دنیا کے گلوبل ولیج بننے کے بعد میڈیا کی جادو گری اور اس کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے ‘ ہرچھوٹی بڑی خبر اپنی اہمیت کے لحاظ سے لمحوں میں ساری دنیا میں پھیل جاتی ہے‘ ترقی یافتہ ممالک کے تھنک ٹینکس سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں‘ اس کے اچھے برے پہلوؤں پر غور کرتے ہیں‘ اس کے اپنے مفاد میں ہونے نہ ہونے کی حدود کا تعین کرتے ہیں اور اس کی روشنی میں اپنی اپنی حکومتوں یا سرپرستوں کو مشورے دیتے ہیں جو خبر کو اپنے مفاد کے مطابق مثبت یا منفی انداز میں اپنے کارکنان کے ذریعہ تشہیر کرتے ہیں‘ مرضی کے مطابق عوامی پریشر تیار کرتے ہیں‘ پورا میڈیا ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم‘ حق کو نا حق اور ناحق کوحق‘ رائی کا پہاڑ اور پہاڑ کو رائی بنانے میں لگا دیا جاتا ہے۔ ساری دنیا کی عوام چونکہ بہت سی باتوں سے قطعی ناواقف ہوتے ہیں‘ اس لئے وہ میڈیا ہی پر یقین کرلیتے ہیں‘ اس طرح وہ اپنے مقاصد میں بغیر کسی اندرونی مخالفت کے کامیاب ہوجاتے ہیں۔
اس کے علاوہ میڈیا ہی کے ذریعہ اپنے کسی مقصد کو پورا کرنے کے لئے وقت سے پہلے اسی طرح گراؤنڈ تیار کرتے ہیں جس طرح شکاری بڑی ہوشیاری سے جال بچھاتا ہے‘ تاکہ شکار آسانی سے پھنس جائے یا مچھلی کا شکاری کانٹے پر چارہ لگاتا ہے تاکہ مچھلی چارے کے ساتھ کانٹا بھی نگل جائے‘ اس کی خوب تشہیر کرتے ہیں تاکہ مقصد جلد حاصل ہوجائے۔ حصولِ مقصد کے بعد حقائق چاہے ان پروپیگنڈوں کے جتنے بھی برعکس ثابت ہوجائیں‘ مقصد تو پورا ہوہی چکا ہوتا ہے۔
اس فن نے بھی پچھلی صدی میں دوسرے فنون کی طرح بعض مغربی ممالک میں بڑی تیزی سے ترقی کی اور حیرت انگیز نتائج حاصل کئے‘ اسی وجہ سے تقریباً دو عشرے قبل بی بی سی کی ٹکر پر سی این این کو لایا گیا۔ بدقسمتی سے بہت سے ممالک تمام وسائل رکھنے کے باوجود دوسرے فنون کی طرح اس فن میں بھی بہت پیچھے ہیں‘ جس کی وجہ سے وہاں کے عوام اپنی اپنی عقلوں کے مطابق ایسی خبروں کے تجزیئے کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مختلف افراد‘ طبقے اور جماعتیں اپنی اپنی سوچ‘ فکر اور مفاد کے مطابق ان کے مقاصد ونتائج اخذ کرتے ہیں اور ہرکوئی اپنے تجزیئے کو صحیح اور دوسرے کے تجزیئے کو باطل قرار دینے میں زور لگاتا ہے اور عوام صحیح اور غلط کے گرداب میں پھنس جاتے ہیں۔ اس طرح بہت سے ممالک کے حکمران دشمن میڈیا کے پرو پیگنڈوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں‘ کیونکہ اپنے ملک کی عوام کا پر یشر بٹا ہونے کی وجہ سے مطلوبہ حد تک نہیں بڑھ پاتا اور وہ اپنی کرسی یا جاگیر بچانے کے لئے دشمن کے جال میں پھنس جاتے ہیں یا کانٹا نگل جاتے ہیں۔
اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ پچھلے دو عشروں کے دوران دنیا میں جس طرح بڑے بڑے حادثات اور ننگِ انسانیت واقعات ظہور پذیر ہوئے جن کے ”عمل اور رد عمل“ کے اثرات آج ساری دنیا میں محسوس کئے جارہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ظالمانہ کارروائیوں کی شکل میں دنیا کو تیزی سے مہنگائی ‘ بھوک‘ افلاس بلکہ تیسری عالمگیر جنگ کی طرف دھکیل رہی ہیں‘ اس کے بھیانک نتائج سے دنیا کے سب شریف النفس انسان نہ صرف پریشان بلکہ خوف زدہ ہیں‘ انہیں اُجاگر کیا جائے اور معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔اس مراسلے کی محرک ایک چھوٹی سی خبر بنی جو اخبارات میں ۵/جون ۲۰۰۸ء کو چھپی‘ اس کا خلاصہ ہے:
”امریکی صدارتی امیدوار بارک اوبامانے کہا ہے کہ دہشت گرد گروپ اسرائیل کو ختم کرنا چاہتے ہیں تاہم وہ اسرائیل کے سچے دوست ہیں اور اسرائیل کو در پیش خطروں کو امریکا کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں ․․․․“
ذہن میں سوال اٹھا کہ کیا وجہ ہے کہ ہر امریکی صدر‘ صدر بننے سے پہلے‘ صدر بننے کے بعد حتی کہ صدارت سے ہٹنے کے بعد بھی اسرائیل کا بھوت اپنے سے کیوں چمٹائے رکھتاہے؟ عقل تو کہتی ہے کہ اگر فکر کرنا ہی ہے تو پیٹرول وگیس سے مالا مال ممالک کی کرنا چاہئے کہ جن سے امریکہ سمیت دنیا کے سارے ممالک کا پہیہ حرکت میں ہے‘ یہ انتہائی قلیل اسرائیلوں کی فکر میں کیوں پریشان رہتے ہیں؟ یہ تو ناممکن ہے کہ وہ ان کی نفسیات سے واقف ہوں اور ان کے نسبی اور تاریخی کردار سے لاعلم ہوں پھر آخر ایسا کیوں ہے؟ سوچ کا دائرہ وسیع ہونے لگا اور صدر بل کلنٹن کے اقتدار کا آخری زمانہ یاد آگیا جب انہوں نے فلسطین اور اسرائیل تنازع کو حل کرنے کی مخلصانہ کوششوں کا آغاز کرنا چاہا تو ان کے ساتھ ایک یہودی عورت کا اسکینڈل سامنے لاکے میڈیا پر اس کی اتنی تشہیر کی گئی کہ صدر امریکا کو بھی دفاعی راستہ اختیا ر کرنے پر مجبور ہونا پڑا اور اصل معاملہ پھر کٹھائی میں پڑ گیا‘ کیونکہ اسرائیل تو امریکا کے کندھے پر سوار ہو کے ساری دنیا پر حکومت کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے‘ وہ اس معاملہ کو کیونکر ختم ہوتے دیکھنا پسند کرے گا۔ پھر میڈیا کی وہ رپورٹیں بھی ذہن میں آئیں کہ اسرائیلی ایجنٹ امریکا کے الیکشن میں اپنے من پسند امیدواروں کو کامیاب کروانے کے لئے ڈالرپانی کی طرح بہاتے ہیں اور پھر ان ہی کے دور اقتدار میں یہ رقم کئی گنا سود کے ساتھ امداد کی شکل میں اسرائیل منتقل ہوجاتی ہے۔ یہ رقم غریب عوام کی ٹیکس کی شکل میں ادا کی گئی رقم میں سے ہی ہوتی ہے اور اتنی خطیر ہوتی ہے کہ دنیا بھر میں بھوک وافلاس کی ماری انسانیت کے دکھوں کا مداوا ثابت ہوسکتی ہے پھر بھی میڈیا کی جادو گری سے یہ قوم مغربی ممالک کی نظر میں مظلوم اور فلسطینی مسلمانوں کے لئے ننگِ انسانیت بنی ہوئی ہے ۔
میڈیا کے کرشموں پر مزید نظر ڈالنے سے پہلے پروفیسر جوڈ جو لندن یونیورسٹی میں شعبہ فلسفہ وعلم النفس کے صدر تھے‘ ان کی کتاب (Guide to Modern wickedness) ”جدید شیطانیت کی طرف رہنمائی“ کا ایک اقتباس درج ذیل ہے‘ جس سے قارئین کو یہ مراسلہ سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔ اپنی کتاب کے ص:۱۵۳ پر پروفیسر جوڈ لکھتے ہیں :
”وہ مشترک جذبات جن کو آسانی سے برانگیختہ کیا جاسکتا ہے اور جو جمہور کی بڑی بڑی جماعتوں کو حرکت میں لاسکتے ہیں وہ رحم ‘ فیاضی اور محبت کے جذبات نہیں‘ بلکہ نفرت اور خوف کے جذبات ہیں‘ جو لوگ کسی قوم پر کسی مقصد کے لئے حکمرانی کرنا چاہتے ہیں وہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک اس کے لئے کوئی ایسی چیز تلاش نہ کرلیں جس سے وہ نفرت کرے اور اس کے لئے کوئی ایسی شخصیت یا قوم نہ پیدا کرلیں جس سے وہ ڈر ے‘ میں ہی اگر قوموں کو متحد کرنا چاہوں تو مجھے چاہئے کہ میں ان کے لئے کسی اور سیارے پر کوئی دشمن ایجاد کروں‘ مثلاً :چاند پر جس سے یہ سب قومیں ڈریں‘ اس بناء پر قطعاً حیرت کی بات نہیں کہ اس زمانے کی قومی حکومتیں اپنی ہمسایہ قوموں کے ساتھ معاملہ کرنے میں نفرت اور خوف ہی کے جذبات کے زیر اثر ہیں۔ انہیں جذبات پر ان سلطنتوں پر حکمرانی کرنے والوں کی زندگی موقوف ہے اور انہیں جذبات پر قومی اتحاد کی بنیاد ہے“۔
اسی تناظر میں ہمیں اسرائیلی ذہنیت کو پرکھنا ہوگا۔
یوں تو بیسویں صدی کی ابتداء سے ہی دنیا کے بیشترعلاقوں میں انسانیت کے اخلاق واعمال‘ حرص وہوس ‘ سنگ دلی وبے رحمی کی سطح چوپایوں اور درندوں کی سطح سے کچھ بلند نہیں رہی تھی‘ مغربی اقوام کی اولین ترجیح دولت کو ہرممکنہ ذرائع سے حاصل کرنا‘ اسے اپنی نفسانی خواہشات پر خرچ کرنا اور اس کے لئے دوسری اقوام کے مادی وسائل پر قبضہ کرنا ہی رہ گیا تھا‘ تاکہ اپنے عیش وعشرت کا گراف مزید بلند کیا جاسکے جو آج تک جاری ہے‘ وہ پرندوں کی طرح تیز رفتاری سے اڑنا‘ سمندر کی گہرائیوں میں مچھلی کی طرح تیرنا تو سیکھ چکے تھے مگر زمین پر انسانوں کی طرح چلنا بھول گئے تھے‘ دوسری قوموں پر ڈر‘ خوف اور نفرت بٹھانے‘ ایک دوسرے کو مغلوب کرنے کے لئے پوری عقل‘ قوت اور لامحدود وسائل صرف آلاتِ حرب کو مہلک سے مہلک تر بنانے میں خرچ کئے جانے لگے‘ یہاں تک کہ اسی صدی کے درمیان جاپان کے دو بدقسمت شہروں: ہیروشیما اور ناگاساکی نے ایٹم بم کی وہ ہولناک تباہ کاریاں دیکھیں کہ جن کے تصور سے آج بھی انسانیت کی روح کانپ اٹھتی ہے اور یہ کارنامہ سرانجام دینے والوں کی پیشانیاں بھی عرق آلود ہوجاتی ہیں اور اب تو یہ حال ہے کہ خدانخواستہ تیسری عالمی جنگ چھڑی تور وئے زمین پر شاید ہی کہیں زندگی کے کوئی آثار باقی بچیں۔ اسی اندیشہ کے تحت شاید امریکا پر بالواسطہ حکومت کرنے والے عناصر نے اپنے قومی ونسلی امتیاز یعنی مال ودولت کی حرص وہوس اور عیش وعشرت کو اعتدال پر لانے‘ اپنے کبر ونخوت کو لگام دینے اور دنیا پر حکومت کرنے کا خواب تو چھوڑا نہیں۔ ہاں ساری دنیا کے مادی وسائل پر بلاواسطہ یا بالواسطہ قبضہ جمانے کی حرص میں اس بہیمانہ راستے کے ساتھ پروفیسر جوڈ کے فلسفہ کی رہنمائی میں اقوام عالم کے درمیان خوف ونفرت کے جذبات ابھارنے کے نت نئے راستے دریافت کرنے میں لگ گئے‘ تاکہ ان کی حکمرانی مستحکم رہ سکے ‘پہلے سوشلزم کا عفریت اور اب اسلام کا ہواکھڑا کیا۔
پہلا راستہ جو دریافت ہوا وہ پیٹ اور جیب کا راستہ تھا‘ اس جال کو انہوں نے معاشی اصلاحات‘ حقوق انسانی‘ آزادئ نسواں کے شیرے میں لپیٹ کر اپنے ایجنٹوں ‘ ورلڈ بنک‘ آئی ایم ایف‘ این جی اوز‘ ایجنسیز اور میڈیا کے ذریعہ اس طرح اقوام عالم پر پھینکنا شروع کیا جیسے جانوروں کے شکاری جانوروں کو قابو کرنے کے لئے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں‘ بعض رحم دلانا اور بعض ظالمانہ نتائج دنیا کے لئے جیسے بھی رہے ہوں‘ ان کے لئے خوش آئند اور مسحور کن تھے‘ سب سے بڑا حریف سرخ ریچھ ٹوٹ کر بکھر گیا ۔