وہ خون کر کے امیدوں کا مسکراتے ہیں
یہ لوگ شہر کے کیوں مجھ کو آزماتے ہیں
ڈرا رہے ہیں یہ قبروں کے مجھ کو سائے
یہ زخم کیسے ہیں مجھ کو صدا رلاتے ہیں
میں جب ہنسوں میری پلکیں بھی بھیگ جاتیں ہیں
یہ میرے لب میری آہیں بہت چھپاتے ہیں
کبھی تھا سرخ گلابوں کا موسم میرے آنگن میں
یہ زرد پتے تیری یاد اب دلاتے ہیں
انا کے بت میں سسکتی ھے حسرتوں کی لاش
یہ تیرے وعدے تو پاگل مجھے بناتے ہیں
جلا کے راکھ کریں گے چمن کو اے خانم
جو لوگ آگ کو چنگاڑیاں دکھاتے ہیں
Bookmarks