹ اس کے لیے مالی منظوری دینے کو تیار ہوں گے۔ آخر اربوں ڈالر کا معاملہ ہوتا ہے! اس لیے انہوں نے خود امریکہ میں ”پرل ہاربر“ جیسا معاملہ کروایا۔اس کے بعد پوری دنیا اور سب سے بڑھ کر امریکہ میں دہشت گردی کے خطرے اور خوف کے تحت جس انداز میں سکیورٹی کے اقدامات کیے گئے ہیں‘ اس کا آپ تصور نہیں کر سکتے۔ اس حوالے سے کھربوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں۔ ایک ایک شخص کی تلاشی لی جا رہی ہے۔ فون ٹیپ کرنے کی بھی قانونی طو رپر اجازت دے دی گئی‘ جو اس سے پہلے امریکہ میں نہیں تھی۔ وہاں شخصی آزادیوں کا بڑا چرچا تھا اور اس حوالے سے امریکہ ایک بڑا چمپئن تھا‘ لیکن اب ان کی ساری پرائیویسی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ ایئرپورٹس پر باہر سے آنے والوں کو تقریباً نیم برہنہ کر کے ان کی تلاش لی جاتی ہے۔ انہوںنے intelligenceکا جو نظام بنایا ہے‘ اس پر ان کا بے شمار خرچ ہوا۔ پھر اس میں عیسائیوں کی صلیبی جنگ کا جذبہ بھی شامل کر دیا گیا۔ کروسیڈ کا لفظ بش نے بھی بولا تھا‘ لیکن بعد میں کہا گیا کہ غلطی ہو گئی اور یہ لفظ واپس لے لیا گیا۔ فلاڈلفیا‘ جو امریکہ کا ایک اہم شہر ہے‘ وہاں سے ایک ماہنامہ The Philadelphia Trumpetشائع ہوتا ہے۔ یہ وہاں کے پروٹسٹنٹس Evengelistsجو کہ خاص طور پر انجیل کے پرچارک ہیں‘ ان کا رسالہ ہے۔ انہوں نے یہ بات لکھ دی تھی‘ جسے میں نے اپنے دو کتابچوں کے کور پر شائع کیا ہے‘ کہ :
    "Most people think the crusades are a thing of the past over forever. But they are wrong. Preparations are being made for a final crusade, and it will be the bloodiest of all!."
    اس حوالے سے دنیا میں آخری کروسیڈ کی تیاری ہو رہی ہے۔ یہ اُس رسالے کے مدیر Gerald Flurryکے اپنے الفاظ ہیں اور وہاں پر ایک پورا مکتب فکر ہے‘یعنی پروٹسٹنٹس‘ ان کے اندر خاص طو رپر Baptists‘ اور Baptistsکے اندر Evengelists‘ نیوکانز ۔ یہ سب ایک طبقہ ہے جو دراصل یہودیوں کا آلہ¿ کار ہے۔ بہرحال اس میں صلیبی جنگ کا جذبہ بھی شامل کر دیا گیا۔

  4. #4
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default

    اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تاریخ انسانی کی عظیم ترین کولیشن (coalition)وجود میں آئی۔ کبھی دنیا میں اتنی بڑی کولیشن نہیں بنی جتنی افغانستان کے خلاف بنی ہے۔ امریکہ کو یورپ اور دوسری ساری مغربی قوتوں کے ساتھ ساتھ روس اور چین کی بھی اشیر باد حاصل ہے۔ پاکستان کو بھی ایک ٹیلی فون کے ذریعے سے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا گیا۔ ہمارے صدر مشرف صاحب ایک ٹیلی فون کال پر ہی بتاشے کی طرح بیٹھ گئے۔ اس کے بعد اتحادی افواج نے افغانستان پر جدید ترین ہتھیاروں سے شدید ترین حملہ کیا۔ ڈیزی کٹرز وہ بم ہیں جن کا پہلے نام تک سنا نہیں گیا تھا۔ پھر لیزر گائیڈڈ بم استعمال ہوئے‘ جن کا نشانہ چوکنے کا سوال ہی نہیں۔ یہ تیس چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر سے گرائے جاتے ہیں۔ کسی اینٹی ایئر کرافٹ گن کی وہاں تک رسائی ہی نہیں۔ اس تباہی سے طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ان میں سے بہت سے لوگوں نے تو مختلف علاقوں میں جا کر اپنے قبائل میں پناہ لے لی۔ ان میں جو غیر ملکی تھے‘ انہوں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں خاص طو رپر شمالی وزیرستان او ر جنوبی وزیرستان میں آ کر پناہ لے لی۔
    اس کے بعد افغانستان میں امریکہ کے قبضے کے خلاف ایک مزاحمتی تحریک یا بغاوت شروع ہو گئی۔ اس کے نتیجے کے طور پر جب یہ عناصر پاکستان میں آئے تو ان کو دیکھ کر پاکستان میں بھی لوکل طالبان پیدا ہو گئے کہ اگریہ شریعت کے نفاذ کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں تو ہمیں بھی ایسا کرنا چاہیے۔ یہاں کوئی پندرہ سال سے صوفی محمد صاحب کی ایک تحریک چل رہی تھی۔ ابتداءمیں وہ پرامن تھی‘ اگرچہ بعد میں ان کے کنٹرول سے نکل گئی‘ کیونکہ وہ کوئی منظم جماعت نہیں تھی۔ وہ اسّی ہزار کا جلوس لے کر دریائے اٹک کے پل تک آ گئے تھے۔ وہاں فوج نے روکا‘ ورنہ ان کا پروگرام تھا کہ وہ اسلام آباد آ کر پاکستان سیکرٹیریٹ کا گھیراﺅ کریں‘ جیسے کبھی پچاس ہزار شیعوں نے کیا تھااور ضیاءالحق صاحب کی ناک رگڑوا دی تھی۔ اسی طریقے سے ان کا پروگرام تھا کہ پارلیمنٹ اور حکومت کو مجبور کر دیا جائے کہ وہ یہاں شریعت نافذ کریں۔ صوفی محمد صاحب کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ معاملہ اس طرح نہیں چل سکے گا۔ انہوں نے اپنے ان لوگوں سے جو پہاڑوں پر مورچہ بند ہو کر بیٹھ گئے تھے‘ کہا کہ نیچے اتر آئیں۔ اس پر ان میں سے بعض لوگوں نے کہا کہ یہ مولوی بک گیا ہے‘ اسے حکومت نے خرید لیا ہے۔ بعد میں یہ تحریک بیٹھ گئی اور صوفی محمد صاحب گرفتار کر لیے گئے۔ وہ جیل میں پڑے رہے‘ لیکن اسی تحریک کی کوکھ سے سوات میں پاکستان کے طالبان وجود میں آ گئے۔ یہ سب سے پرامن علاقہ تھا اور سیاحوں کی جنت کہلاتا تھا۔ ان کے قائد مولوی فضل اللہ ہیں جو صوفی محمد صاحب کے داماد ہیں۔یہ میں نے آپ کے سامنے پس منظر رکھ دیا کہ طالبان کی صورت حال کیا ہے ‘وہ کہاں سے آئے ہیں اور کن درجوں میں تقسیم ہوئے ہیں۔
    افغانستان اور پاکستان کی موجودہ صورت حال کا تجزیہ
    اب میں تجزیہ کر کے بتا دیتا ہوں کہ اس وقت صورت حال کیا ہے ۔
    (۱) افغانستان میں شورش (insurgency)کے حوالے سے تین عناصر جمع ہیں:
    (i) حقیقی اورسُچّے (genuine)طالبان‘ جو اخلاص کے ساتھ امریکہ سے آزادی اور ملک میں شریعت اسلامی کے نفاذ کی خاطر میدانِ عمل میں ہیں۔یہ لوگ غلبہِ اسلام اور اسلامی حکومت کے قیام کے خواہش مند ہیں اور اس کے لیے تن من دھن لگا رہے ہیں‘ جان و مال کی قربانیاں دے رہے ہیں۔ یہ لوگ افغانستان کی آزادی کے لیے بھی لڑ رہے ہیں کہ یہاں امریکی تسلط کیوں قائم ہو گیا ہے۔ اگر وہ روس کے خلاف کھڑے ہوگئے تھے تو امریکہ کے خلاف کیوں کھڑے نہ ہوتے؟ دوسرے یہ کہ ان کے پیش نظر اسلامی حکومت کا قیام ہے‘ جیسا کہ ملا عمر کی حکومت بنی تھی اور اس میں اسلامی حکومت کا ایک نقشہ نظر آ گیا تھا ۔ واقعہ یہ ہے کہ اس میں کچھ نقشے تو بالکل خلافت راشدہ والے تھے۔ جیسے حضرت عمر فاروقhکسی چٹائی پربیٹھ کر حکومت کر رہے تھے اسی طرح ملا عمر کو ٹوٹی ہوئی چٹائی پر بیٹھ کر حکومت کرتے ہم خود دیکھ کر آئے تھے۔ ان کا کوئی محل نہیں تھا‘ جیسے حضرت عمرh کا کوئی محل نہیں تھا۔ جب ہم وہاں گئے تو قندھار کے گورنر ملا رحمانی مہمانوں کی اس طرح خدمت کر رہے تھے جیسے کوئی خدمت گار ملازم ہو۔ ان کے پاﺅں میں ٹوٹے ہوئے چپل تھے۔ چنانچہ جو واقعتا حقیقی طالبان ہیں وہ اب بھی افغانستان میں اسلام کے غلبے کی جدوجہد کر رہے ہیں اور جانیں دے رہے ہیں۔
    (ii)افغان حریت پسند جو پہلے روس کے خلاف اٹھ کھڑے ہو ئے تھے وہ اب امریکہ کے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں۔ ان میں کوئی گہری مذہبیت نہیں ہے‘ تاہم جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں‘ افغان قوم کی گھٹی کے اندر اور ان کے کلچر میں مذہب موجود ہے‘ چاہے آپ اسے صرف رسومات (rituals)والا مذہب کہہ لیں۔ ان کے اندر جذبہ¿ حریت بھی موجود ہے اور یہ لوگ نہ تو روس کے غلام بننے کے لیے تیارتھے اور نہ ہی اب امریکہ کے غلام بننے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں۔
    (iii)وہاں پر جنگجو سردار (War lords) ہیں‘جو حکومت کے خلاف اور امریکہ کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں ۔ان میں کئی گورنرز بھی شامل ہیں۔ وہ اصل میں نہیں چاہتے کہ افغانستان میں کوئی مضبوط حکومت قائم ہو جائے ۔ انہیں اندیشہ ہے کہ مضبوط حکومت قائم ہونے کی صورت میں ان کے اختیارات ختم ہو جائیں گے۔وہ کسی حکومت کے کنٹرول میں آجائیں گے تو ان کے اللے تللے‘ ان کے گلچھرے‘ ان کا ہیروئن کا کاروبار اور اسلحہ کی تجارت سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ ان کے پردے میں غنڈے اور جرائم پیشہ لوگ بھی کارروائیوں میں مصروف ہیں‘ جو کبھی لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے طالبان کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ تو یہ تیسراعنصر ہے۔یہ چاہتے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں موجود رہے‘ لیکن پورے طریقے سے مستحکم نہ ہو‘ تاکہ یہ سلسلہ چلتا رہے۔ اس طرح ایک تو ہماری من مانیاں جاری رہیں گی‘ کوئی چیک کرنے والا ہی نہیں ہو گا‘ اور دوسرے یہ کہ باہر سے تعمیر نو کے نام پر جو پیسہ آ رہا ہے اس کا بھی بڑا حصہ ہماری جیبوں میں جاتا رہے گا۔ کچھ تھوڑا بہت تعمیری کاموں پر بھی خرچ ہو جائے تو ٹھیک ہے‘ افغانستان کا بھلا ہو جائے گا‘ کچھ مدرسے‘ کچھ سکول‘ کچھ ہسپتال اور کچھ سڑکیں بن جائیں۔ افغانستان میں ”تعمیر نو“ کے لیے جو پیسہ باہر سے آتا ہے اس کا بڑا حصہ تو کابل میں بیٹھے ہوئے حکومت میں شامل لوگ لے جاتے ہیں اور پھر بہت سارا پیسہ ان جنگجو سرداروںکی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ اس لیے کہ مختلف علاقوں میں تعمیراتی کاموں پر خرچ کرنا ان وار لارڈز اور گورنرز کے بغیر تو ممکن نہیں ہے۔ اس وجہ سے وہ یہ چاہتے ہیں کہ افغانستان میں موجودہ حکومتی سسٹم برقرار رہے۔اسی صورت میں ان کو من مانی کرنے کی پوری آزادی ہے۔
    اس صورت حال میں یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ کون کیا ہے؟(Who is who) میں نے نظری طور پر ان عناصر کو تین حصوں میں تقسیم کر کے دکھا دیا ہے۔ سُچّے (genuine) طالبان‘ حریت پسند افغان اور تیسرے یہ شیطان جو وہاں کے وار لارڈز ہیں‘ ہیروئن اور اسلحہ کا کاروبار ان کا دھندا ہے۔ لیکن کون کیا ہے؟ اس کے بارے میں وہی بلھے شاہ والی بات کہوں گا کہ ع ”کون دلاں دیا ں جانے ہُو!“ کس کو پتا کون کیا ہے! یہ سب عناصر ”طالبان“ کے پردے میں اپنا اپنا کام کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے انہی میں سے بعض لوگ ہمارے ہاں آ کر طالبان کے نام پر چندے بھی کر کے لے جاتے ہوں‘ واللہ اعلم!

  5. #5
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default

    (۲) اسی طرح صوبہ سرحد میں اس وقت جو شورش اور بدامنی (insurgency) برپا ہے اس میں بھی واضح طو رپر تین عناصر ہیں:
    (i)وہی حقیقی اور سُچّے (genuine)طالبان‘ جو افغانستان میں بھی مجاہدین کی مدد کرتے ہیں اور پاکستانی طالبان کی حیثیت سے اس ملک میں بھی اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ ان میں بعض جذباتی عناصر بھی شامل ہیں‘ جو عام طو رپر زیادہ پڑھے لکھے لوگ نہیں ہیں‘ اور یہ پاک فوج کے امریکی ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے اور خاص طورپر لال مسجد کے سانحہ فاجعہ کے ردِّعمل میں عسکریت اور دہشت گردی کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ظاہر ہے کہ ہر عمل کا ایک ردِّعمل تو ہوتا ہے‘ جو اُس عمل کے برابر اور مخالف سمت میں ہوتا ہے۔ ان کے علاقوں پر امریکہ کی شدید بمباری ہو رہی ہے۔ پھر پاکستانی فوج وہاں کاہے کے لیے آئی ہے؟ ظاہر ہے وہ امریکہ کی خوشنودی کی خاطر انہی مجاہدین کو ختم کرنے کے لیے کارروائیاں کر رہی ہے۔ حالانکہ ان مجاہدین کو خود امریکہ یہاں لے کر آیا تھا اور پاکستان کی حکومت نے ان کی پشت پناہی کی تھی۔ اب انہی کو دہشت گرد قرار دے کر قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے اور پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ اس پر ان لوگوں کو غصہ آئے گا یا نہیں؟ اور نتیجتاً پاکستانی فوج کے خلاف نفرت پیدا ہو گی یا نہیں؟ یہ غصہ اور نفرت ایک فطری ردِّعمل ہو گا۔ کسی مدرسے پر حملہ ہو گیا اور اسّی بچے ختم ہو گئے ‘ کہیں کسی آبادی پر حملہ ہوا‘ کسی بارات کے اوپر حملہ ہوا اور پوری بارات ختم ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُونَ!
    تو ان طالبان کے اندر ان کارروائیوں کا ایک ردِّعمل ہے۔ لیکن بحیثیت مجموعی ان طالبان کا کوئی اور مقصد نہیں ہے سوائے اس کے کہ یہاں اسلام آئے۔
    (ii)وہاں پر جرائم پیشہ لوگ بھی کارروائیوں میں مصروف ہو گئے ہیں۔ یہ لوگ طالبان کے پردے میں لوٹ مار بھی کرتے ہیں اور اغوا برائے تاوان کے ذریعے دولت حاصل کرتے ہیں۔ انہیں موقع مل گیا ہے کہ جو کچھ بھی کریں الزام طالبان پر آئے گا۔ انہیں تو ایک کَور مل گیا ہے اور ان کے لیے گویا یہ ایک طرح کی گھات بن گئی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو انتہائی بدامنی پیدا کرنے والے اور انتہائی شقی القلب ہیں۔ پاکستان کے فوجیوں کو ذبح کرنے کا معاملہ یہی لوگ کرتے ہیں‘ طالبان نہیں کرتے۔ مینگورہ میں رہنے والے ہمارے بعض دوستوں نے بتایا ہے کہ ان جرائم پیشہ لوگوں کی طرف سے جس طرح کی درندگی کا مظاہرہ ہوتا ہے اس طرح کا ظلم‘ زیادتی اور تشدد دنیا میں کبھی بھی نہیںدیکھا گیا۔ اور اِن کے چہروں سے یہ پہچاننا ممکن نہیںہے کہ یہ دراصل کون لوگ ہیں!
    (iii)ان میں را‘ موساد اور سی آئی اے کے ایجنٹ بھی شامل ہیں‘ جو پاکستان میں بدامنی پیدا کر کے اسے غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ اپنی گرینڈ سکیم اور گرینڈپلان کے تحت پاکستان کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ اس کا منصوبہ یہ ہے کہ پاکستان اگر باقی بھی رہ جائے تو اس کے ایٹمی دانت نکال دیے جائیں۔ یعنی اس کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کر لیا جائے۔ اس کے لیے وہ چاہتا ہے کہ پاکستان میں بدامنی ہو‘ ایک سول وار کی کیفیت پیدا ہو جائے‘ تاکہ مغرب سے NATOفورسز اور مشرق سے بھارتی افواج کے پاکستان میں داخل ہونے کو جواز مل جائے۔آپ کو معلوم ہے کہ پہلے بھی یہ دونوں فورسز ہوشیار کر دی گئی تھیں اور بھارت نے اپنی افواج کو یہ کہہ کر الرٹ کر دیا تھا کہ تیار رہو‘ ہو سکتا ہے کہ عنقریب ہمیں ایک پڑوسی ملک کے اندر وہاں امن قائم کرنے کے لیے داخل ہونا پڑے۔ امریکہ اور بھارت پاکستان کو destabilizeکرنے کے لیے ان عناصر کی پیسے اور ہتھیاروں سے مدد کر رہے ہیں جو ان کے آلہِ کار اور ایجنٹ بن کر کام کر رہے ہیں۔
    اسی ضمن میں اس وقت بہت خطرناک صورت حال پاراچنار کے علاقے میں مذہبی بنیادوں پر فسادات کی صورت میں پیدا کر دی گئی ہے۔ اس علاقے میں شیعہ سنی فسادات تو اس سے پہلے بھی ہوتے تھے‘ لیکن اتنے کبھی بھی نہیں ہوئے جتنے بڑے پیمانے پر اب ہو رہے ہیں‘ جن میں بڑی خونریزی ہو رہی ہے‘ کشت و خون ہو رہا ہے‘ ایک دوسرے کے لوگ مارے جا رہے ہیں۔ اسی طرح باڑا اور اس سے آگے کا جو علاقہ ہے اس میں سنیوں کے دو گروہ دیوبندی اور بریلوی ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہو گئے ہیں۔ یہ دونوں انتہائی خطرناک جنگیں ہیں‘ جو امریکہ اور بھارت کے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان میں پھیلائی جا رہی ہیں۔یہ آگ آگے بڑھ کر پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے اور یہ polarizationپورے ملک کے اندر آ سکتی ہے۔ نتیجتاً شیعہ سنی فسادات اور دیوبندی بریلوی فسادات پورے پاکستان میں پھیل سکتے ہیں۔ تویہ تیسرا عنصر ہے کہ امریکہ اور بھارت چاہتے ہیں کہ کچھ ایسی صورت بن جائے کہ ہمیں پاکستان میں داخل ہونے کا جواز مل جائے۔ کنڈولیزا رائس نے جب بھارت اور پاکستان کا دورہ کیا تھا تو واپس امریکہ جا کر یہ بیان دیا تھا کہ ”پاکستان کا مستقبل بھارت اور امریکہ مل کر طے کریں گے“۔
    تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں!
    اب امریکہ ایسا عالمی بدمعاش بن چکا ہے جسے کسی کا ڈر نہیں۔ دنیا پہلے ”بائی پولر“ تھی تو امریکہ کو یہ ڈر رہتا تھا کہ ہم کسی پر زیادتی کریں گے تو وہ روس کا ساتھی بن جائے گا اور اس کی طاقت بڑھ جائے گی۔ اس اعتبار سے وہ بائی پولر دنیا چھوٹی قوموں کے لیے ‘ چھوٹے ملکوں کے لیے بہت ہی سازگار معاملہ تھا۔ اب دنیا” یونی پولر“ ہے۔ لہٰذا اب وہ کھل کر باتیں کرتے ہیں اور اپنے منصوبے علی الاعلان واضح کرتے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے مشرقِ وسطیٰ کا آئندہ کا نقشہ شائع ہو گیا ہے‘ جس میں گریٹر کردستان دکھایا گیا ہے‘ جو ترکی کے کچھ علاقے‘ عراق کے شمالی علاقے اور ایران کے شمال مغربی حصے پر مشتمل ہو گا۔ گریٹر بلوچستان تو ہمیشہ سے ان کے پروگرام میں شامل ہے۔ اس میں صرف ہمارا بلوچستان نہیں‘ بلکہ کچھ ایرانی بلوچستان‘ کچھ افغانی بلوچستان اور کچھ پنجاب کے اضلاع بھی شامل ہوں گے۔ خاص طو رپر ڈیرہ غازی خان تو بلوچ علاقہ ہے۔ اس کے علاوہ سندھ کا بالائی یعنی شمالی علاقہ جیکب آباد وغیرہ بھی بلوچ علاقہ ہے۔ ان سب علاقوں کو ملا کر گریٹر بلوچستان کا قیام ان کا منصوبہ ہے۔
    باقی عراق کے بارے میں ان کا منصوبہ یہ ہے کہ اس کے تین ٹکڑے ہو جائیں گے‘ جن میں سے ایک ٹکڑا کردستان کے ساتھ جائے گا۔ اس طرح ایک سنی سٹیٹ اور ایک شیعہ سٹیٹ بنے گی۔ شیعہ سٹیٹ کی نیچے جا کر دو طرف سے توسیع ہو جائے گی۔ جیسے شلوار یا پاجامہ کی شکل ہوتی ہے کہ اوپر سے ایک ہوتا ہے اور نیچے اس کی دو ٹانگیں بن جاتی ہیں۔ چنانچہ خلیج کے اوپر تو وہ ایک ریاست ہو گی‘ جس میں کویت بھی شامل ہو گا اور عراق کا جنوبی حصہ بھی جو شیعوں پر مشتمل ہے‘ لیکن نیچے ایک پٹی خلیج فارس کے مشرقی ساحل کے ساتھ ہو گی جہاں شیعہ عرب آباد ہیں۔ اس طرح خلیج کے مغربی ساحل کے ساتھ بھی ایک پٹی کاٹ لی جائے گی۔ یہ بھی شیعہ عرب ہیں۔ تو اس طرح گویا ایک یونائیٹڈ عرب شیعہ سٹیٹ بنانے کا پروگرام ہے۔ باقی جو عرب ہے ا س کو تقسیم کر دیں گے۔ نجد علیحدہ ہو جائے گا ۔ بس یوں سمجھئے کہ جیسے اٹلی میں عیسائیوں کی ایک چھوٹی سی مذہبی ریاست ”ویٹیکان“ ہے‘ اس سے ذرا بڑی ریاست مکہ‘ مدینہ اور ینبوع وغیرہ کو ملا کر مسلمانوں کی ایک مذہبی ریاست بنا دیں گے‘ باقی سارے علاقے علیحدہ رہیں گے۔ یہ سارے نقشے ہیں جو بن رہے ہیں۔
    ان کے منصوبے کے مطابق پاکستان کے صوبہ سرحد کو افغانستان کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا اور افغانستان کا شمال مغربی حصہ ایران کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا۔ وہ تو یوں سمجھتے ہیں کہ یہ سارا علاقہ ہمارا ہے‘ آج نہیں تو کل ہم نے ہی اس کو کنٹرول کرنا ہے۔ یہاں ہمارا ہی حکم چلے گا‘ ہماری مرضی چلے گی۔ ہم جیسے چاہیں گے نئی لکیریں کھینچ دیں گے۔جیسے پہلی جنگ عظیم کے بعد پوری عرب دنیا کو تقسیم کر دیا گیا تھا۔ اُس وقت یہ سعودی عرب‘ اردن‘ شام‘ مصر اور لیبیا وغیرہ علیحدہ علیحدہ ممالک نہیں تھے‘ بلکہ عظیم سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے۔ یہ سارا شام ‘ سارا فلسطین‘ سارا لبنان‘ سارا اُردن ‘ حجاز کا بہت بڑا حصہ اور پورا شمالی افریقہ‘ یہ سب خلافت عثمانیہ کے تحت تھے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد مغربی ممالک نے مل بیٹھ کر ان کے حصے بخرے کیے ہیں‘ان کی balkanizationکی ہے۔ جیسے آنحضورﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ دنیا کی قومیں تم پر ٹوٹ پڑیں گی اور اس طرح ایک دوسرے کو دعوت دیں گی جیسے دستر خوان پر مہمانوں کو بلایا جاتا ہے کہ آیئے کھانا تناول فرمایئے۔ واقعہ یہ ہے کہ مغربی اقوام نے عالمِ اسلام کے اسی طرح حصے بخرے کیے تھے کہ لبنان فرانس کا ہے‘ مصر اور عراق انگریزوں کے ہیں‘ لیبیا اطالویوں کو دے دو اور الجزائر بھی فرانسیسیوں کو دے دو! یہ تقسیم اتنی پرانی نہیں ہے‘ اس واقعہ کو ابھی سو سال بھی نہیں ہوئے جبکہ یہ ساری تقسیم ہوئی ہے‘ ورنہ ان علیحدہ علیحدہ ملکوں کا کوئی نظام تھاہی نہیں۔انہیں خلافت عثمانیہ سے کاٹا گیا اور ان میں پھر علاقائی قومیتوںکے بیج بوئے گئے کہ مصر مصریوں کا ہے اور شام شامیوں کا ہے۔ خود ترکی میں تو مصطفی کمال پاشا نے پورے دین ومذہب کی جڑیں کھود کر ترک نیشنلزم کی بنیاد رکھی اور اسے اس قدر سو فیصد خالص سیکولر ملک بنا دیا کہ اتنا سیکولر ملک دنیا میں کوئی اور ہے ہی نہیں۔ ہر ملک کا کوئی نہ کوئی سرکاری مذہب ہوتا ہے‘ ترکی کا سرے سے نہیں ہے۔ وہاں کے دستور میں ہر شق بدلی جا سکتی ہے لیکن سیکولرزم کی شق تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ اگر کسی حکومت نے اس کے خلاف کوئی اقدام کیا تو فوراً فوج ازروئے دستور اقتدار پر قبضہ کر لے گی۔
    پاکستان کے اندر کی صورت حال میں بیان کر چکاہوںکہ افغانستان کی طرح یہاں بھی تین قوتیں برسرپیکار ہیں اور یہاں بھی وہی بات ہے کہ کون کیا ہے‘ کچھ معلوم نہیں۔ بیت اللہ محسود کیا ہے؟ کوئی آکر بتاتا ہے کہ وہ تو غنڈہ ‘ بدمعاش اور ڈاکو ہے۔ کوئی آ کے بتاتا ہے کہ نہیں بھئی وہ تو ایک واقعی سُچّا طالبان ہے اور وہ ملا عمر کا تابع فرمان ہے۔ کون کیا ہے ؟ (Who is who?)اس کو جاننے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ ”کون دلاں دیا جانے ہُو؟ “لیکن یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ کوئی ایک بسیط معاملہ (phenomenon) نہیں ہے‘ بلکہ بڑی پیچیدہ صورت حال ہے۔ امریکہ اور بھارت اس کوشش میں ہیں کہ یہاں پر خانہ جنگی ہو۔

  6. #6
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default

    اس وقت عالمی سطح پر پورا عالم مغرب (یہودی+عیسائی) اور (امریکہ+یورپ) یہود کا آلہِ کار بن چکے ہیں۔ ان کے اہداف کے پیچھے اصل ماسٹر مائنڈ اور سازشی ذہن یہود کا ہے۔ اس وقت عیسائی یہودیوں کے آلہِ کار ہیں اور ان میں سے بھی پروٹسٹنٹس (Protestants) سوفیصد آلہِ کار ہیں ۔ پروٹسٹنٹ ازم دراصل یہود ہی نے پیدا کروایا تھا۔ یہود ہی نے یورپ کے اندر سود کا رواج شروع کروایا‘ ورنہ کلیسا کے نزدیک سود حرام تھا۔ وہاں پر یوژری(usury)اور کمرشل انٹرسٹ دونوں حرام تھے۔ اسے یہودیوں نے حلال کروایا۔ پھر یہودیوں نے انگلستان کے اندر پہلا بینک ”بینک آف انگلینڈ“بنوایا۔ پروٹسٹنٹ فرقے سے پوپ کے خلاف بغاوت کرائی تو پہلی بغاوت انگلستان ہی کے اندر ہوئی اور ”چرچ آف انگلینڈ“ پوپ سے علیحدہ ہو گیا۔ چنانچہ برطانیہ کو یہودیوں نے قرار دیا کہ یہ ہمارا ماڈرن اسرائیل ہے‘ جو ہمیں خدا نے دیا ہے۔ اس کے کچھ عرصے کے بعد وہ امریکہ میں جا کر آباد ہوئے اور اب انہوں نے امریکہ کو اپنا اصل ماڈرن اسرائیل قرار دیا۔ اس لیے کہ انہیں وہاں پر اقتدار حاصل ہوا‘ قوت حاصل ہوئی ‘ انہوںنے وہاں بے شمار دولت جمع کی‘ اور وہاں کی حکومتوں کو جس طریقے سے جکڑ لیا اس پر علامہ اقبال کا یہ مصرع راست آتا ہے کہ ع ”فرنگ کی رگِ جاں پنجہءِ یہود میں ہے!“ ٹھیک سو سال پہلے علامہ اقبال یورپ میں یہ مشاہدہ کر کے آ گئے تھے۔ اُس وقت اور کون دیکھنے والا تھا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے ‘ سامنے کیا ہے اور پردے کے پیچھے کیا ہے۔ اُس وقت فرنگ کا امام برطانیہ تھا۔یہ وہ سلطنت تھی جس پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ آج فرنگ کا امام امریکہ ہے ۔ برطانیہ کی تو اب یہ مثال ہے‘ جو ہم نے کہیں بچپن میں ایک نظم میں پڑھی تھی :
    London bridge is going down, going down!
    برطانیہ کی تواب کوئی حیثیت ہی نہیں۔ وہ تو امریکہ نے اسے چھوٹا بھائی بنا رکھا ہے‘ ورنہ کوئی اور حیثیت نہیں۔ بہرحال پیچھے ساری پلاننگ یہود کے سازشی ذہن کی ہے اور آلہ¿ کار سب سے بڑھ کر امریکہ اور اس کے بعد برطانیہ ہے۔ ان میں بھی اصل آلہ¿ کار پروٹسٹنٹس ہیں‘ ان میں خاص طو رپر Baptistsاور ان سے بھی آگے بڑھ کر Evengelists۔ ان کو ”دوبارہ پیدا شدہ عیسائی“ (Born again Christians)بھی کہتے ہیں اور نیوکنزرویٹو کرسچینزبھی۔ان کو نیا نام دیا گیا ہے ”عیسائی صیہونی“ (Christian Zionists) ایک یہودیZionistsہیں۔ بہت سے یہودی صیہونیت(Zionism)کے مخالف ہیں۔ چنانچہ ہوسٹن میں میری ملاقات ڈاکٹر وشوگراڈ سے ہوئی تھی جو بہت بڑا پروفیسر ہے۔ اس نے بھرے اجتماع میں کہا تھا کہ ہم اسرائیل کے حمایتی نہیں ہیں۔ وہاں پر ہم نے اپنے اجلاس میں ایک یہودی‘ ایک عیسائی اور ایک مسلمان سکالر کو اظہار خیال کے لیے بلایا تھا۔ اس یہودی پروفیسر نے وہاں پر موجود عیسائی پروفیسر کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا کہ:
    "They are supporting Israel; We are not supporting Israel."
    اسی طرح چند سال پہلے میری جو راﺅنڈ ٹیبل کانفرنس ہوئی تھی‘ اس میں ایک یہودی پروفیسر نے واضح طور پر کہا تھا کہ میں صیہونیت(Zionism)کے خلاف ہوں۔ چنانچہ صیہونیت اصل میں سیکولر یہودیوں کی تحریک ہے اور اس کے سب سے بڑے سپورٹرز کرسچین Zionistsہیں جو امریکہ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگرچہ رومن کیتھولکس بھی اب رفتہ رفتہ ان کے ہم خیال بنتے جا رہے ہیں لیکن یہ زیادہ یہود نواز نہیں ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ ترکی یورپی یونین کا رکن بننے کی شدید خواہش رکھتا ہے۔ اس کے بارے میں ایک بار رومن کیتھولک یاک شیراک نے بڑا پیارا جملہ کہا تھا :
    "Why dose not Turky understand that we are a Christian Club?"
    یعنی ترکی یہ بات کیوں نہیں سمجھتا کہ یورپی یونین تو ایک کرسچین کلب ہے ‘جبکہ وہ مسلمان ہے۔ وہ اس میں کیوں داخل ہونا چاہتا ہے؟
    رومن کیتھولکس چونکہ زیادہ یہود نواز نہیں ہیں لہٰذا یورپ نے عام طو رپر اسرائیل کا اتنا ساتھ نہیں دیا جتنا امریکہ دیتا رہا ہے۔ ان کے دلوں میں کسی درجے میں عرب فلسطینیوں کے لیے نرم گوشہ بھی رہا ہے۔ یہ معاملہ ایران کے بارے میں بھی رہا ہے۔ ایران کے خلاف جس قدر سخت ایکشن امریکہ لینا چاہتا ہے یورپ اس کے ساتھ نہیں ہے۔ تو یہ تھوڑا سا فرق ہے۔ میں اس کی ایک بنیاد بعد میں آپ کو بتا دوں گا۔
    یہود و نصاریٰ کا دو نکاتی ایجنڈا
    اس وقت پورا عالمِ مغرب اصلاً یہودیوں کے آلہ¿ کار کے طور پر اور ظاہراً روئے ارضی کی واحد سپریم پاور امریکہ کی قیادت میں دو نکاتی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے :
    (۱) عالم اسلام کے مادّی اور مالیاتی وسائل خصوصاً تیل پر قبضہ ۔ یہ ان کا اس وقت کا ایجنڈا ہے۔ویسے تو وہ اس سے اوپر پوری دنیا کے وسائل پر تسلط چاہتے ہیں‘ لیکن وہ تو بعد کی بات ہے ۔ ابھی وہ نہ رو س کو چھیڑ رہے ہیں نہ چین کو ۔ چین تو ان کا سب سے بڑا بزنس پارٹنر ہے اور اسے وہ رفتہ رفتہ اپنی لائن پر لارہے ہیں۔ اب تو چین میں صرف ایک پارٹی گورنمنٹ باقی رہ گئی ہے جو کمیونزم کے دور کی یادگار ہے۔ باقی ان کی معیشت تو اُسی رخ پر آ چکی ہے جو مغرب کی معیشت کا ہے۔
    (۲) دنیا میں کہیں بھی اسلام کے سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی نظام کے ظہور کا ہر قیمت پر سدّباب کرنا‘ خواہ اس میں کتنا ہی کشت و خون ہو اور کتنا ہی سرمایہ صرف ہو جائے۔
    ان کے ایجنڈے کے یہ دونوں حصے باہم دگر مربوط ہیں‘ جیسے دو لڑیوں کو بٹ دے کر رسّی بنائی جاتی ہے۔ اس وقت مغرب اسلام کے Politico-Socio-Economic Systemسے خوف زدہ ہے کہ ع ”ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں!“
    علامہ اقبال نے ”ابلیس کی مجلس شوریٰ“ کا جو نقشہ اشعار کی صورت میں کھینچا ہے‘ ان میں ابلیس نے اپنے مشیروں کے سامنے اس اندیشے کا اظہار کیا ہے کہ :
    عصر حاضر کے تقاضاﺅں سے ہے لیکن یہ خوف
    ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں!
    کہیں ایسا نہ ہو کہ پیغمبر کی شریعت دنیا کے سامنے آ جائے۔ پیغمبر اسلام کا دیا ہوا معاشرتی نظام کہیں دنیا اختیار نہ کر لے :
    الحذر آئین پیغمبر سے سوبار الحذر
    حافظ ناموسِ زن‘ مرد آزما ‘ مرد آفریں
    اور اسلام کا معاشی اور سیاسی نظام کہیں دنیا میں قائم ہو گیا تو سارے ابلیسی نظام اپنی موت آپ مر جائیں گے :
    موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لیے
    نے کوئی فغفور و خاقاں ‘ نے فقیر رہ نشیں
    کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف
    منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں
    اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
    پادشاہوں کی نہیں‘ اللہ کی ہے یہ زمیں!
    یعنی اِنِ الحُکمُ اِلاَّ لِلّٰہِ۔ یہ نظام نہ آ جائے کہیں دنیا میں! ابلیس اور اس کی صلبی و معنوی ذُریت کو سب سے بڑا خطرہ اسی نظامِ خلافت سے ہے۔البتہ ابلیس نے اس اعتبار سے اپنے اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ :
    چشم عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب
    یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ یقیں!
    ان کے لیے یہ امر موجب اطمینان ہے کہ خود مسلمانوں کو ہی آئین پیغمبری پر صحیح معنوں میں ایمان و یقین حاصل نہیں ہے۔ انہیں اس کی کوئی پروا ہی نہیں کہ اسلام کا بھی اپنا کوئی نظامِ عدلِ اجتماعی یا نظامِ خلافت ہے۔وہ نماز اور روزے پر یقین رکھتے ہیں ‘جنہیں اللہ توفیق دیتا ہے زکوٰة ادا کرتے ہیں‘حج کرتے ہیں‘ عمرے کرتے ہیں‘ لیکن یہ غنیمت ہے کہ اپنے نظام کے بارے میں لاعلمی یا بے یقینی کا شکار ہیں۔
    اب میں یہودیوں کے ایجنڈے کا تجزیہ کر رہا ہوں۔ سب سے پہلے ورلڈ بینک‘ آئی ایم ایف‘ گلوبلائزیشن اور TRIPS جیسے ہتھکنڈوں کے ذریعے عالمی مالیاتی استعمار‘ جو بظاہر امریکہ اور حقیقتاً یہود کا ہو گا۔ یہودیوں کے نزدیک پوری نوعِ انسانی حیوانوں کے مانند ہے۔ وہ انہیںGoyimsاور Gentilesکہتے ہیں کہ یہ انسان نہیں ہیں‘ بلکہ انسان نما حیوان ہیں‘ اور حیوانوں کا استحصال کرنا اور ان سے کام لینا انسانوں کا حق ہے۔آپ گھوڑے کو تانگے کے آگے باندھ دیتے ہیں اور بیلوں کو ہل کے اندر جوت دیتے ہیں‘ یہ آپ کا حق ہے۔ اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ ان انسان نما حیوانوں سے خدمت لینا اور ان کے وسائل کو اپنے قبضے میں لے لینا ہمارا حق ہے۔ البتہ جیسے گھوڑے اور بیل کو بھی کچھ نہ کچھ چارہ تو ڈالنا پڑتا ہے اسی طرح جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے ہم ان کو بھی کچھ دیتے رہیں گے۔ بہرحال یہود کے ایجنڈے میں یہ بات شامل ہے کہ پوری نوعِ انسانی کو حیوانی سطح پر لا کر ان کا استحصال کیا جائے اور ان کی اخلاقی اقدار کا بیڑا غرق کر دیا جائے‘ خاندانی نظام کو تہہ و بالا کر دیا جائے‘ انہیں شہوت کے غلام بنا دیا جائے۔ چنانچہ پروٹوکولز آف دی ایلڈرز آف دی Zionsجو1897ءمیں سوئٹزر لینڈ میں پاس ہوا‘اس میں انہوں نے اپنے یہ اہداف معین کیے تھے۔
    یہود کا ہدف : عظیم تر اسرائیل کا قیام
    یہود کے ایجنڈے کا دوسرا حصہ علاقائی سطح کا ہے‘ یعنی گریٹر اسرائیل کا قیام‘ جس میں وہ تمام علاقے شامل ہوں گے جہاں کبھی یہودی قومی طور پر آبادیا مقیم رہے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل مصر میں جا کر آباد ہو گئے تھے جہاں ان کی آئندہ نسلیں پروان چڑھیں۔ چنانچہ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ مصر کا جوشن کا علاقہ جو دریائے نیل کا زرخیز ڈیلٹا ہے‘ گریٹر اسرائیل میں شامل ہو گا۔ اسی طرح بابل (عراق) کا بادشاہ بخت نصر 587 قبل مسیح میں ہیکل سلیمانی مسمار کرنے کے بعد لاکھوں یہودیوں کو قیدی بنا کر اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ یہودی اس بنیادپر عراق کو بھی گریٹر اسرائیل کا حصہ بنانا چاہتے ہیں کہ وہاں انہوں نے طویل عرصے تک اسیری کی زندگی گزاری۔ اس کے علاوہ یہ عرب کے شمالی حصے پر بھی قابض ہونے کے خواب دیکھ رہے ہیں‘ جہاں خیبر میں یہودیوں کے قلعے تھے اور مدینہ منورہ میں ان کے تین قبیلے آباد تھے جنہیں محمد رسول اللہﷺ نے وہاں سے نکال باہر کیا تھا۔ مزید برآں یہ فلسطین‘ شام‘ لبنان اور اردن توپورے کے پورے اور ترکی کا مشرقی اور جنوبی حصہ بھی گریٹر اسرائیل میں شامل کرنے کے دعوے دار ہیں۔
    یہودی اپنے اس ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کوشاں ہیںاور اس کے لیے ایک بہت بڑی جنگ لڑی جائے گی۔ یہ ایک عظیم عالمی جنگ ہو گی‘ جس کو نبی اکرمﷺ نے ”الملحمة العظمیٰ“ اور ”الملحمة الکبریٰ“ کانام دیا ہے۔ اس عظیم جنگ کی خوفناکی اور تباہی کاریوں کا اندازہ اس سے کیجیے کہ حدیث میں آتا ہے کہ اگر ایک باپ کے سو بیٹے یا ایک دادا کے سو پوتے ہوں گے تو ان میں سے ۹۹ ختم ہو جائیں گے ‘ صرف ایک بچے گا۔ اور ایک حدیث میں آیا ہے کہ اس جنگ میں اتنی اموات ہوں گی کہ ایک نفاست پسند پرندہ (جو گندگی پر نہیں اترنا چاہتا) مسلسل اڑتا چلا جائے گا لیکن لاشوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا‘ یہاں تک کہ وہ تھک ہار کر لاشوں ہی پر گر جائے گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنگ اب زیادہ دور نہیں ہے۔ اس پر یہودی اور عیسائی پوری طرح متفق ہیں کہ آرمیگاڈان (Armageddon) ہونے والی ہے‘ جسے آپ تیسری عالمی جنگ کہہ سکتے ہیں۔اس جنگ کے نتیجے میں گریٹر اسرائیل وجود میں آئے گا۔

  7. #7
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default

    گریٹر اسرائیل کے قیام کے بعد یہودی پہلا کام ہیکل سلیمانی کی سہ بارہ تعمیر کا کریں گے‘ جسے ٹائٹس رومی نے 80 عیسوی میں گرا دیا تھا اور اسے منہدم ہوئے تقریباً دو ہزار برس (1،938 برس) گزر چکے ہیں۔ تھرڈ ٹمپل کی تعمیر کے لیے وہ مسجد اقصیٰ اور قبة الصخرة (Dome of the Rock)کو مسمار کریں گے۔ معبد کی تعمیر کے بعد حضرت داﺅد علیہ السلام کا تخت یہاں لا کر رکھا جائے گا۔ تخت داﺅد علیہ السلام دراصل ایک پتھر تھا جس پر تین ہزار سال قبل حضرت داﺅد علیہ السلام کی تاج پوشی ہوئی تھی۔ پھر اسی پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی تاج پوشی بھی کی گئی تھی اور ان کے بعد آنے والے یہودی بادشاہوں کی تاج پوشی اسی پر ہوتی رہی۔ ٹائٹس رومی نے80 عیسوی میں یروشلم کو برباد کیا اور ہیکل سلیمانی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اس موقع پر ٹائٹس اس پتھر کو اپنے ساتھ روم لے گیا۔ روم سے وہ پتھر کسی طرح آئرلینڈ پہنچ گیا‘ جو بنیادی طور پر رومن کیتھولک ملک ہے۔ وہاں پر پروٹسٹنٹس اور کیتھولکس کی جنگیں اب بھی ہوتی رہتی ہیں۔ شیعہ سنی مسلمانوں کے مابین کبھی اس طور سے خانہ جنگی نہیں ہوئی جیسی کہ وہاں عیسائیوں کے ان دو فرقوں کے مابین ہوتی رہتی ہے۔ آئرلینڈ سے وہ پتھر سکاٹ لینڈ منتقل ہوا۔ پھر چودہویں صدی میں وہ پتھر انگلینڈ آیا تو اسے تخت کی صورت دے دی گئی۔ یعنی تخت کی سیٹ اسی پتھر کی بنی ہوئی ہے۔ یہ تخت انگلینڈ کی پارلیمنٹ کی عمارت سے ملحقہ چرچ ”ویسٹ منسٹر ایبے“ میں رکھ دیا گیا اور اس وقت سے برطانیہ کے بادشاہوں اور ملکاﺅں کی تاج پوشی اسی تخت پر بٹھا کر کی جاتی ہے۔
    یہود اور نصاریٰ کے متفرق پروگرام
    نوٹ کیجیے کہ یہاں تک عیسائیوں اور یہودیوں کا ایجنڈا ایک ہے‘ لیکن اس کے بعد ان میں اختلاف ہے۔ یہودیوں کے نزدیک ان کا میسایاح (Messiah)آئے گا اور وہ تخت داﺅد پر بیٹھ کر پوری دنیا پر راج کرے گا‘ جس کی پیشین گوئیاں تورات کی ابتدائی کتابوں میں موجود ہیں اور جس کے وہ منتظر ہیں۔درحقیقت ان پیشین گوئیوں کا مصداق حضرت مسیح علیہ السلام تھے‘ لیکن جب وہ آئے تو یہودیوں نے ان کو نہیں مانا‘ بلکہ معاذ اللہ انہیں جادوگر‘ کافر‘ مرتد اور ولد الزنا قرار دیا اور اپنے بس پڑتے سولی پر چڑھوا دیا۔ یہ دوسری بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں آسمان پر اٹھا لیا۔ چنانچہ یہودیوں کے نزدیک ان کے ”میسایاحِ منتظر“ کی اسامی ابھی خالی ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق وہ آئے گا اور اس تخت داﺅد پر بیٹھ کر پوری دنیا پر حکومت کرے گا۔
    اس ضمن میں عیسائیوں کا نظریہ یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا نزول ہو گا تو وہ اس تخت داﺅدؑ پر بیٹھیں گے۔ یہ لوگ فلسطین میں ایک رومن کیتھولک حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہودی اپنی حکومت چاہتے ہیں اور وہ اپنی حکومت چاہتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ انڈونیشیا کے اندر بھی ایک جزیرے کو تقسیم کر دیا گیا تھا اور اس کا ایک حصہ (مشرقی تیمور) رومن کیتھولک ریاست بن گیا ہے۔ شاید نائیجریا کے کسی علاقے میں بھی کچھ اسی طرح کا معاملہ ہوا ہے۔ اس اختلاف کے باوجودیہودی اور عیسائی عالمی استیلاءاور مالیاتی استعمار کے ایجنڈے پر متفق ہیں اور اس کے لیے کوشاں ہیں۔ اس پورے ڈرامے کا اسکرپٹ یہودیوں کا لکھا ہوا ہے اور وہی اس کے پس پردہ ہدایت کار ہیں۔ البتہ بظاہر اس ڈرامے کا سب سے بڑا کردار یعنی ہیرو امریکہ ہے اور پورا یورپ اس کے تابع ہے۔
    میں نے چار سال پہلے اسی مقام پر دو تقریریں ان ہی موضوعات پر کی تھیں‘ جو اَب کتابچوں کی صورت میں شائع شدہ ہیں :
    (i) پاکستان کے وجود کو لاحق خطرات و خدشات اور بچاﺅ کی تدابیر
    (ii)موجودہ عالمی حالات کے پس منظر میں اسلام کا مستقبل ۔
    ان خطابات میں یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ بالآخر دنیا میں خلافت کا نظام قائم ہو گا۔ عرب میں حضرت مہدی کا ظہور ہو گا اور پھر گریٹر اسرائیل کے خلاف جہاد ہو گا۔ اس جہاد کے نتیجے میں رفتہ رفتہ یہود سے یہ ممالک واپس لیے جائیں گے جن پر ان کا قبضہ ہو چکا ہو گا۔یہاں تک کہ بالآخر ایک یہودی میسایاح ہونے کا اعلان کر دے گا۔ یہ وہ دجال (Anti-Christ) ہو گا جس کی خبریں احادیث میں دی گئی ہیں۔ کیتھولک عیسائیوں اور Baptistsکا بھی یہی نظریہ ہے کہ اینٹی کرائسٹ یہودی ہو گا۔ کچھ عرصہ پہلے بہت بڑا پروپیگنڈا ہوا تھا کہ اینٹی کرائسٹ (دجال) مسلمان ہو گا۔ لیکن عیسائیوں کا اصل موقف یہی ہے کہ وہ یہودی ہو گا۔ پھر حضرت مسیحd کا آسمان سے نزول ہو گا اور ان کے ہاتھوں دجال قتل ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے ہاتھوں ایک ایک یہودی قتل ہو گا۔ پھر حضرت مسیحؑ کے ہاتھوں ایک عالمی اسلامی ریاست قائم ہو گی۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام چالیس برس تک پوری دنیا پر حکومت کریں گے۔ بہرحال یہ جو تصویر کا دوسرا رخ ہے‘ میں اِس وقت اس کی تفصیل میں نہیں جا رہا۔ تصویر کا جورخ سامنے ہے وہ میں نے آپ کے سامنے رکھ دیا ہے۔


    افغانستان پر امریکی حملے کا اصل سبب

    اب ذرا تجزیہ کیجیے کہ افغانستان پر امریکی حملے کا اصل سبب کیا تھا۔ میں نے یہود و نصاریٰ کے ایجنڈے کے دو حصے بیان کیے ہیں۔ایک یہ کہ دنیا میں اسلام کہیں ظاہر نہ ہو جائے‘ اسلام کا نظام کہیں قائم نہ ہو جائے اور دوسرے مسلمانوں کے مالیاتی خاص طور پر تیل کے وسائل پر قبضہ۔ افغانستان میں جو کچھ ہوا ہے یہ سارا معاملہ اسلام کا راستہ روکنے کے لیے تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ یہاں اسلام اپنی صورت ظاہر کر رہا ہے اور اگر طالبان کو موقع مل گیا تو یہ ایک فلاحی ریاست قائم کر دیں گے۔ یہاں زکوٰة کا نظام قائم ہو گیا تو اعلیٰ ترین ویلفیئر سٹیٹ قائم ہو جائے گی‘ اور اگر یہاں پر اسلامی حدود و تعزیرات کا نفاذ ہو گیا تو معاشرہ جرائم سے پاک ہو جائے گا‘ لوگوں میں محبت ہو گی‘ مساوات ہو گی اور عام لوگوں کے لیے ویلفیئر کا نظام ہو گا ۔اور یہ نظام دنیا کے سامنے آ گیا تو پھر ہمارا سرمایہ دارانہ نظام کہاں رہے گا؟ اس کو تو کہیں منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔ لہٰذا افغانستان پر حملے کا اصل محرک یہ ہے۔ البتہ ساتھ ہی یہ بھی پیش نظر تھا کہ افغانستان کے راستے سے سنٹرل ایشیا کی ریاستوں سے تیل اور گیس کی پائپ لائنیں گوادر کے آس پاس سمندر تک لائی جائیں‘ تاکہ وسط ایشیا کی مسلمان ریاستوں کے تیل اور گیس کے ذخائرتک رسائی حاصل کی جا سکے۔ قبل ازیں وہ طالبان کے زمانے میں اس کی کوشش کر چکے تھے۔ ان کی سب سے بڑی کمپنیUNICOLنے طالبان سے مذاکرات کیے تھے‘لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ ملّا ملاٹے تو سودے بازی (bargaining)میں بڑے سخت گیر ہیں۔ طالبان نے ان کے ساتھ اس طریقے سے پاﺅں جما کر مذاکرات کیے اور اپنی شرائط پیش کیں کہ وہ گھبرا اٹھے اور مایوس ہو کر بھاگ گئے۔ چنانچہ افغانستان پر قبضہ کرنے میں اگرچہ ایک محرک یہ بھی تھا‘ لیکن اس کی حیثیت ثانوی تھی‘ اصل محرک یہ تھا کہ وہ اسلام کے نظامِ خلافت کی کوئی صورت دنیا کے سامنے نہ آنے دیں۔
    یہی وجہ ہے کہ اس معاملے میں پورا عالمِ کفر جمع ہے۔ امریکہ‘ یورپ‘ روس‘ چین اور بھارت سب یکجا ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا جب ہمارے ہاں لال مسجد کا حادثہ ہوااور ہمارے بدبخت اور بدمعاش صدر نے خود جان بوجھ کر ایک پھنسی کو بڑھا کر پھوڑا بنایا اور پھر اس میں شگاف دیا تو اس پر دنیا بھر سے شاباش لی۔ اسے امریکہ سے‘ یورپ سے‘ نیٹو سے‘ رو س سے اور چائنا سے شاباش موصول ہوئی۔ وہ شخص اُس وقت محسوس کر رہا تھا کہ اندرونِ ملک تو اب میری کشتی ڈانوا ڈول ہے لہٰذا مجھے عالمی قوتوں کی اشیر باد حاصل کرنی چاہیے۔ چنانچہ اس نے دنیا کو یہ باورکرایا کہ پاکستان کے عین قلب میں بنیاد پرستی ‘ شدت پسندی ‘ تنگ نظری اور دہشت گردی کا یہ پھوڑا نکل آیا تھا اور دیکھو کہ میں نے کس قدر سفاکی اور بے رحمی سے اس میں چیرہ دیا ہے‘ کتنے لوگوں کو ختم کر دیا ہے!
    یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ افغانستان کے بارے میں اور قربِ قیامت کی جنگوں کے بارے میں رسول اللہﷺ کی جو احادیث ہیں وہ یہودیوں کے علم میں ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا:
    ((یَخرُجُ مِن خُرَاسَانَ رَایَات سُود لَا یَرُدُّھَا شَیئحَتّٰی تُنصَبَ بِاِیلِیَائَ))(۱)
    ”خراسان کے علاقے سے کالے جھنڈے لے کر فوجیں چلیں گی‘ کوئی طاقت ان کا رخ نہیں موڑ سکے گی‘یہاں تک کہ وہ جھنڈے بیت المقدس میں گاڑ دیے جائیں گے۔“
    انہیں یہ خوب معلوم ہے ۔ اس لیے کہ یہ بہت پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ ان کے علم کا اندازہ اس واقعے سے کیجیے کہ جب ۷۶۹۱ءکی عرب اسرائیل جنگ میں یہودیوں کو بہت بڑی فتح ہوئی اور انہوں نے اردن سے مشرقی یروشلم بھی چھین لیا اور اس طرح پورا یروشلم اور بیت المقدس ان کے قبضے میں آگیا تو اس موقع پر جب اسرائیلی وزیر دفاع موشے دایان فاتح کی حیثیت سے مشرقی بیت المقدس میں داخل ہوا تو اس کے ساتھ موجود چیف ربائی (RABBI)رو پڑا۔ یہ وقت یہودیوں کے لیے فتح کی خوشی کا تھا‘ لیکن ان کے چیف ربائی نے روتے ہوئے یہ کہا تھا :
    "So this is the beginning of the end."

  8. #8
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default

    یعنی یہ تو خاتمے کا آغاز ہے۔ اس کے یہ الفاظ اخبارات میں شائع ہوئے تھے۔ گویا اب یہ آخری ڈرامہ شروع ہو گیا ہے اور ان کو معلوم ہے کہ یہ آخری ڈرامہ ان کی تباہی پر ختم ہونا ہے۔ Evengelistsکے ترجمان ماہنامہ "The Philadelphia Trumpet" میں یہ بات لکھی گئی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے نزول کے بعد ۰۸ فیصد یہودی قتل ہو جائیں گے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ بات صحیح ہے تو بچ جانے والے 20 فیصد وہ ہوں گے جو حضرت مسیحؑ پر ایمان لے آئیں گے۔ باقی 80 فیصد اپنے اس کفر پر اَڑے رہیں گے اور قتل کر دیے جائیں گے۔اسی طرح آنحضورﷺ کی ایک حدیث ہے:
    ”قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ مسلمان یہود سے جنگ کریں گے اور انہیں قتل کریں گے۔ حتیٰ کہ اگر کسی پتھر اور درخت کے پیچھے کوئی یہودی چھپا ہو گا تو وہ پتھر اور درخت پکار اٹھے گا کہ اے مسلمان! اے عبداللہ! میرے پیچھے یہ یہودی چھپا ہوا ہے‘ آ کر اسے قتل کرو۔ سوائے ایک درخت غرقد کے‘ اس لیے کہ وہ یہودیوں کا درخت ہے“۔ (صحیح مسلم و مسند احمد)
    اور آج اسرائیل میں سب سے بڑی شجرکاری غرقد کی ہوئی ہے۔ اس لیے کہ یہ مستند احادیث ان کے علم میں ہیں۔
    خراسان کے بارے میں جان لیجیے کہ یہ افغانستان کا قلب ہے اور اس وقت ایران کا ایک صوبہ ”خراسان“ ہے‘ جس کا دارالحکومت ان کا مقدس شہر مشہد ہے۔ لیکن احادیث میں جس ”خراسان“کا تذکرہ آیا ہے وہ تاریخ میں ”خراسانِ بزرگ“ (عظیم تر خراسان) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس میں پورا افغانستان‘ وسط ایشیائی ریاستیں‘ ایران کا ایک حصہ اور پاکستان کا ایک حصہ‘ جو مالا کنڈ ڈویژن کہلاتا ہے‘ شامل ہے۔اور یہ بڑی معنی خیز بات ہے کہ اسی مالا کنڈ سے وہ تحریک چلی ہے جو اصل تحریک طالبان ہے۔ بہرحال افغانستان پر حملے کا اصل سبب یہی ابلیسی سوچ تھی کہ ع ”آشکارا ہو نہ جائے شرعِ پیغمبر کہیں!“لہٰذا "Nip the evil in the bud" کے مصداق اس کے خلاف جارحیت کا آغاز کر دیا گیا۔ افغانستان سے آخری صلیبی جنگ کا جو سلسلہ شروع ہورہا ہے اس پرعابد اللہ جان کی کتاب
    "AFGHANISTAN: The Genesis of the Final Crusade"
    بہت چشم کشا اور معلومات افزا ہے۔
    عراق پر حملے میں اگرچہ بظاہر اصل محرک تیل پر قبضہ تھا‘ لیکن باطن میں یہ گریٹر اسرائیل کے قیام کی جانب پہلا قدم تھا۔ تیل میں اصل دلچسپی صرف امریکہ کو تھی۔ اس لیے کہ یورپ تو زیادہ تر کیسپین کے علاقہ کے تیل پر نگاہیں رکھتا ہے۔ دوسری طرف بظاہر یہاں کوئی مذہبی معاملہ بھی نہیں تھا‘ لیکن درپردہ اصل شے یہودی سازش تھی۔ میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ خلیج کی پہلی جنگ میں عراق کی فوجی طاقت کا بھرکس نکال دینے کے بعد اتحادی فوجوں کے کمانڈر انچیف شوارزکرافٹ نے صاف کہا تھا:
    "We have fought this war for the protection of Israel."
    اور عراق پر جو دوسری بار حملہ کیا گیا جس میں صدام کی حکومت ختم ہوئی تو صدام کا مجسمہ گرنے کے بعد اسرائیل کے وزیر اعظم شیرون(جو بدبخت ابھی تک کومے میں پڑا ہوا ہے) نے کہا تھا کہ عنقریب عراق پر ہماری حکومت ہو گی۔ اس خبیث نے یہ بھی کہا تھا کہ اس سے پہلے تو ہم عراق میں سے صرف دریائے فرات تک کا علاقہ مانگتے تھے ‘لیکن اب ہمارا عزم ہے کہ دجلہ تک جائیں گے۔ اس طرح دجلہ اور فرات کے درمیان کے پورے دوآبہ کا زرخیز ترین علاقہ ہمارے پاس آئے گا ۔ اس سے آپ اندازہ کر لیجیے کہ یہ دونوں چیزیں دونوں جگہ موجود ہیں۔ افغانستان میں مذہب کا عنصر زیادہ ہے لہٰذا وہاں بہت بڑا اتحاد(coalition) وجود میں آ گیا۔ عراق میں اس طرح کا اتحاد وجود میں نہیں آ سکا اور وہاں امریکہ تنہا ہے۔ یورپ بھی ساتھ نہیں آیا۔ زیادہ سے زیادہ کوئی علامتی سا معاملہ آسٹریلیا اور برطانیہ کا ہے یا پھر جو پرانی دولت مشترکہ چلی آ رہی ہے اس میں شاید کینیڈا کا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ رومن کیتھولک عیسائی اس درجے اسرائیل نواز نہیں ہیں۔
    افغانستان میں کارروائی کے لیے جو پوری دنیا کے غیر مسلم ممالک کا اتحاد و اشتراک ہو گیا‘ اس کے بارے میں عرض کر چکا ہوں کہ یہاں سے انہیں اسلام کی حیاتِ نو (resurgence) کا اندیشہ ہے ۔ رسول اللہﷺ کی یہ حدیث میں نے ابھی آپ کو سنائی ہے کہ ”خراسان سے سیاہ جھنڈے (اٹھائے لشکر) نکلیں گے‘ جنہیں کوئی شے نہیں روک سکے گی‘ یہاں تک کہ وہ جھنڈے ایلیا (بیت المقدس) میں جا کر نصب ہو جائیں گے“۔ آنحضورﷺ کے زمانے میں بیت المقدس عیسائیوں کے قبضے میں تھا۔ اس کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں ہمارے قبضے میں آیا۔ لیکن پھر صلیبیوں نے یہ ہم سے چھین لیا تھا اور یہ 1099ءتا 1187ء پورے 88 برس تک عیسائیوں کے قبضے میں رہا۔ پھر یہ صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ کے ہاتھوں عیسائیوں کے قبضے سے آزاد کرایا گیا۔ اب اس پر پھر یہود کا قبضہ ہے اور اسے ان سے واپس لینا ہے۔ پہلی مرتبہ بھی عرب اسے واپس نہیں لے سکے تھے‘ کھونے والے عرب ہی تھے۔ واپس لینے والا صلاح الدین ایوبی کرد تھا۔ اب بھی کھونے والے عرب ہیں ۔ اسرائیل نے مصر‘ شام اور اردن تینوں کا مقابلہ کیا تھا اور پورے مغربی کنارے پر‘ گولان کی پہاڑیوں پر اور جزیرہ نمائے سینا پر قبضہ کر لیا تھا۔ اب بھی عربوں میں تو کوئی دم نہیں ہے‘ ان میں کوئی جان نہیں ہے۔ ان کو عیاشیوں نے اور دولت کے نشے نے تباہ و برباد اور کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے یہود کے مقابلے کے لیے کسی اور قوم کو تیار کرنا ہے۔ واللہ اعلم!
    پس چہ باید کرد؟
    بہرحال جو باتیں میں نے آپ کو بتائیں‘ یہ تو سب شیاطین جن و انس کے منصوبے اور ان کے پروگرام ہیں۔ کبھی خمینی صاحب نے امریکہ کو ”شیطانِ بزرگ“ قرار دیا تھا۔ وہ آج بھی روئے ارضی پر سب سے بڑا شیطان ہے‘ جبکہ اس کے پیچھے یہود کا سازشی ذہن کارفرما ہے۔ بالفعل کیا ہوگا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی تدبیروں کو ناکام بنا سکتا ہے۔ ازروئے الفاظ قرآنی :﴾وَمَکَرُوا وَمَکَرَ اللّٰہُ﴿ (آل عمران:۴۵)”کافر اپنی چالیں چلتے ہیں اور اللہ اپنی چال چلتا ہے۔“اور ﴾سَنَستَدرِجُہُم مِّن حَیثُ لَا یَعلَمُونَ وَاُملِی لَہُمط اِنَّ کَیدِی مَتِین﴿(القلم)”(اے نبی! آپ گھبرائیں نہیں) ہم عنقریب ان کافروں کو رفتہ رفتہ وہاں سے لے آئیں گے جہاں سے انہیں احساس تک نہیں ہو گا (کہ یہ تو گرفت میں آ رہے ہیں) اور ابھی ذرا میں انہیں ڈھیل دے رہا ہوں‘ یقینا میری چال بہت مضبوط ہے“۔ انشاءاللہ اسی علاقے یعنی پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے اور افغانستان سے احیائِ خلافت کی تحریک اٹھے گی اور یہیں سے فوجیں جائیں گی جو عرب کے اندر حضرت مہدی کی حکومت کو مستحکم کریں گی۔ حضرت عبداللہ بن حارثhروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
    ((یَخرُجُ نَاس مِنَ المَشرِقِ فَیُوَطِّئُونَ لِلمَھدِیِّ یَعنِی سُلطَانَہ)) (۱)
    ”مشرق کی طرف (کے کسی ملک) سے فوجیں نکلیں گی جو مہدی کی حکومت قائم کریں گی“
    بہرحال ہو گا کیا ‘ یہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے‘ ہمارے لیے اہم تر معاملہ یہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔یہ ہے میری تقریر کا آخری حصہ ۔ ذوالفقار مرزا اورسید قائم علی شاہ نے جو کہا ہے میں اس کی تائید کرتا ہوں کہ طالبانائزیشن اور ہے ‘ اسلامائزیشن اور ہے۔ طالبانائزیشن کے اندر کچھ غیر تعلیم یافتہ اور جذباتی قسم کے لوگ بھی ہیں اور ان میں انتہا پسندی بھی ہے۔ افغانستان میںطالبان کے دور میں یہ چیزیں ضرور رہی ہیں۔ اگر انہیں کچھ اور وقت مل جاتا تو یہ ان چیزوں سے رفتہ رفتہ باہر نکل آتے۔ مگر انہیں موقع نہیں دیا گیا‘ انہیں ابتدا میں ہی ختم کر دیا گیا۔ بہرحال پہلی بات یہ ہے کہ اسلام اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔ یہاں اسلام آئے گا تو یہ ملک رہے گا‘ بصورتِ دیگر ختم ہو جائے گا اور اس میں کوئی شک نہیں۔ اس موضوع پر میں نے دو کتابیں لکھی ہیں۔ ایک ”اسلام اور پاکستان“ لکھی کہ پاکستان کیسے وجود میں آیا اور 1985ء میں ”استحکامِ پاکستان“ کے نام سے کتاب لکھی۔ اگر اللہ توفیق دے تو انہیں ضرور پڑھیے۔پاکستان کا کوئی جواز نہیں اگر یہاں اسلام نہ آئے۔ اور واقعتاً ہم جواز کھو چکے ہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ ہمیں مہلت دے رہا ہے لیکن اب یہ سمجھ لیجیے کہ یہ اللہ کی طرف سے ایک خاص مہلت ہے اور شاید آخری مہلت ہے جو ہمیں مل رہی ہے۔ یہاں اسلامائزیشن کا عمل نہ ہوا تو یہ ملک نہیں رہے گا۔ کوثر نیازی مرحوم کا ایک بڑا تلخ شعر ہے۔ موصوف ایک زمانے میں جماعت اسلامی کے بڑے مخلص کارکن تھے مگر بعد میں ان کی شخصیت کچھ متنازعہ اور بدنام ہو گئی تھی۔ انہوں نے کہا تھا :
    اسلام کو گر تیری فضا راس نہ آئے
    اے میرے وطن تجھ کو کوئی آگ لگائے!

    ہمیں اسلام چاہیے اور اسلام نہیں آئے گا تو یہ ملک نہیں رہے گا۔ کوئی زرداری ‘ کوئی نواز شریف اس ملک کی بقا کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ اس کی بقا صرف اور صرف اسلامائزیشن میں ہے۔ ہم 61 سال تک اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور اس کی پاداش میں ایک عذابِ ادنیٰ بھی ہم جھیل چکے ہیں۔ 1971ء میں پاکستان دولخت ہوا۔ ہمارے ۳۹ ہزار پاکستانی مسلمان ٹرکوں میں بھر بھر کر بھارت کی قید میں بھیڑوں بکریوں کی طرح ہانک کر لے جائے گئے۔ہمارے ٹائیگر نامی جرنیل نے سکھ جرنیل کو اپنا ریوالور پیش کیا۔ کتنے لوگ مارے گئے‘ کتنا فساد ہوا! مسلمان کے ہاتھوں مسلمانوں کا کتنا خون ہوا۔ یہ اللہ کا ایک خاص عذاب ہوتا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے :
    ﴾قُل ہُوَ القَادِرُ عَلٰٓی اَنیَّ©بعَثَ عَلَیکُم عَذَابًا مِّن فَوقِکُم اَو مِن تَحتِ اَرجُلِکُم اَو یَلبِسَکُم شِیَعًا وَّیُذِیقَ بَعضَکُم بَاسَ بَعضٍط﴿ (الانعام:۵۶)
    ”(اے نبی !ان سے) کہہ دیجیے کہ اللہ اس پر قدرت رکھتا ہے کہ جب چاہے تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے یا تمہارے قدموں کے نیچے سے نکال دے یا تمہیں گروہوں میں بانٹ دے اور پھر ایک دوسرے کی قوت کا ایک دوسرے کو مزا چکھائے“۔
    اس آیت میں عذابِ الٰہی کی تین صورتیں بیان ہوئی ہیں۔ پہلی یہ کہ آسمان سے کوئی آفت نازل ہو جائے۔ دوسری یہ کہ زمین کے اندر سے کوئی مصیبت ظاہر ہو جائے۔مثلاً زلزلہ آ جائے‘ جیسے کچھ عرصہ قبل آیا تھا‘ یا پھر زمین پھٹے اور انسان اندر دھنس جائیں۔ اور اللہ کے عذاب کی ایک تیسری شکل بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ آسمان کو کوئی تکلیف دے نہ زمین کو‘ بلکہ تمہیں گروہوں میں تقسیم کر دے اورتم خود ایک دوسرے کے گلے کاٹنے لگو۔ ہم 10971ء میں اللہ کے اس عذاب کا مزا بھی چکھ چکے ہیں مگر ہماری حالت جوں کی توں ہے۔ اب ہم اس جگہ پر پہنچ گئے ہیں کہ خدانخواستہ ”عذابِ اکبر“ آنے والا ہے۔
    میں نے آغازِ خطاب میں یہ آیت تلاوت کی تھی :
    ﴾وَلَنُذِیقَنَّہُم مِّنَ العَذَابِ الاَدنٰی دُونَ العَذَابِ الاَکبَرِ لَعَلَّہُم یَرجِعُونَ﴿ (السجدة)
    ”ہم لازماً انہیں بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب کا مزا چکھائیں گے‘ شاید کہ وہ لوٹ آئیں۔“

  9. #9
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default

    1971ء میں چھوٹا عذاب آیا لیکن بہرحال مغربی پاکستان برقرار رہا اور اسی کا نام پاکستان پڑا۔ اب اندیشہ ہے کہ کہیں بڑا عذاب آ جائے اور پاکستان کے حصے بخرے ہو جائیں‘ جس کے نقشے دنیا میں شائع کیے جا چکے ہیں ۔ اب بھی اگر یہاں اسلام نہ آیا اور اس کے لیے پرامن اور تدریجی دستوری و قانونی راستہ اختیار نہ کیا گیا تو عسکریت پسندی بڑھے گی‘ رکے گی نہیں۔ ایک بہت بڑے مصری ادیب اور مؤرخ شکیب ارسلان لکھتے ہیں کہ سطح مرتفع پامیر سے جو پہاڑی سلسلے شروع ہوتے ہیں‘ ان میں سے دو یعنی کوہِ ہمالیہ اور کوہِ ہندو کش کے درمیان جو علاقہ ہے اس سے ایک تکون وجود میں آتی ہے جس کا قاعدہ (Base)کوہستانِ مالا کنڈ ہے۔ اسی تکون میں جو قوم آباد ہے اگر پوری اسلامی دنیا میں اسلام کی نبضیں ڈوب جائیں تب بھی یہاں کے لوگوں میں اسلام کی نبض چلتی رہے گی۔ اور یہ وہ علاقہ ہے جہاں سے پاکستان کے طالبان کا آغاز ہوا‘ جہاں سے نفاذِ شریعت کی پرامن تحریک چلی تھی جس کا راستہ روک دیا گیا تھا۔ اب وہ شدت پسندی کی طرف آ گئے ہیں۔ اب اگر انہیں تشدد سے روکا گیا اور امریکی ایجنڈے ہی کو پورا کرتے ہوئے اپنے ہی لوگوں کو مارتے رہے تو جواب میں یہ شدت پسندی اوربڑھے گی :

    گر اِک چراغِ حقیقت کو گل کیا تم نے
    تو موجِ دُود سے صد آفتاب ابھریں گے!

    اب یہ جو خود کش حملہ آور آ رہے ہیں یہ انہی لوگوں کے رشتہ دار ہیں جو امریکی بمباری میں مارے گئے ہیں۔ کتنے تھے جن کے بیٹے بیٹیاں مارے گئے۔ ہمارے ہاں کمانڈوز کے ایک کیمپ پر جو حملہ ہوا تھا جس میں ہمارے بیس کے قریب بہترین کمانڈوز مارے گئے تھے تو وہ خودکش بمبار ان کمانڈوز میں سے ہی ایک تھا۔باہر سے تو کوئی کمانڈو کیمپ کے اندر داخل نہیں ہو سکتا! اور کہا جاتا ہے کہ یہ وہی کمانڈو تھا جس کی بیٹی جامعہ حفصہؓ کے اندر جلائی جانے والی بچیوں میں شامل تھی۔ اس کے دل میں انتقام کا جو لاوا کھول رہا تھا اس نے خود اپنی جان دے کر اس کو ٹھنڈا کیا۔ ایسے ہی باجوڑ میں حملہ ہوا تھا تو جواباً ہمارے ملٹری کیمپ پر حملہ ہو گیا ۔یہ بھی جان لیجیے کہ یہ خطرہ انہی علاقوں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ نیچے تک آئے گا اور افغانستان اور شمال سرحدی صوبے میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ اس کا ایک تسلسل ہو گا۔ اور یہ خطرہ حقیقی ہے‘ غیر حقیقی اور وہمی و خیالی نہیں ہے۔
    تقریباً ساڑھے چار سال قبل میں انتہائی مایوسی کو پہنچ چکا تھا کہ پاکستان کا وجود باقی نہیں رہے گا۔ پاکستان اپنا جواز کھو چکا ہے۔ اس لیے کہ یہ اسلام کے نام پر بنا تھا مگر یہاں اسلام کا نظام نہیں لایا گیا۔ جو اسلام یہاں پر ہے وہ تو بھارت میں بھی ہے اور امریکہ میں بھی ہے۔ کہاں ہے اسلام کا سیاسی نظام‘ اسلام کا تعزیراتی نظام ‘ اسلام کا فوجداری قانون‘ سول لاءاور اس کے عائلی قوانین؟ایک خود ساختہ فیلڈ مارشل صدر ایوب خان نے جو عائلی قوانین بنائے تھے‘ ان کے بارے میں تمام مکاتبِ فکر کے علماءنے کہا کہ یہ غلط ہیں‘ لیکن اس مسئلہ پر کوئی تحریک نہیں اٹھائی۔ یہ ان کی غلطی اور کوتاہی تھی۔ جمہوریت کی تحریک میں تو شامل ہو گئے مگر اس پر کوئی تحریک نہیں چلائی۔بہرحال میں نے کہا تھا کہ یہ ملک خداداد اسلام کے نام پر بنا تھا مگر اسلام کا نظام قائم نہیں کیا گیا لہٰذا یہ اپنا جواز کھوچکا ہے۔ لیکن پچھلے سال سے میری مایوسی میں کچھ کمی ہوئی ہے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کو اللہ تعالیٰ نے ہمت دی اور وہ ظلم ونا انصافی کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ جرنیلوں کے جمگھٹے میں ایک سویلین آدمی جس درجہ مرعوب ہو سکتا ہے‘ آپ اس کا اندازہ کر سکتے ہیں‘ لیکن وہ شخص مرعوب نہیں ہوا۔ اور پھر وکلاءکی جو برجستہ (spontaneous) تحریکچلی ہے‘ یہ ایک انہونی شے ہے جو ہماری سوچ سے باہر تھی۔ یہ کوئی چھوکروں کی چلائی ہوئی تحریک نہیں ہے‘ یہ ہمارے ہاں کے عام آدمیوں کی تحریک نہیں ہے‘ بلکہ یہ تو کالے کوٹ اور کالی ٹائیاں پہننے والے پڑھے لکھے لوگوں کی تحریک ہے ۔انہوں نے سختیاں جھیلی ہیں اور یہ تحریک ابھی تک چل رہی ہے۔ اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تیزی اور تندی میں کمی آئی ہے اور حکومت کو ان کے اندر رخنہ اندازی کا موقع ملا ہے ‘لیکن بہرحال ان دونوں چیزوں سے میری مایوسی میں قدرے کمی ہوئی ہے۔ میری مایوسی میں کمی کا دوسرا سبب 18 فروری کے الیکشن کا پرامن طور پر منعقد ہو جاناتھا ۔ مجھے شدید اندیشہ تھا کہ اس موقع پر زبردست دھاندلی ہو گی۔ اگر دھاندلی ہوتی تو پھر لازماً ایک زوردار تحریک چلتی ‘ ملک میں بدامنی ہوتی توپھر دونوں طرف جو گدھ بیٹھے ہوئے ہیں ‘ یعنی مغرب میں نیٹو فورسز اور مشرق میں انڈین فورسز‘ یہ پاکستان میں داخل ہو کر اس کے ایٹمی دانت توڑدیتے اور پھر پاکستان بھارت کے رحم و کرم پر ہوتا۔ میں کنڈولیزا رائس کے بیان کا ذکر کر چکا ہوں کہ پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ امریکہ اور بھارت مل کر کریں گے۔ لیکن بہرحال الیکشن میں متوقع دھاندلی نہیں ہوئی اور یہ خطرات ٹل گئے۔
    قراردادِ مقاصد کے ذریعے گویا پاکستان میں نظامِ خلافت کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ یعنی حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے اور ہمارے پاس جو بھی اختیار ہے یہ ایک مقدس امانت ہے‘ جو کتاب و سنت کے دائرے کے اندر استعمال ہو گا۔ اپنی روح کے اعتبار سے قراردادِ مقاصد میں خلافت کا تصور موجود ہے۔ اس سے پہلے قائد اعظم محمد علی جناح کی 11اگست 1928ءکی تقریر کی وجہ سے جو ایک غلط فہمی پیدا کر دی گئی تھی کہ ”پاکستان میں دستور شریعت پر مبنی نہیں ہو گا“ تو انہوں نے 1928ءمیں کراچی کی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے اس کی تردید کر دی تھی اور فرما یا تھا کہ کچھ لوگ شرارت کے ساتھ یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ قائد اعظم کے الفاظ ہیں کہ ایسے لوگ شریر اور فتنہ پرور ہیں!
    اس کے بعد 1950ء میں یہاں کے سیکولر عناصر نے بڑا شور مچایا کہ کس کا اسلام لاﺅ گے؟ شیعہ کا‘ سنی کا‘ دیوبندی کا‘ بریلوی کا یا وہابی کا؟ اس پر پاکستان کے تمام مذہبی مکاتب فکر کی چوٹی کی قیادت کراچی میں جمع ہو گئی ۔ اللہ ان بزرگوں کو غریق رحمت کرے۔ ان میں شیعہ بھی تھے‘ اہل حدیث بھی تھے‘ بریلوی بھی تھے‘ دیوبندی بھی تھے‘ جماعت اسلامی بھی تھی ‘ خود مولانا مودودی تھے۔ ان 13 علماءکرام نے مل کر اسلامی دستور سازی کے لیے ۲۲ متفقہ اصول دے دیے کہ ان کی روشنی میں دستور سازی کی جائے۔ اب تمام مکاتب فکر کے لوگ جمع ہو گئے تو کوئی عذر باقی نہ رہا۔ لیکن بعد میں جو کچھ ہوا کہ ساری بساط ہی لپیٹ دی گئی تو یہ ایک بڑی درد بھری داستان ہے۔ اس وقت میں اس کو نہیں چھیڑنا چاہتا کہ اس میں کس کا کیا کردار رہا ہے۔ اس میں کچھ کردار اپنوںنے ادا

  10. #10
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default

    کیا اور کچھ بیرونی دباﺅ کے تحت ہوا۔ لیاقت علی خان کو قراردادِ مقاصد پاس کرانے کی سزا دی گئی۔ ان کو ایسے قتل کیا گیا کہ قاتل کا آج تک سراغ نہیں ملا۔ یہ ایسے نہیں ہو گیا‘ اس کے پیچھے بڑے بڑے کردار ہیں۔
    غور طلب بات یہ ہے کہ وہ عمل دوبارہ کیسے شروع ہو؟ صدرضیاءالحق نے ”فیڈرل شریعت کورٹ“ کے نام سے جو ایک ادارہ قائم کیا تھا یہ اصولی اعتبار سے ایک بہترین قدم تھا کہ یہ شرعی عدالت ہے‘ اس میں کوئی شخص پٹیشن داخل کر اسکتا ہے کہ میں ثابت کرتا ہوں کہ پاکستان کا فلاں قانون کتاب و سنت کے منافی ہے‘ اسے ان کے مطابق بنایا جائے ۔عدالت ان قوانین کا جائزہ لے کہ یہ پورا قانون یا اس کی فلاں شق خلاف شریعت ہے یا نہیں! اس پر بحث مباحثہ ہو‘ دونوں طرف سے دلائل لائے جائیں‘ علماءبھی آئیں ‘وکلاءبھی آئیں اور بحث کریں۔ بالآخر اگر عدالت فیصلہ دے دے کہ فلاں قانون جو بننے جا رہا ہے یہ پوراخلافِ شریعت ہے یا اس کی فلاں شق شریعت کے خلاف ہے تو اسے منسوخ کر دیا جائے گا اور عدالت ایک مہلت دے گی کہ اگر یہ مرکزی معاملہ ہے تو مرکزی حکومت اور صوبائی معاملہ ہے تو صوبائی حکومت اتنی مدت کے اندر اندر اس کا متبادل لے آئے۔ جیسے ہی مہلت ختم ہو گی یہ قانون کالعدم ہو جائے گا۔ اصولی اعتبار سے اس سے زیادہ صحیح سکیم کوئی نہیں سوچ سکتا۔ آج بھی میں اس کا قائل ہوں۔ لیکن یہ بدبختی تھی ضیاءالحق کی کہ اس نے اس کو بالکل غیر مؤثر کر دیا ۔ اپنی ہی بنائی ہوئی فیڈرل شریعت کورٹ کے ہاتھوں میں دو ہتھکڑیاں ڈال دیں اور پاﺅں میں دو بیڑیاں پہنا دیں کہ پاکستان کا دستوراس کے دائرئہ اختیار سے خارج ہے۔ اسی طرح جوڈیشیل پرو سیجرل لاز یعنی ضابطہِ دیوانی‘ ضابطہ فوجداری‘ یہ بھی اس کے دائرے سے خارج ہیں۔ مالی معاملات بھی دس سال تک خارج ہیں اور فیملی لا ز تو مستقل خارج ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
    اب کرنے کا کام یہ ہے کہ پہلے نمبر پر فیڈرل شریعت کورٹ کے دائرئہ اختیار پر جو تحدیدات (limitations)ہیں وہ ختم کی جائیں۔دوسرے یہ کہ اس کا سٹیٹس کم سے کم ہائی کورٹ کے درجے کا ہونا چاہیے۔ تیسرے یہ کہ اس میں تمام مسالک کے جید علماءکو لاکر بٹھایا جائے۔ ان میں جدید قانون کے جاننے والے وکلاءبھی ہوں اور اسلامی شریعت کے ماہر علماءبھی ہوں۔ اس عدالت کے فیصلوں پر نظر ثانی کا کھلا موقع ہونا چاہیے۔ کسی شہری کی طرف سے کسی قانون کے خلاف پٹیشن آنے پر یا از خود نوٹس لے کر یہ عدالت جائزہ لے اور اس طرح ایک ایک کر کے تمام غلط قوانین ختم کیے جائیں اور ان کی جگہ پر پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی نئے قانون لے کر آئے۔ عدالت کا کام قانون سازی (legislation)نہیں ہے۔ وہ صرف یہ فیصلہ دے سکتی ہے کہ فلاں قانون شریعت سے تجاوز کر گیا ہے یا اس کی فلاں شق شریعت کے خلاف ہے۔قانون سازی نیشنل اسمبلی یا صوبائی اسمبلی ہی کرے گی۔ پھر یہ کہ اس عرصے کے دوران اسلامی نظریاتی کونسل پر جو ارب ہا ارب روپیہ خرچ ہوا ہے اور اس کی رپورٹوں کے انبار لگ گئے ہیں‘ لیکن کسی ایک سفارش کو بھی آج تک پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا‘ حالانکہ اس کونسل میں تمام مکاتب فکر کے جید علماءموجود رہے ہیں‘ تو ان رپورٹوں کو رفتہ رفتہ پارلیمنٹ کے سامنے لایا جائے اور ان کی روشنی میں نئی قانون سازی کی جائے۔
    اگر یہ قانونی‘ دستوری راستہ کھول دیا جائے اور تدریجاً اس طریقے سے اسلامائزیشن آف لا ز آف پاکستان کا عمل شروع ہو جائے تو پھر شدت پسندی کا خطرہ نہیں رہے گا۔ یہ جو کہا جا رہا ہے کہ دہشت گردی ہو رہی ہے‘ طالبان آ رہے ہیں‘ ان سے ڈرو اور بچو اور مقابلے کی تیاری کرو‘ تو اس سے توفساد ہو گا اور فساد کا نتیجہ جو نکلے گا ‘ وہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن اگر یہ پراسیس شروع ہو جائے تو یہ تمام معاملہ ختم ہوجائے گا جس کا خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ جنرل حمید گل نے بھی یہی کہا تھا کہ اگر ایسا ہو جائے تو یہ soft revolution ہو گا‘ بغیر تشدد کے معاملہ حل ہو جائے گا۔ بہرحال اگر نیت ٹھیک ہو اور جیسے قائم علی شاہ نے اور ذوالفقار مرزا نے سمجھ لیا ہے اسی طرح دیگر برسراقتدار لوگ بھی سمجھ لیں تو ظاہر ہے کہ پھر کسی توڑ پھوڑ‘ بدامنی اور کسی تشدد کے بغیر یہاں اسلامائزیشن ہو جائے گی۔ اس سے سب کے دل خوش ہو جائیں گے اور اس سارے تشدد اور دہشت گردی کے راستے بند ہو جائیں گے۔ بصورتِ دیگر یہی غیر تعلیم یافتہ یا نیم تعلیم یافتہ لوگ آگے آئیں گےجن کا نہ تو اسلام کے بارے میں تصور مکمل ہے اور نہ انہیں دنیا کے حالات کا علم ہے۔ ان کی شریعت کے اصل مصادر ‘منابع اور ذرائع تک رسائی نہیں ہے۔ انہیں یہ تو معلوم ہے کہ داڑھی رکھنا سنت ہے‘ لیکن انہیں یہ نہیں معلوم کہ یہ فرض نہیں ہے اور اس کی خاص مقدار بھی معین نہیں ہے۔ یہاں آڈیوز اور ویڈیوز کا کلچر ہے جس میں انہیں معلوم ہے کہ عریانیت ہے۔ لہٰذا وہ ویڈیو سنٹروں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اسی طرح یہاں لڑکیوں کو مخلوط تعلیم بھی دی جا رہی ہے اور ڈانس اور موسیقی کی تعلیم بھی نافذ کی جا رہی ہے‘ بلکہ تعلیم کا شعبہ ہی اسماعیلیوں کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے ‘ لہٰذاان چیزوں کے خلاف ان کی طرف سے ردِّعمل ظاہر ہو رہا ہے ۔ تو اس چیز کا راستہ اگر روکنا ہے تو وہ عمل شروع کرنا پڑے گا جو میں نے بیان کر دیا ہے۔ میاں نواز شریف جب وزیر اعظم تھے تو وہ اپنے والد محترم اور بھائیوں کے ہمراہ دو مرتبہ میرے پاس آئے تھے اور میں نے انہیں یہ ترمیمی بل مرتب کر کے دیا تھا جس کے نکات میں نے ابھی بیان کیے ہیں‘ لیکن ان کی بدقسمتی کہ وہ اپنے دورِ اقتدار میں کچھ بھی نہ کر سکے ۔
    اس وقت پاکستان کے دینی مدرسوں میں شدید تحریک چل رہی ہے‘جس کے لیے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا معاملہ ایک علامت (symbol)بن چکا ہے۔ دینی مدارس کے طلبہ بہت بڑی تعداد میں عسکریت پسندی کی طرف آ رہے ہیں اور طالبان کی سورس یہی لوگ ہیں۔ انہی سے افغانستان میں طالبان اُبھرے تھے اور انہی سے پاکستان کے ابھر رہے ہیں۔ ان کے اندر ردّعمل کی شدید لہر ہے۔ اگر خدانخواستہ کوئی بہت بڑا فساد ہو گیا تو اس کا نتیجہ پھر پاکستان کا اختتام ہو گا۔ لہٰذا اس سے بچنا ہے تو وہ راستہ اختیار کرنا ہو گا جو میں نے ابھی بیان کیا ہے اور سالہا سال سے بیان کر رہا ہوں ۔ میں نے دستور کا ترمیمی بل بھی بنا کر دیا ہے اور اسے عام بھی کیا ہے ۔
    اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارا آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہے۔ ہمارا پروگرام کسی عسکریت پسندی کی طرف جانے کا نہیں ہے۔ ہم اسے مفید نہیں سمجھتے ‘بلکہ مضر سمجھتے ہیں۔ ہمارے سامنے ایک سہ نکاتی پروگرام ہے۔
    (۱) بڑے پیمانے پر قرآن کے ذریعہ دعوتِ ایمان ۔ بقول اقبال ع ”میری تمام سرگزشت کھوئے ہوﺅں کی جستجو!“ گزشتہ پچاس سال سے میری سرگزشت یہی ہے کہ الحمد للہ قرآن مجید کا پڑھنا ‘پڑھانا‘ سیکھنا ‘سکھانا اور عام کرنا‘ یہی میرا کام رہا ہے۔ اور میں نے اللہ کے فضل سے ایک بڑی ٹیم تیار کر لی ہے جو یہ کام کر رہی ہے۔
    (۲) دعوت کے بعد دوسرے نمبر پر جو چیز آتی ہے وہ ہے شریعت پر عمل‘ جو ایمان کا ایک ثبوت ہے۔ شریعت کے جس جس حکم پر عمل ہو سکتا ہے وہ تو کیا جائے۔ اگر نہیں کریں گے تو مجرم ہوں گے۔ البتہ شریعت کا ایک حصہ وہ ہے جس پر عمل نہیں ہو سکتا جب تک کہ نظام نہ بدلا جائے۔ ہم چور کا ہاتھ نہیں کاٹ سکتے‘ اس لیے کہ نظامِ شریعت قائم نہیں ہے۔ البتہ دین اور شریعت کے جتنے حصہ پر عمل ہو سکتا ہے وہ تو کریں۔ پھر یہ کہ ایسے لوگوں کو منظم کیا جائے۔ اس کے لیے بیعت کا نظام اپنایا جائے جو منصوص ‘ مسنون اور ماثور ہے۔ ایک امیر کے ہاتھ پر بیعت ہو۔ وہ آگے بڑھنے کا حکم دے تو آگے بڑھو اور وہ رکنے کا حکم دے تو رک جاﺅ۔
    (۳) ایسے لوگوں کا تزکیہ اور تربیت۔ تزکیہ یہ کہ کوئی امنگ‘ کوئی ولولہ‘ کوئی مقصد‘ کوئی تمنا دل میں نہ رہے سوائے اللہ کی رضا کے۔ حکومت و اقتدار مطلوب نہ ہو ‘مال و دولت مطلوب نہ ہو ‘صرف اللہ کی رضا اور آخرت کی فلاح مقصود ہو۔ حضرت مجذوبؒ‘ کا شعر ہے :
    ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
    اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی
    یعنی اے اللہ! اب تو تُو میرے دل میں آ جا‘ میرے دل سے دوسری ہر تمنا نکل چکی ہے۔ اور تربیت اس چیز کی کہ اب تیار ہو جاﺅ کہ تن من دھن سب کچھ اللہ کی راہ میںلگادیں گے۔ جب موقع آئے گا تو جان بھی دے دیں گے۔ لیکن اس کے لیے ملک گیر جماعت اور معتدبہ تعداد کا ہونا ضروری ہے۔ ایسا نہ ہو کہ سو پچاس آدمی لے کر کسی لال مسجد کو مرکز بنا کر بیٹھ جائیں اور نعرہ لگا دیں۔ نہیں‘ بلکہ ملک گیر جماعت ہو اور وہ بھی معتدبہ تعداد میں ہو۔ وہ جب تک نہیں ہوتی تو ہم یہی تین کام کرتے رہیں گے‘ یعنی دعوتِ ایمان بذریعہ قرآن‘ تنظیم بذریعہ مسنون بیعت اور تزکیہ اور تربیت۔ جیسے اقبال نے کہا : ع
    بانشہ درویشی در سازو دما دم زن!
    یہی کام کرتے رہو۔ نہ عسکریت پسندی ‘نہ انتخابات۔ لیکن جب تعداد کافی ہو جائے تو منظم اور پرامن‘ مطالباتی و احتجاجی تحریک اٹھے جس میں توڑپھوڑ نہ ہو‘گھیراﺅ جلاﺅ نہ ہو۔ جیسے گاندھی نے ”نمک بناﺅ تحریک“ شروع کی تھی۔ کسی نے کوئی توڑ پھوڑ نہیں کی تھی۔ ان کے اپنے سر ضرور پھٹے تھے۔ مولانا ابولکلام آزاد اور پنڈت جواہر لال نہرو جیسے بڑے بڑے لیڈروں کے سر پھٹے تھے۔ ہزارہا لوگ جیلوں میں گئے ۔ انہوں نے کسی کو کچھ نہیں کہا۔ اسی کا نقشہ ایرانیوں نے دکھایا۔ بیس ہزار سے لے کر تیس ہزار تک جانیں دے دیں۔ ہتھیار نہیں اٹھائے۔ اس لیے کہ اگر ہتھیار استعمال کروگے تو اوپر جو حکومتیں ہیں ان کے پاس تو بے تحاشا فوج ہے۔ ان کے پاس ٹینک ہیں‘ ان کے پاس ہوائی جہاز ہیں‘ گن شپ ہیلی کاپٹرز ہیں‘ ان کے پاس کیا نہیں ہے۔ بس پرامن‘ منظم‘ مطالباتی اور احتجاجی تحریک اٹھے۔اللہ کرے کہ ہمیں اس کے لیے جو مہلت درکار ہے وہ مل جائے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ کہیں وہ مہلت ختم ہی نہ ہو گئی ہو۔ لیکن اگر ہم آخری سانس تک اس کام میں لگے رہیں گے تو اِن شاءاللہ ‘اللہ تعالیٰ ہم سے درگزر فرمائے گا ۔اللہ تعالیٰ کے ہاں ہم معذور قرار پائیں گے کہ اے اللہ! جو کچھ ہم کر سکتے تھے‘آخری دم تک کرتے رہے‘ اگر ہم یہ کر سکے تو اپنی تو کامیابی ہے‘ باقی ملک کا کیا ہوتا ہے یہ اللہ بہترجانتا ہے۔

    اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلماتoo

  11. #11
    iftekhar786's Avatar
    iftekhar786 is offline Senior Member+
    Last Online
    18th March 2015 @ 11:36 PM
    Join Date
    06 Mar 2009
    Posts
    229
    Threads
    9
    Credits
    0
    Thanked
    0

    Default

    good yaar

  12. #12
    rizwanfahad is offline Senior Member+
    Last Online
    20th April 2010 @ 05:23 PM
    Join Date
    21 Oct 2008
    Age
    42
    Posts
    108
    Threads
    26
    Credits
    0
    Thanked
    0

    Default

    Zabar Dast Yar Allah Ap Ki Mehnat Qubol Farmay.
    UMMEED-KI-KIRAN

Page 1 of 2 12 LastLast

Similar Threads

  1. Replies: 23
    Last Post: 26th May 2020, 01:49 PM
  2. Replies: 28
    Last Post: 20th February 2016, 07:41 PM
  3. Replies: 11
    Last Post: 8th April 2013, 06:08 PM
  4. Replies: 43
    Last Post: 4th December 2011, 10:36 PM
  5. Replies: 4
    Last Post: 8th December 2009, 11:24 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •