ہم مسافر کہاں منزل کی خبر مانگتے ہیں
ہم تو رستوں سے فقط اِذنِ سفر مانگتے ہیں
اب تو یوں ہے کہ فلک بوس پہاڑوں کے نگر
سانس لینے کے لئے روزنِ در مانگتے ہیں
ہم بھلانا اسے چاہیں تو بھلا بھی نہ سکیں
اب دعاؤں میں بس اتنا سا اثر مانگتے ہیں
کام کو چھوڑ کے ہم نام کے پیچھے ہیں عطا
وہ شجر بوئے نہیں جن کا ثمر مانگتے ہیں
عطاء الحق قاسمی
Bookmarks