کچھ ایسی ہے کوئے یار کی صبحشاعر
ہو جس سے خجل بہار کی صبح
مکھڑا جو کھلا سحر کو اس کا
گردوں نے وہیں نثار کی صبح
کی زلف سیاہ نے منفعل شام
رخسار نے شرمسار کی صبح
رہتا ہے جہاں وہ یار ہم کو
بھاتی ہے اسی دیار کی صبح
اس گل نے سنی جو بے قراری
میرے دل بے قرار کی صبح
فرمایا کریں گے ہم تسلی اس خستہ دل فگار کی صبح
نظیراکبر آبادی
Bookmarks