ایک خبرجس کے مطابق تشویش کی بات یہ ہے کہ امریکی صدر کے خصوصی ایلچی برائے پاکستان و افغانستان رچرڈہالبروک اور امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئر مین ایڈمرل مائیکل مولن گزشتہ دنوں نئی امریکی انتطامیہ کی جانب سے پاکستان کی اعلی قیادت کے لئے نئی امریکی ہدایات کے ساتھ پاکستان پہنچ چکے ہیں اور ان دنوں ان امریکی شخصیات کا یوں اچانک پاکستان چلے آنے سے متعلق پاکستانی سیاسی تجزیہ نگاروں اور مبصرین کا خیال یہ ہے کہ یہ دونوں امریکی افراد پاکستانی اعلی حکام سے دہشت گردی کے خلاف نئے امریکی منصوبوں پر تبادلہ خیال کرنے کے علاوہ حکومت پاکستان کو وہ خصوصی ڈیکٹیشن بھی دیں گے کہ جووہ امریکا سے لے کر آئے ہیں اور آئندہ کے امریکی لائحہ عمل سے بھی آگا ہ کریں گے بہرحال !ابھی تو صرف ان کے آمد کی خبر ہی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ وہ یوں اچانک کن مقاصد کے لئے آئے ہیں تو ادھر !گزشتہ دنوں ایک بھارتی اخبار انڈین ایکسریس میں ایک بھارتی دانشور راجاموہن کا تجزیہ شائع ہوا ہے جس میں اس بھارتی دانشور نے انکشافات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’طویل عرصے سے ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کا حامی ہونے کے باعث بھارت امریکی صدر بارک اوباما کی جانب سے دنیاکو ایٹمی اسلحے سے پاک کرنے کے منصوبوں کا زبردست انداز سے خیر مقدم کرتاہے ‘‘اگر چہ اس بھارتی تجزیہ نگار نے اپنے اس تجزئے میںکھل کر پاکستان دشمنی کا اظہار اپنے ان خدشات کے ساتھ پاکستان پر الزام عائدکرتے ہوئے کیا ہے کہ’’پاکستانی ایٹمی ہتھیار پرخطر اور دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں اس لحاظ سے پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کی غیر قانونی تجارت کا مرکز اور ناکام ریاست کے خطرے سے بھی دوچار ہے ‘‘ اس نے نہ صرف اتنا ہی کہا ہے بلکہ اس نے امریکا کو مشورہ دیتے ہوئے یہ بھی یقین دلانے کو پوری کوشش کی ہے کہ ’’ اس صورت حال میں انتہاپسندوں کی ایٹمی مواد اور ہتھیاروں تک رسائی روکنے کے لئے بھارت امریکا سے اپنامکمل تعاون جاری رکھے گا‘‘پاکستان دشمن اس بھارتی دانشور کی سوچ سے یہ بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارتیوں کی نظر میں پاکستانی ایٹمی اثاثے کس قدر کھٹکتے ہیں وہ تو ان کابس نہیں چلتا ہے ورنہ یہ بھارتی راتوں رات پاکستان آئیں اور پاکستانی ایٹمی اثاثے اٹھالے جائیں میرا مقصد یہ ہے کہ ان بھارتیوں پر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں نے ایسا خوف و حراس قائم کر رکھا ہے کہ جس کا اظہار بھارتی اس طرح اپنے قول و فعل سے اکثر و بیشتر کرتے رہتے ہیں اس کے علا وہ اس بھارتی دانشور نے اپنے تجزئے میں بھارتی ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق چاپلوسی کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’امریکا سے ایٹمی معاہدے کے بعد بھارت کا ایٹمی پروگرام دنیا کی نظر میں محفوظ ہوچکاہے ‘‘ (میرے نزیدیک یہ بھارتیوں کی محض خوش فہمی کے سوااور کچھ نہیں ہے حالانکہ 26 نومبر کو سانحہ ممبئی کے بعد کیا ضمانت ہے کہ بھارت کے ایٹمی اثاثے دہشت گردوں کی پہنچ سے دور ہیں) ا س کے ساتھ ہی اس نے انتہائی خوشامدانہ لہجے میں یہ بھی کہا ہے کہ’’ گزشتہ صدی کے وسط سے بھارت نے کبھی سی ٹی بی ٹی اور ایف ایم سی ٹی کی روح سے بھی اختلاف نہیں کیاہے بلکہ بھارت تو صرف یہ چاہتا ہے کہ ایٹمی عدم پھیلاوکے معاہدوں میں بھارت کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ کیاجائے ‘‘دوسری طرف یہ کہتا ہے کہ’’امریکا سے اس وقت تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے نئے دور کے آغاز کے باعث واشنگٹن اور بھارت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں رہاہے اور بھارت کی ہرممکن کوشش یہ ہے کہ وہ ایٹمی دہشت گردی کے چیلنچ سے نمٹنے کے لئے کھل کر عالمی برادری کاساتھ دے ‘‘ تو ادھر جمہوریہ چیک کے دارلحکومت میں ہزاروں افراد کے اجتماع سے امریکی صدر بارک اوباما نے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ ’’ہم دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کا عزم کئے ہوئے ہیں اور جس کے خاطر انتہائی ٹھوس اقدامات بھی کریں گے اگر چہ ان کا کہنا تھا کہ ’’ دنیاکو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کا امریکی منصوبہ جامع اور مربوط ہے جس سے امریکا پرخطر ملکوں کے جوہری اسلحے سے نمٹے گا اس رو سے امریکا جوہری ہتھیاررکھنے والے(میرے خیال سے ان کا اشارہ صرف پاکستان ،ایران اورشمالی کوریا کی طرف تھا) تمام ممالک کو اس عمل میں شریک کرے گا مگر امریکا اس سے مستسنی ہوگا کیوں کہ امریکا کو اپنے دفاع کے خاطر موثر ہتھیاروں کی تیاری جاری رکھنی ہوگی اس لئے بھی کہ دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی موجودگی تک ہمیں اپنی دفاعی قوت برقرار رکھنا ہے ان کا کہنا تھا کہ ’’ جوہری حملے کا خطرہ بڑھ گیا ہے ‘‘انہوں نے اس موقع پر ایران کا نام لیتے ہوئے یہ واضح عندیہ دیا کہ ’’جب تک ایران سے خطرہ ہے امریکا(ہم) اپنا میزائل دفاعی نظام جاری رکھے کا‘‘نئے امریکی صدر بارک اوباما کی جمہوریہ چیک میں کئے گئے اس خطاب کے بعد میرا یہ کہنا ہے کہ یہ بھی کتنے افسوس کی بات ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکا جو آج دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے کا ٹھیکدار بنا بیٹھا ہے اسے صرف اپنی بقاوسا لمیت کی ہی فکر لاحق ہے اور اس کی بلا سے کوئی دوسرا بھلے بھاڑ میں جائے اس کے نزدیک صرف اس کی بقاوسا لیمت اور خودمختاری ہی عزیز ہے جس کے لئے اس نے اب تک تو وہ کچھ کرڈالا ہے کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا حالانکہ اس کے ان خودغرضی پر مبنی اقدامات سے دنیا بھر میں اس کے خلاف نفرت اور انتقام کا ایک ایسا آتش فشاں لاوا پیدا ہوچکا ہے کہ جو کسی بھی وقت کہیں بھی پھٹ سکتا ہے اوراگر یہ پھٹ گیا توکہیں یہ پورے امریکا کو ہی بھسم کرکے نہ رکھ دے اور اسے نشان عبرت نہ بنا دے قبل اس کے کہ یہ آتش فشاں پھٹے امریکا کو اپنی انسان( بالخصوص اسلام) دشمن جاری پالیسیوں میں نظر ثانی کرتے ہوئے ان میں ایک مثبت اور( پاکستان اوراسلام دوستی )موئثرتبدیلیاں لانے کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ دنیا کوپھر کسی نئی آفت کے آنے سے پہلے ہی بچایا جاسکے۔

ویسے یہ بھی ایک مصصم حقیقت ہے کہ سچ کا تعلق قلب اور ضمیر کی زندگی سے ہے اور جھوٹ کا ان کی مرگ ناگہاں ہے اس رو سے یہ بھی عیاں ہے کہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا ازلی دشمن ہمارا پڑوسی ملک بھارت جس کے حکمرانوں کے قلب اورضمیرہمیشہ سے ہی پاکستان سے جھوٹے اور منفی پروپیگنڈوںسے متعلق مکدر رہے ہیںاوران کے دل و دماغ آج بھی اس ہی روش میں مبتلا ہیں کہ کسی بھی طرح سے پاکستان کے وقارکو دنیا کے سامنے بگاڑ کر پیش کیا جائے اور پاکستان کو کسی بھی طرح سے ایک ناکام اور دہشت گردریاست ثابت کرواکر اس کے ایٹمی اثاثوں سمیت اس کی اقتصادی و معاشی اور معاشرتی استحکام کو تباہ وبرباد کردیاجائے جس کے لئے بھارت اپنے ایجنڈے پر کاربند رہتے ہوئے عمل پیرابھی ہے اور اب بھارت کی جانب سے پاکستان سے متعلق جاری منفی پروپیگنڈوں کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے حکومت پاکستان کو بھی عالمی سطح پر اپنی خارجہ پالیسیوں میں مثبت تبدیلیاں لانی ہوں گئیں تاکہ بھارت سمیت امریکا کی پاکستان سے متعلق سازشوں سے بروقت نبر آزما ہواجاسکے ۔

ان تمام باتوں کے پس پردہ جو حقائق ہیں وہ یہ ہیں کہ نائن الیون اور 26نومبر سانحہ ممبئی کے واقعات کے سارے ڈراموںکے پیچھے امریکا ،بھارت اور اسرائیل کا ہی ہاتھ تھاجس کی وجہ سے امریکانے ساری دنیا پر اوراسی طرح ان دونوں(بھارت اور اسرائیل) نے بھی اپنے اپنے خطوں میں اپنی چوھدراہٹ قائم کرنے کی ٹھان رکھی ہے اور یوں ان تینوں نے ایک دوسرے کی مدد سے ایسے سازشی منصوبے مرتب کررکھے ہیں جس کا علم صرف ان تینوں کو ہی ہے ۔اگر چہ پاکستان اور بالخصوص امت مسلمہ کو ان کی سازشیں سمجھنے کی ضرورت ہے اوراس کے ساتھ ہی ان کو ایسا سبق سکھایا جائے کہ ان کی آنے والی سات نسلیں بھی جسے یادرکھیں۔