[SIZE="4"][SIZE="5"]پاکستانی عوام اور فوج ،ایف بی آئی کے سپائیڈرگروپ کے نشانے پر

امریکہ کی طرف سے جاسوسی وتخریبی کارروائیوں کے لئے 50بلین ڈالر زبجٹ مختص
سابقہ فوجی، قادیانی، آغاخانی اورعیسائی ایجنٹوں کی بھرتی


پاک فوج نشانہ کیوں؟
پاکستان میں بم دھماکوں کاسلسلہ ہے کہ آئے روز بڑھتا ہی جارہاہے۔ قبائلی علاقے، عوامی شخصیات اورفوج خصوصی نشانہ ہیں۔ نوبت اب یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ 25فروری 2006ء کو ہماری فوج کا لیفٹیننٹ جنرل رینک کاانتہائی اعلیٰ افسر بھی ان دھماکوں کی نذر ہوگیاہے۔ یہ اتنابڑاسانحہ ہے کہ اس پرپوری قوم کے محب وطن، باشعور، ذمہ دار اور دردِدل رکھنے والے طبقے کو سرجوڑ کر بیٹھنے اوران واقعات کے اسباب وتدارک پربھرپور غوروفکر کی ضرورت ہے لیکن افسوس اتنابڑاواقعہ ہوا اورقوم نے اگلے دن ہی اسے بھلادیا۔ ملک کی سیاسی قیادت نے تواس پرلمحہ بھر بھی پریشان ہونے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ حکمرانوں سمیت انہوں نے بھی ایک دو لفظی بیان دیا اور بس گویابات آئی گئی ہوگئی۔ اب انہیں اقتدار کے بکھیڑوں سے فرصت ہو تووہ اس طرف بھی توجہ کریں۔
کیاہمیں معلوم ہے کہ پاک بھارت جنگوں اور جہاد کشمیر کی پوری تاریخ میں بھارت کاآج تک ایک بھی لیفٹیننٹ جنرل رینک کا افسر نہیں ماراگیا لیکن یہاں وارادات کرنے والے اتنی بڑی واردات کرگئے اورہمیں محسوس تک نہ ہوا۔
حکومت کوتوایسے سانحات سے جان چھڑانے کاایک اچھا نسخہ کسی نے تھمایاہواہے کہ وہ ایسے ہرواقعہ کوخودکش بم دھماکہ کہہ دیتی ہے اور یوں اگلے دن ہی کیس داخل دفترہوجاتاہے۔ ظاہرہے جب حکومت نے دعویٰ کردیا کہ دھماکہ کرنے والا ملزم ہی زندہ نہیں رہا تو کیس کی مزیدکیاتحقیق ہونی ہے اورکیا پیش رفت ہونی ہے۔ مزید برآں اس حالیہ دھماکے کوحسب سابق حکومتی ذرائع نے خودہی قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے ردّعمل سے بھی جوڑ دیاحالانکہ یہ اگر فوجی کارروائیوں کاردّعمل ہوتا اور''انتہاپسند'' مسلمانوں کی کارروائی ہوتی تووہ کم ازکم جنرل ڈاکٹرمشتاق بیگ ایسے شخص کونشانہ نہیں بناسکتے تھے کیونکہ جنرل مشتاق تو بذات خود ظاہری طورپر ''انتہاپسند'' مسلمانوں کی صف میں ہی نظر آتے تھے، وہ حافظ قرآن تھے۔ ان کا چہرہ سنت رسولﷺ سے آراستہ تھا۔ وہ صوم وصلوٰۃ کے پابند انسان تھے اور بات صرف ظاہر ی معاملے تک ہی محدود نہیں تھی، عملاً بھی ان کا تعلق فوج کے ایسے شعبے سے تھاجس کاتعلق کبھی اس طرح کے فوجی آپریشنوں سے رہتاہی نہیں۔ وہ امراض چشم کے ماہر سرجن اور ڈاکٹر تھے۔ اس لحاظ سے ان کا تعلق فوج کے صرف میڈیکل شعبہ سے تھا۔ اب ایسادیندار اور میڈیکل شعبے کافوجی طالبان یا''انتہاپسند'' مسلمانوں کا کس طرح ہدف ہوسکتاہے؟ یہ بات ناقابل فہم ہے۔ البتہ تصویر کادوسرا رخ ضرورقابل فہم ہے۔اوروہ دوسرا رخ یہ ہے کہ جہاں طالبان کے ردّعمل میں پاک فوج کے خلاف واقعی کچھ حقیقی کاروائیاں ہورہی ہوں، وہاں ہوسکتاہے اس آڑ میں کچھ دیگر قوتیں اپنافائدہ بھی اٹھارہی ہوں۔آخریہ بعیدازمکان تونہیں اورپھریہ مخصوص قوتیں جس طرح کامخصوص ایجنڈا رکھتی ہیں'اس تناظرمیں ان قوتوں سے ایسی خوفناک کارروائیوں کاسرزدہونا بعید بھی نہیں۔
پاک فوج ان استعماری طاقتوں کاروزِاوّل سے خاص ہدف ہے۔ خاص طورپرپاک فوج کواسلام پسندعناصر سے پاک کرنا یاکم ازکم انہیں اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے ہی نہ دینا اوراس سے پہلے ہی انہیں ریٹائرکرادینا یاکسی اور طریقے سے انہیں کارنرکرنا، ان طاقتوں کے خفیہ پروگرام کاسرفہرست ایجنڈا رہاہے۔ اس طرح پاک فوج سے اسلامی شعائر اورجذبہ جہاد کاخاتمہ بھی ان کے ایجنڈے کے اہم ترین اہداف ہیں۔ اسی عالمی ایجنڈے کے تحت پاک فوج سے سب سے پہلے ایمان'تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کا ماٹو عملا ًختم کرایا گیا۔ اکثرچھاؤنیوں سے جہادی آیات کو مٹادیاگیا۔ پاک فوج کا جذبہ جہاد سردکرنے کے لئے ہرسال 23مارچ اور14 اگست کو منعقد ہونے والے فوجی وعسکری مظاہروں اور مشقوں کو بھی سکیورٹی تحفظات کی آڑ میں بندکردیاگیا۔ کچھ عرصہ پہلے فوج میں یہ حکمنامہ بھی لایاگیا کہ تین انگلیوں سے زیادہ داڑھی نہ رکھی جائے جبکہ فضائیہ میں تو پائلٹوں پرداڑھی رکھنے کی مکمل ممانعت کردی گئی۔ ایسااسلام دشمن ایجنڈا رکھنے والی طاقتوں سے کس طرح امید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ پاک فوج کے اسلام پسند عناصر کوٹھکانے لگانے کی کارروائیوں اور سازشوں میں ملوث نہ ہوں گی۔ اگریہ کہاجائے کہ یہ خودکش کارروائیاں اور بم دھماکے ہمارے اپنے ہی لوگوں کاکیادھرا ہیں تو یہ بات سوفیصد تسلیم نہیں کی جاسکتی ۔اس لئے کہ9/11 سے پہلے بھی پاکستان بم دھماکوں کی لپیٹ میں تھا۔ فرق صرف اتنا تھاکہ اس وقت ان دھماکوں کو خودکش بم دھماکوں کانام نہیں دیاجاتاتھا۔ اس وقت اسے شیعہ سنی فساد کانام دیاجاتاتھا۔ سوال یہ ہے کہ یہ شیعہ سنّی فساد آج اچانک کیوں ختم ہوگیاہے۔ کیا دونوں فرقوں کے درمیان کوئی بڑامعاہدہ امن ہوچکاہے۔ ظاہرہے ایساکچھ نہیں ہوا۔ دراصل امریکہ ایک عرصہ تک اس کوشش میں لگارہاکہ پاکستانی قوم کوشیعہ سنّی فساد کے ذریعے باہم لڑایاجائے۔ عراق میں بھی اس نے علی الاعلان یہ کوششیں کیں لیکن جب شیعہ سنّی عوام نے اس سازش کوناکام بنادیا اورانہوں نے ہرموقع پرخانہ جنگی کی بجائے بھرپور اتحاد کامظاہرہ کیا تو امریکہ کے سارے خواب دھرے رہ گئے۔اس کے بعدامریکہ نے ''انتہا پسند''مسلمانوں کے نام پرخودکش بم دھماکوں کاناٹک شروع کیا اور اس کے لئے اس نے اپنے جاسوسی کے نظام کوبھی ہماری صفوں کے اندر منظم کیا۔
قارئین کرام!پاک فوج کے اسلام پسندعناصر کو ٹھکانے لگانے کی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ آپ نے غور کیاہوگا کہ پاکستان کے اندر امریکی اورنیٹوفوج کی کارروائیاں بھی مسلسل تشویشناک حد تک بڑھتی جارہی ہیں۔اس کاآغازوانامیں کمانڈر نیک محمد کے خلاف کارروائی سے ہواتھا۔ پاکستانی حکومت اس کے ساتھ معاہدہ امن کرچکی تھی لیکن پھر اچانک ایک دن کسی نامعلوم راکٹ حملے کاانہیں نشانہ بنادیاگیا۔ آخر نیک محمد کے ساتھ کیے گئے معاہدہ امن کواچانک کیوں سبوتاژ کردیا گیا اورپھراس کی پوزیشن کس طرح معلوم کرکے صحیح صحیح نشانہ بنایاگیا' ظاہر ہے یہ اندرکے بعض قریبی افراد کی جاسوسی کے بغیرممکن نہ تھا۔ اب امریکہ قبائلی علاقوں میں اپنے ایسے حملے مسلسل بڑھاتاجارہا ہے۔ پہلے امریکہ ان حملوں کی اعلانیہ ذمہ داری قبول نہیں کرتاتھا یا انہیں غلطی قرار دے دیاجاتالیکن اب وہ مسلسل اعلانیہ کارروائیاں کر رہاہے اور ہرجگہ اپنے مطلوبہ اہداف کوصحیح صحیح نشانہ بنارہاہے۔
دراصل مشرف حکومت نے 9/11کے بعدجہاں امریکہ کو لاجسٹک سپورٹ دیتے ہوئے بہت سے غلط اورہولناک فیصلے کیے تھے' ان میں ایک یہ فیصلہ بھی تھا کہ امریکہ کے ساتھ انٹیلی جنس کی معلومات کاتبادلہ کیاجائے گا۔اس تعاون کی آڑ میں امریکی سی آئی اے اورایف بی آئی پاکستانی آئی ایس آئی کے اندر گھس گئی اور اسی آئی ایس آئی کی کھڑکی کے ذریعے وہ پاک فوج کے معاملات کی بھی جاسوسی اورنگرانی کرنے لگی۔اس تعاون کی ہمیں آگے بڑھ کریہ قیمت اداکرنی پڑی کہ آج امریکہ جب چاہتاہے قبائلی علاقوں میں اپنے اہداف خودہی کامیابی سے ڈھونڈ کر نشانہ بناتاہے یہاں تک کہ اب پاکستانی فوج کے اسلام پسند عناصر بھی محفوظ نہیں رہے۔

سپائیڈرگروپ:
قارئین کویہ معلوم ہوگاکہ امریکہ نے 2002ء میں پاکستان میں ایف بی آئی کانیٹ ورک قائم کرنے کااعلان کیاتھا۔
مغربی ذرائع کے مطابق امریکہ کو انٹیلی جنس معلومات کی فراہمی کے لئے پہلے آئی ایس آئی کے اندرہی ایف بی آئی نے سپائڈرگروپ (Spider Group)کے نام سے سلیپرسیل (Sleeper Cell)بنایاتھا۔ مغربی ذرائع اس سلیپرسیل کے قیام کا بانی بھی خودمشرف کوقرار دیتے ہیں اور اس سپائڈر گروپ کو خود مشرف کی اپنی انٹیلی جنس ایجنسی قرار دیتے ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق یہ گروپ بااعتماد پاکستانی انٹیلی جنس ایجنٹوں 'سی آئی اے کے جاسوسوں اوردولتمندکاروباری شخصیات کے اشتراک سے بنایاگیا۔ اس کے علاوہ اس میں پاکستانی آرمی کے ریٹائرڈ آفیسرز کوبھی شامل کیا گیاجن میں بریگیڈئیر اورکرنل رینک کے آفیسرز بھی بھرتی کئے گئے تاہم بعدازاں ایف بی آئی نے اس گروپ کوآئی ایس آئی سے آزادانہ طورپرالگ کرلیاکیونکہ اب ان کے پاس اپنے ایجنٹ اتنی تعدادمیں بھرتی ہوکر ٹرینڈہوچکے تھے کہ جن کے ذریعے وہ آئی ایس آئی سے زیادہ قابل اعتماد معلومات حاصل کرسکتے تھے۔اس مقصد کے لئے ابتدائی طورپر6ہزار مقامی مخبربنانے کے لئے4ارب ڈالر کا بجٹ مختص کیا گیا۔پاکستان کے اندردرجنوں ایف بی آئی کے بیورو قائم کئے گئے جہاں لوگوں کوایجنٹ بنانے کے لئے بھاری تنخواہوں کے ساتھ ڈالروں اورویزوں کے پھندے تیارکئے گئے۔ ایف بی آئی نے اپنے دفاترزیادہ ترپاکستان کے فائیوسٹارہوٹلوں میں قائم کئے۔ ائیر پورٹس پرانہوں نے اپنے کنٹرول روم قائم کرلئے جبکہ پاکستان کی اہم شاہراہیں اورریلوے اسٹیشن بھی ان کے جاسوسی نیٹ ورک کی زد میں آئے۔ اس کے علاوہ سب سے تشویشناک امر یہ تھا کہ آغاخان کے ہسپتال اورایسے دیگر ادارے بھی ان کے مراکز ومستقربن گئے جہاں سے روزانہ تازہ رپورٹیں' فلمیں اور کارروائیاں ایف بی آئی اپنے ہیڈکوارٹر واشنگٹن روانہ کرتی ہے۔ پھروہاں سے ان رپورٹوں کی روشنی میں جوہدایات موصول ہوتی ہیں' ان کے مطابق عمل کیاجاتاہے۔