ململ سا بدن اور داغ کہاں سے لاؤں
مجھے میسر نہیں فراغ کہاں سے لاؤں
ایک جگنو تک تو مٹھی میں نہیں آتا
تم ہی کہوں چراغ کہاں سے لاؤں
وہ چاند میرے اندر کہیں ڈوب گیا ہے
تاریکی میں اپنا سراغ کہاں سے لاؤں
مدت ہوئی ہے میں پارسا ہو گیا ہوں
مے کش نہ رہا ایاغ کہاں سے لاؤں
حوصلہ پرواز کا اب پہلے سا نہیں ہے
کوئی شہپر کوئی زاغ کہاں سے لاؤں
تیرا فلسفہ عشق سمجھنے کے لیے مالک
میں دل سا دماغ کہاں سے لاؤں
Bookmarks