ہندوستان یا پاکستان میں کوئی طاقتور جاگیردار، صنعتکار، وڈیرہ، سیاستداں یا خان کرپشن، اقربا پروری یا سیاسی انتقام پر مبنی مقدمات تو براہ راست اپنے سینے پر جھیل جاتا ہے لیکن آپ نے شاید ہی سنا ہو کہ ان میں سے کسی نے کبھی مسلح ڈاکے میں حصہ لیا ہو یا گینگ ریپ یا انفرادی بے حرمتی میں ملوث رہا ہو یا کسی کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا ہو۔



مگر اس کے لئے ہر طرح سے طاقتور اور بااثر ہونا بہت ضروری ہے۔


تو کیا یہ کردار معصوم ہوتے ہیں یا پھر اس طرح کے اخلاقی جرائم کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے یا ان پر ہمیشہ اس ضمن میں جھوٹے الزامات ہی لگتے ہیں۔حالانکہ یہ بھی میری اور آپ ہی کی طرح گوشت پوست، جذبات اور نیکی اور بدی کا مرکب ہوتے ہیں۔

مجھ پر فردِ جرم عائد ہونے اور ان پر عائد نہ ہونے کے درمیان صرف ایک فرق ہے اور وہ ایسا فرق ہے جو میرے جرم اور انکی معصومیت کے درمیان ہمیشہ باقی رہے گا۔ یعنی ایک وفادار ملازم کے ہونے یا نہ ہونے کا فرق۔ جو اپنے مالک کے کئے ہوئے ریپ، اغوا، ڈاکے یا قتل کا الزام اپنے سر لے لے۔

اس قربانی کے عوض مالک نہ صرف اسکے اہلِ خانہ کی پوری کفالت کرتا ہے بلکہ جب وہ دو چار برس جیل میں گزار کے ضمانت پر یا بری ہونے کی صورت میں رہا ہوتا ہے تو مالک اور اسکے دیگر حواریوں کی نگاہ میں اس کا رتبہ اور بڑھ جاتا ہے۔
جانے کیوں مجھے باجوڑ کے واقعات سن کر یہ بات یاد آ گئی۔