بین اقوامی تعلقات عامہ اور سیاسیات کے ماہرین دہشت گر دی اور انتہا پسندی کی بُہت ساری وجوہات بتاتے ہیں جس میں مغربی ممالک کی مسلم دشمنی، غُربت، وسطی ایشیائی ریاستوں پر امریکہ کا قبضہ کرنا اور انکے 5 کھرب ڈالر کے قدرتی وسائل کو لوٹنے کی کو شش کرنا اور روس کے زوال کے بعد امریکہ کا پورے علاقے کا دادا گیر بننا شامل ہے۔مگر اسکے علاوہ بعض ایسی وجوہات ہیںجسکی وجہ سے امریکہ دہشت گر دی اور انتہا پسندی کی جنگ کی طر ف مائل ہے۔ جس میں دنیا کے مُختلف علاقوں میں کشید گی اور جنگی کیفیت پیدا کر کے اسلحہ بیچنا اور انخطاط اور زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ کرنا شامل ہے۔آج کل پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام زوال پذیر ہے امریکہ، یہودی ، اور سرمایہ دار اتحا دیوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پو ری پو ری کو شش ہے کہ اس گرتی ہوئی ظالمانہ اور دولت کے غیر مساویانہ نظام کو ہر حالت میں بچا یا جائے۔ساتھ ہی ساتھ امریکہ اور دوسرے یو رپی ممالک کی یہ بھی کو شش ہے کہ اس آمرانہ سرمایہ دارانہ نظام کو لوگوں، ملکوں، ریاستوں کو آپس میں لڑا لڑاکر تقسیم اور اُلجھا کر کے زندہ رکھا جائے۔اگر ہم پاکستان کی 60 سالہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمارے غریب کبھی ایک سیاسی پا رٹی کو خو ش آمدید کر تے اور کبھی دوسرے کو ،مگر حالات میں کوئی بہتری نہیں آتی، بلکہ اسکے بر عکس حالات بد سے بد تر ہو تے جا رہے ہیں۔کیونکہ ملک کا سرمایہ دار طبقہ جو اپنی دولت کے بل بو تے پرملکی سیاست پر چھا یا ہوا ہے اور بین الا قوامی سر مایہ داری نظام کا حصہ ہے ،وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ انکے اور اُنکے آقاؤںکے مفادات کو گزند پہنچے۔وہ یہ نہیں چاہتے کہ ایک غریب ور کر اور مزدور کو مساویانہ سہولیات ملیں۔ بلکہ اُ نکا کام حرص میں دولت اور مزید دولت اکٹھا کر نا ہو تا ہے۔اس قسم کے لوگوں سے یہ تو قع رکھنا عبث ہے کہ وہ کوئی ایسا کام کریں جس سے مزدور اور کا رندہ طبقے کو فا ئدہ ہو۔مارکس نے کیا خوب کہا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام سول سوسائٹی پر ایک خا ص طبقے کا اختیار ہوتا ہے جنکے پاس اقتصادی اور سیاسی دونوں اختیارات ہوتے ہیں ۔ اگر ہم مارکس کے مندرجہ بالا سٹیٹمینٹ کو دیکھیں تو اس سے یہ بات صا ف وا ضح ہو جاتی ہے کہ سر مایہ دارانہ نظام میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو تا جا رہا ہے۔ اور پھر امیر ترین لوگوں کے پاس سیاسی اور اقتصادی اختیا رات دونوں آجاتے ہیں تو وہ ملکی وسائل کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔اگر ہم ایوب خان کے دور کو دیکھیں تو اُ س وقت 22 خا ندان پیدا کئے گئے تھے اور اسکا بنیادی مقصد اس ملک میں سرمایہ دارانہ نظام کو تحفظ دینا تھا ۔ ایوب خان دور میں ان سرمایہ داروں اور کا رخا نہ داروں کو کافی مراعات دی گئیں اور اب موجودہ دور میں وہی 22 خا ندانوں کی تعداد 22 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔اب دنیا میں جتنے ارب پتی ہیں اُن میں مسلمان اور پا کستانی بھی شامل ہیں۔ امریکہ ، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور یہودیوں کا مقصد اس پو رے ڈرامے سے یہ ہے کہ لوگوں کی نظریں سرمایہ دارانہ نظام کے منفی اور استخصالی پہلو کی طر ف مائل نہ ہوں ، بلکہ جس طرح ملٹی نیشنل کمپنیوں، یہودی اور دنیا کے سرمایہ دار اس دنیا کے غریبوں کو لو ٹنا اور استخصال کرنا چاہتے ہیں کریں ۔اگر ہم عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کو دیکھیں تو یہ تقریباً ناکام ہو گیا ہے کیونکہ جو نظام لوگوں کو لو ٹنے معاشی انصاف اور حقا ئق پر مبنی نہیں ہو تا، وہ دیرپا اور پائیدار ثابت نہیں ہو سکتا ۔ اگر ہم مختلف یو رپی ممالک کے مختلف سماجی اقتصادی اشاروں پر نظر ڈالیں تو اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ان سرمایہ دار ممالک میں امیر اور غریب کے درمیان فرق حد سے زیادہ بڑھتا جا رہا ہے۔ مثلاً اگر ہم امریکہ کی مثال لیں تو امریکہ میں ایک چیف ایگزیکٹیو آفیسر ایک مزدور اور کلر ک سے 400 چند زیادہ تنخواہ لیتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ چیف ایگز یکٹیو کی تنخواہ میں ایک عام ور کر کی نسبت گذشتہ تیس سالوں میں 30 چند اضا فہ ہوا۔امریکہ میں نہ صرف تنخواہوں میں بے تحا شا فر ق ہے بلکہ امیر اور غریب کے درمیان بھی انتہائی فر ق ہے۔صرف امریکہ میں اس وقت 270 ار ب پتی ہیں۔ جو دنیا میں میں سب سے زیادہ تعداد میں ہیں۔مگر بد قسمتی سے وہی مذہب اور تہذیب یا فتہ ملک میں 1/4 سیاہ فام غُر بت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبو ر ہیں۔اسکے علاوہ امریکہ میں 22 فی صد ہسپانوی ہیں جو بھی غُُر بت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبو ر ہیں۔جبکہ اس کے بر عکس صر ف 7 فی صد سفید فام غربت کا شکار ہیں۔یہ کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ امریکہ میں 60 ملین یعنی 6 کرو ڑ لوگ صحت کی انشو رنس سے محروم ہیں۔ علاوہ ازیں صرف دو لا کھ لوگ لا انجلس میں بے گھر ہیں۔2006 کے ایک رپورٹ کے مطابق پن رج انڈین میں بے رو گاری کی شرح 80 فی صد سے زیادہ ہے، جبکہ 69 فی صد لوگ غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔یہاں لوگوں کی متوقع زندگی 57 سال ہے۔امریکہ میں ایک فی صد مالداروں کے پاس 45 فی صد دولت ہے اور امریکہ کے وسائل کا 50 فی صد منا فع صرف ایک فی صد لو گ لے رہے ہیں۔اس طرح حالت بر طانیہ میں بھی ہے ۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بر طانیہ میں 10 فی صد لوگوں کے پاس 50 سے 60 فی صد دولت ہے اور ان میں سے اکثر اتنے مالدار ہیں کہ ایک فی صد کے پاس 28 سے 30 فی صد تک دولت ہے۔اگر ہم Have اور have not کا موا زنہ کریں تو امریکہ اور یو رپ کے 40 ملین لوگوں کے پاس جتنی دولت ہے وہ ترقی پذیر ممالک کے 4 ارب لوگوں کے پا س نہیں۔عالمی بینک کے ایک سابق صدر جیمز ویفنسن کہتے ہیں کہ ترقی یا فتہ ممالک جس میں امریکہ، کنیڈا ، آسٹریلیا اور بر طانیہ شامل ہے انکے مالداروں کے پاس اپنے ممالک کی 80فی صد جی ڈی پی ہے۔سر ما یہ دارانہ نظام ایک ایسا غیر مساویانہ نظام ہے جس میں مالدار مالدار ترین اور غریب غر یب تر ہو تے جا رہے ہیں۔مثلاً دنیا میں 600 ملٹی نیشنل کمپنیوں کیے پا س دنیا کے وسائل کا 60 فی صد دو لت ہے۔سال 2007 میں نو کیا کی خا لص آمدن 17 ارب ڈالر، ٹو یتا مو ٹر کی 13 بلین ڈا لر، پی پی کمپنی کی 23 ارب ڈالر، کو کا کولا کی 8 بلین ڈالر ، سونی کی 20 ملین ڈالرز، جرنل الیکٹرک کے 30 ارب ڈالر، مائیکرو سافٹ کے 16 بلین ڈالر، انٹل کے 7 بلین ڈالرز ، میکڈو نلد کی 3 ارب ڈالر ہیں۔اگر ہم اپنے ملک میں سرمایہ داروں اور کا رخانہ داروں کے وسائل کو دیکھیں تو یہ بھی حد سے زیادہ ہے مثلا ً میاں منشا یاد کے اثاثے 3 ارب ڈا لر، آصف علی زر داری کے اثا ثے 3 بلین ڈالر، نواز شریف کے 3 بلین ڈالرز، ہا شوانی 3 ارب ڈالرز، ملک ریاض ڈیڑھ ارب ڈالرز ، سیف فیملی ایک بلین ڈالرز اور احمد مختار کی 600 ملین ڈالر ہیں۔اگر ہم روس کے زوال اور امریکہ روس کی دشمنی کو دیکھیں تو یہ لڑائی اور دشمنی کسی ٹھوس وجہ پر نہیں تھی بلکہ ا مریکہ اور یہودی جو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالک ہیں وہ کسی صورت میں سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ ایک متوازی نظام کو چلتے ہوئے دیکھ نہیں سکتے۔ لہذا صدر ضیاء الحق نے امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے نام نہاد جہاد کو جا ری رکھا تاکہ روس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے امریکہ ، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور سرمایہ دارانہ نطام کا تحفظ کیا جائے۔اور اب امریکہ اور یہود دنیاکے مختلف ممالک میں کشید گیاںپیدا کر کے ایک طر ف تو سرمایہ دارانہ نام کو تقویت دے رہا ہے جبکہ دو سری طر ف اسلحہ بھی بیچ رہا ہے۔ امریکہ اور یہودیوں کو یہ پتہ ہے کہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا لہذاء وہ اس کو شش میں ہے کہ اس خطے میں اسلام اور چینی سو شلزم کا راستہ روکا جائے۔یہاں امریکہ ایک ٹکٹ میں دو فا ئدے لے رہا ہے، ایک تو اسلام اورسوشلزم کے فلسفہ اقتصا دیات کو ختم کر نے کی کو شش کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف اپنے اسلحہ بیچنے کے لئے جنگ و جدل کی فضا پیدا کر کے اسلحہ سازی کی تجارت کو فروع دیئے جارہے ہیں۔اگر ہم سال 2007 میں اسلحہ کی پو ری خرید و فروحت پر نطر ڈا لیں تو یہ تقریباً 1160 ارب ڈالر تھی جس میں صرف امریکہ کا حصہ 11000 ارب ڈالرز ہے۔اسکے بر عکس اگر دنیا میں سو شلزم یا دوسرے نظاموں کو دیکھیں تو وہ کا میابی سے چل رہے ہیں ۔ وینزویلا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وینز ویلا نہ صرف اقتصادی طو ر پر ترقی کر رہا ہے بلکہ اسکے سماجی اقتصادی اشارے برابر اچھائی کی طر ف جا رہے ہیں۔مثلاً سال 1996 میں وینز ویلا کی جی ڈی پی قوت خرید 160 ارب ڈالر تھی جو سال 2007میں 260ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ وہاں پر سال 1996 میں افراط زر کی شرح 47 فی صد تھی جو سال 2007 میں 18فی صد ہوگئی۔سال 1996 میں فی کس جی ڈی پی 6600 ڈالر تھی جو سال 2007 میں 13000 ڈالرتک پہنچ گئی۔بے رو ز گاری کی شرح جو سال 1996 میں 12 فی صد تھی سال 2007 میں 6 فی صد تک گھٹ کر رہ گئی۔جی ڈی پی کی شرح نموجو سال 1996 میں منفی ایک فی صد تھی سال 2007 میں 9 فی صد ہوگئی ۔علاوہ ازیں یو رپ اور دسرے ممالک میں نو کریاں ختم کی جا رہی ہیں۔ ڈاؤن اور رائٹ سائزنگ کے نام پر غریب کا استخصال کیا جارہا ہے جبکہ دوسری طر ف ویزویلا میں تنخواہوں میں 30فی صد اضا فہ کیا گیا۔وہ سٹیل مل جس کی نجکاری کی گئی تھی اُنکو دوبارہ سرکاری تحویل میں لیا گیا۔ اس طرح کئی بینکس اور ٹیلی کام کے ادارے قومی تحویل میں لئے جائیں گے۔ان ساری باتوں کا حا صل یہ ہے کہ امریکہ، یہود اور یو رپی سر مایہ دار ممالک دہشت گردی اور انتہا پسندی کی آڑ میں نہ صرف مسلمانوں کو تباہ و بر باد کر رہے ہیں بلکہ ساتھ ہی دوسروںمقابلہ پسند نظاما ت ہیںجس میں سو شلزم اور اسلام شامل ہیں اس کو ختم کرنے کو ششیں کر رہے ہیں۔