Results 1 to 4 of 4

Thread: مغربی و مشرقی حکومتیں ' سیکولر نظام ڈھونگ

  1. #1
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default مغربی و مشرقی حکومتیں ' سیکولر نظام ڈھونگ




    سیکولر نظام مغربی نظام حکومت میں جمہور یت کی بنیاد ہے ۔ گو سیکولر نظام میں مذہب کو سیاست سے الگ کردیا گیا ہے ۔اورسیکولر نظام حکومت ایک خالص سیاسی رویہ ہے ۔ لیکن ایسی حکومت میں فرد کی مذہبی آزادی پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی ' اس کا مطلب مملکت کے شہریوں کے حقوق و فرائض بلا کسی مذہبی امتیاز کے مساو ی سمجھنا ان کے درمیان مذ ہبی و لسانی بنیادوں پر کسی قسم کا امتیاز نہ برتنا ۔ لیکن مغربی سیکولر جمہوری حکومتیں جو بظاہر سیکولرنظام جمہورت کی داعی ہیں ۔ لیکن ان کی نام نہاد جمہوریت کا اس کا اصل چہرہ اور حقیقت کچھ اور ہے ۔؟ مغربی ممالک میں سیکولر نظام حکومت کے باوجود بالخصوص مسلمانوں اور اسلام کے خلاف مذہبی امتیاز اور ان کے متعصبانہ رویے ہیں جو ان کے سیکولر لبرل نظریات کو جھٹلا رہے ہیں ۔آج مغربی جمہوری سیکولر ممالک میں بالخصو ص مسلمانوں کی اسلامی اقدار و شعار کے خلاف ا ن کے میڈیا کی پروپیگنڈا مہم جاری ہے ۔ اور مغربی دنیا اسلامی اقدار اپنے کلچر کے لئے مضر اور اسے کلچر تصادم کا خطرہ قرار دے رہی ہے اور بعض مغربی ممالک نے سرکاری و تعلیمی اداروں میں ہیڈ سکارف پر بھی قانونی قدغنیں لگادیں ہیں ۔یعنی ان ادا ر وں میں خواتین ہیڈ سکارف تک اُوڑھ کر نہیں آسکتیں ۔ مغربی ممالک میں کلچر تصادم کے نام پر اسلام کے خلاف مذہبی تعصب اور نسل پرستی کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔

    ترکی کی مغرب نواز سیکولر نظام حکومت مغرب کے نقش قدم چل رہی ہے۔١٩٨٠ء میں سلیمان ڈیمرل کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر بر سر اقتدار آنیوالی فوجی حکومت جو کمال اتاترک کے ترک نظریات کے راہنما اصولوں کو عقیدہ کا درجہ دینے پر بضد ہیں۔اور ترکی کی سیکولر لادینی فوجی جنتا کی گود میں پروش پانے والی سیاست کے نزدیک ہر مذہبی شعار کو مٹا دینا ہی سیکو لر نظریات کی تقویت کے لئے ضروری ہے۔١٩٩٨ء میں ترکی کی خواتین کا ہیڈ سکارف بھی قانون کی زد میں آگیا ۔ اس قانون کی رُو سے ترک خواتین کے لئے سکارف اُوڑھ کر اعلیٰ تعلیم یونیور سٹی میں داخلہ پر پابندی عائد کردہی گئی ایسی بے جا پابند ی کے ردعمل میں ترکی میں سیکولرازم اور مذہبی عناصر کے مابین گذ شتہ کئی عشروں سے جاری وسیع تر نظریاتی اور سیا سی کشمکش کا محض ایک اظہار ہے کہ بالاخر پارلیمنٹ سے اکثریت کے ووٹ نے اس پابندی کا خاتمہ کروایا ۔ لیکن اگر پارلیمنٹ کے فیصلہ کی صدر توثیق کردیتا ہے تو اٹارنی جنرل اس کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اس فیصلہ کو چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ ان کے خیال میں سکارف اُوڑھنے کا مطلب پردے سے زیادہ نظریاتی ( مذہبی) وابستگی کا اظہار سمجھا جا تا ہے ۔سکارف کے حمایتیوں کا کہنا ہے کہ عورتوں کا سکارف اُوڑھنا ضمیر اور شخصی آزادی کا مسئلہ ہے ۔ اور ریاست سے اس بات کا کوئی تعلق نہیں ۔جبکہ سکارف کے مخالفین کا مو قف یہ ہے کہ یہ ریاست اور مذہبی عقیدے کے علیحدہ رکھنے کا سوال ہے ۔وہ سمجھتے ہیں سکارف اُوڑھنے کی آزادی دینا مذہب کو سیاسی مقصد کے لئے استعمال کرنا ہے ۔

    گویا ان کے بظاہر سیکولر لیکن ان کے نام نہاد نظریات سیکولر نظام اور جمہوریت کے اصولوں اور ضمیر اور شخصی آزادی یعنی فرد کی مذہبی آزادی کے سراسر منافی ہیں۔

    ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کمال اتاترک کے لادینی نظریات ترک سیاست میںراہنما اصو لوں کی بجائے عقیدہ کا درجہ اختیار کر چکے ہیں ۔ جدید ترکی کے سیاسی نظریات جنہیں بعد میں فوجی جنتا نے عقیدہ کا درجہ دے دیا۔ یہ ایسے غیر فطرتی سیاسی نظریات ہیں جنہیں انسانی فطرت دھکے دیتی ہے ۔جبکہ ترکی کی فوجی جنتا کی اشرافیہ نے اپنے جمہوری ملک میں جمہور یت اور انسانی فطرت کے منافی ترکی کے قوانین وضع کئے ہوئے ہیں ۔ان قوانین کے ذریعہ عوام کی ضمیر کی آزادی شخصی و مذہبی آزادی کو چھین کر اسے اپنی جبر کی سیاست کا پابند کر نے کا فیصلہ کیا ہوا ہے ۔گویا ترکی کی اشرافیہ نے فوجی جنتا کی بل بوتا پر ترکی میں جمہوریت کے نام پر آمریت قائم ہوئی ہے ۔ بظاہر یہ کہا جارہا ہے کہ ترکی سیکولر لادینی نظام کو مذہبی انتہا پسندی کے احیاء کا خطرہ ہے حالانکہ ایسا کوئی خطرہ نہیں ۔ دراصل کرپٹ حکمران روشن خیال اشرافیہ کو ان کی غیر جمہوری پالسیوں کو عوامی طاقت سے خطرہ ہے۔ ۔لیکن ترکی کی کر پٹ روشن خیال اشرافیہ جو اپنے مخالفین پر سیکولر ازم نظام کی مخالفت کا الزام مذہبی عناصر کو دے رہی ہے ۔ یہ الزام درست نہیں ہے ۔ حالانکہ حقیقی سیکولر نظام اگر ترکی میں قائم ہوجا ئے تو اس سے ہر فرد کو ضمیر کی آزادی شخصی و عقیدہ کی آزادی حاصل ہوجائے گی پھر ا س نظام سے کسی کو کیا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

    مغربی ممالک میںبالخصوص یورپی ممالک اور ترکی کی مملکت میں اور مشرق میں بھارت نے سیکولر ازم کے نام پر اپنی نسلی برتری اور مذہبی امتیاز کی پالیسی جو ا ختیار کی ہوئی ہے ان سب ممالک میں بالخصوص مسلمانوں شہریوں کی ضمیر کی آزادی ' عقیدہ کی اور شخصی آزادی انکی گندی منافقانہ سیاست کا تختہ مشق بنی ہوئی ہے۔



  2. #2
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default

    جبکہ علم سیاسیات کے ماہرین سیکولرا زم کی جو تشریح کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کسی انسان کا مذہبی عقیدہ یا مذہبی اقدار فرد کا مسئلہ ہے سماج یا ریاست کا نہیں بلکہ سیکولر ایک خالص سیاسی رو یہ ہے ۔گویا سیکولر زم کامطلب مملکت کے شہر یوںکے حقوق و فرائض بلا کسی مذہبی امتیاز کے مساو ی سمجھنااور ان کے درمیان مذہبی و لسانی بنیا د و ں پر کسی قسم کا امتیاز نہ برتنا ۔

    اسلام کی'' لا اکراہ فی الدین'' کی تعلیم کہ دین میں کسی قسم کا جبر روا نہیں رکھا جا سکتا گویا اسلام کی تعلیم بھی سیکولر نظریات کے اس پہلو کی تائید کرتی ہے ۔

    مذہب اور مملکت کا مسئلہ ایک ہمہ گیر آفاقی مسئلہ ہے مگر اس پر کبھی پوری سنجیدگی سے تحقیق نہیں کی گئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فریسوں کو ایک تاریخی جواب دیا تھا جو انجیل میں ان الفاظ میں درج ہے'' تب اس نے کہا کہ جو قیصر کا ہے قیصر کو دو اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو ۔'' ( متی باب ٢٢ آیت ٢١)حضرت عیسٰی کے اس بیان کی رُو سے مذہب اور سیاست کو الگ رکھا جائے اور فرد کی شخصی ' ضمیر کی آزادی عقیدہ کی آزادی پر ریاست کی طرف سے کوئی قدغن نہ لگائی جائے ۔کیونکہ مذہب و سیاست معاشرہ کے دوپہیوں کی طرح ہیںپہیے ہیں چاہیے دو ہوں یا چار یا آٹھ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔جب تک سب کل پر ُ زے اپنی اپنی جگہ پر قائم رہتے ہوئے صحیح سمت حرکت کرتے رہیں تو پھر کسی قسم کا سیکولر نظام یا کسی نظام میں بھی مذہب و سیا ست کے تصادم اور جھگڑے کا سوال پیدا نہ ہوگا ۔

    جہاں تک اسلام کا تعلق ہے اس کی تعلیم'' لا اکراہ فی الدین ''ہے ۔اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل پیرا ہوا جائے تو مذہب و مملکت میں کوئی محاز آرائی نہیں ہے ۔اس کی وجہ یہ کہ اسلام نہ صرف ضمیر کی آزادی عقیدہ کی آزادی بلکہ تحریرو تقریر کی آزادی کا بھی علمبردار ہے بلکہ علاوہ اس کے اسلام ہر حالت میں کامل انصاف بلا امتیاز مذہب و ملت پر سختی سے کا ر بند رہنے کا اٹل اور غیر مبدل اصول پیش فرماتا ہے اسلام کے عدل و انصاف پر مبنی اصولوں کے ماتحت ملکی قانون کے اندر رہتے ہوئے کسی بھی مذہب کے پیرو کار اپنی مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزار سکتا ہے وہ اپنی تمام مذہبی رسوم و عبادات بجا لا سکتا ہے۔ اسلامی حکومت میں کسی قسم کی کوئی مذہبی اقدار پر قدغن لگا ئی نہیں جا سکتی ۔ اسلامی مذہبی رواداری کی تعلیم کا لُب لباب یہ ہے کہ اُمور مملکت کو چلانے کے لئے بنیادی اصول یہ ہے کہ سب کے ساتھ یکساں اور کامل انصاف کرنا ہے ۔اگر اس اصول پر عمل کیا جائے تو ہر ملک کی حکومت ( بیشک وہ بادشاہت ہے یا جمہو ری حکومت یا سیکولر نظام حکومت ہو ) گویا اسلامی حکومت بن جائے گی ۔اور خا ص طور پر'' لا اکراہ فی ا لدین'' یعنی دین کے بارے میں کسی قسم کا جبر نہیں اس اہم حکم کی موجودگی میں مذہب کو اُمور سلطنت اور قانون سازی میں کوئی بالا مقام ( یعنی جس سے دیگر مذاہب کے شہریوں کے حقوق کی حق تلفی ہو )یا بالا اختیار دینے کی ضر ورت نہیں۔کیونکہ قرآن کریم جب حکومت کے موضوع پر بات کرتا ہے تو مسلم غیر مسلم ممالک میں امتیاز نہیں کرتا اور اُمور سلطنت کی بجا آوری کے سلسلہ میں وہ معیار قائم کرتا ہے کہ اس کے اول مخاطب اگرچہ مسلمان ہیں لیکن دراصل مخاطب بنی نوع انسان ہیں ۔

    اسلام عالمی امن کو یقینی بنانے کے لئے دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح سیاست دانوں کو بھی ایک مکمل ضابطہء اخلاق پر کاربند رہنے کی نصیحت کرتا ہے ۔لیکن دور حاضر میں مغربی مما لک 'ترکی یابھارت کی سیکولر نظام حکومت چلانے والے ملک بالخصوص مذہب اسلام کو اور اسلامی اقدار کواپنی سیاست کی بھینٹ چڑھانے کے لئے مستعد نظر آتے ہیں اور کسی ضابطہ اخلاق کی پابندی ضروری نہیں سمجھتے۔ لیکن دور حاضر میں اسلام کے پیش کردہ عدل و انصاف اور مذہبی رواداری کے تقاضے پورے کئے جائیںتو اسلام کی فطرتی تعلیم ہی ساری دنیا کے لئے قابل عمل تعلیم ہے۔ اور آج یورپ نے مذہب کو تیاگ کر مادہ پرستی کو اپنا مذہب تسلیم کیا ہوا ہے۔مذہبی اخلاقی اقدار سے بغاوت کے نتیجہ میں یورپ میں حیاء کی پاسداری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور مادہ پرستی کی وجہ سے جو معاشرہ وجود میں آیا ہے وہ بے حیائی بد کا ر ی پر مبنی جنس ذدہ بیمار معاشرہ ہے ۔یورپ کی پر یشانیوں کا کوئی حل ہے تو وہ اسلا م کے پاس ہے ۔ مثال کے طو ر پراسلامی پردہ فطرتی حیاء پردے کا نظام ہے گویا اسلام نے یہ نظام پیش کرکے ایک معا شرہ سے تمام اخلاقی روحانی بیماریوں کا نکال پھینکنے کا گُر بتایا ۔اور اسلام نے زکوٰة کا جو نظام پیش کیا، وہ بھی بہت ساری معاشرتی بیماریوں کا حل ہے ۔ لیکن اسلام کی تعلیم پر معترض کے علاوہ ان میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اسلام کی تعلیم پر اس لئے اعتراض کرتا ہے کہ وہ مذہب ہی کے خلاف ہے ۔ جیسے ترکی کی لادینی حکومت ہے ۔ اور اہل مغرب تو خدا تعالیٰ کی ذات اور وجود کے ہی وہ لوگ منکر ہیںاور ان کا نظریہ ' یہ ہے کہ خدا کی ذات کا تصور ہی ہے جس نے دنیا میں فساد پیدا کیا ہوا ہے ۔ حالانکہ خدا تعالیٰ اپنے انبیاء کو فساد کو ختم کرنے اور دنیا کے امن کے لئے انہیں بھیجتا رہا ہے ۔ ہر سچا یہوی ' ہر سچا عیسائی ' اور ہر سچا مسلمان امن چاہتا ہے اور یہ ان مذاہب کی الہٰی تعلیمیں سب امن و سلامتی کی علمبردار تھیںاور اسلام کی آفاقی تعلیم دنیا کے لئے امن و سلامتی کا پیغام دیتی ہے ۔

    لیکن ان کی نام نہاد سیکولر جمہوری حکومت اور ان کی اقتصادی سیاسی ٹیکنالوجی کی بالا دستی اور مادہ پرستی نے انکو تمام ضابطہ ہائے اخلاق سے آزاد کیا ہوا ہے ۔ ان کی بے جا اظہار کی بیبا کی نے بالخصوص بانی اسلام ۖ ' اسلام اور اسلام کے تصور خدا کو اپنے تمسخر کے ذریعہ نشانہ بنا یا ہوا ہے ۔ گویا ایسے لوگ خدا کے غضب کو کھلی دعوت دے رہے ہیں ۔ بعض مغربی لیڈر وں کے بیانوں میں توہین آمیز باتیں نظر آتی ہیں ۔اور مختلف اوقات میںاسلام کے اور آنحضرت ۖ کے بارے میں نہایت گھٹیا اور دل آزار باتیں اخباروں میں لکھی جاتیں ہیں ۔ یہ ان کا کیسا سیکولر معا شرہ یا ان کی جمہوری روایات ہیں کہ یہاں اس قدر نسلی و مذہبی تعصب ہے کہ اپنے لئے تو یہ بہت حساس جذ بات رکھتے ہیں۔ اپنے لئے ان کے یہ اصول ہے کہ ہم جو چاہیں کر یں' جس طرح آزادی سے اپنی زندگی گزارنا چاہیں گزاریں۔جس طرح چاہیں جس کو جو کہیں( یعنی دوسروں کے مذہبی جذبات کو بار بار ٹھیس پہنچائیں ہم پر کوئی قدغن نہیں ) اپنے لباس کا معاملہ آتا ہے تو جیسے چاہیں کپڑے پہنیں یا نہ پہنیں ' بازاروں میں ننگے پھریں ۔لیکن ایک مسلمان عورت خوشی سے سر ڈھانک لے ' اسکارف باند ھ لے تو ان کو اعتراض ہونا شروع ہو جاتا ۔ مغربی ممالک میں با پردہ خواتین کے پردہ کے خلاف کلچر تصادم کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔

    اور یہ کہنا بالکل جائیز ہے کہ ان کا لا دینی سماج ( جو لبرل جمہوری قدار و لبرل سماج کا دعویدار ہے ) تنگ نظری کی نذر ہو چکا ہے ۔ ان کو جس تہذیب پر ناز ہے ۔گویایہ مہذب قومیں ہر قسم کی بد تہذ یبیو ں کو روا رکھے ہوئے ہیںاور خود کو ا خلاقی ضا بطو ں قاعدے قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں ۔

    پس ہمارے دانشوروںکے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے میڈیا بالخصو ص مغربی میڈیا پر مئوثر آواز اُٹھا کر ان کی تہذیب کی بد تہذیبوں کو بے نقاب کریں۔ اہل مغرب کے لوگوں کو اسلام کی حقیقی تعلیم سے روشناس کروایا جائے اور دنیا کی مہذب سوسا ئیٹی پر اسلام کی حسین تعلیم کا روشن چہرہ اور اور اسلام کی ضمیر کی دی گئی آزادی اور ان کی نام نہاد اظہار آزادی کا دنیا کے سامنے تجزیہ کو پیش کیا جائے ۔

    ا سلام نے آزادی ضمیر و تقریر کی آزاد ی کے باوجو تہذیبی اخلاقی پابندیوں سے کسی کو آزاد نہیں کیا۔لیکن مغربی میڈیا کی پروپیگنڈا ٹیم کو اسلام کی عدل و انصاف پر مبنی امن و سلامتی و مذہبی روادای کی تعلیم کے خلاف زہر اُگلتے کوئی شرم نہیں ' کوئی اخلاقی اقدار یا کسی ضابطہء اخلاق کا ان کو پاسداری کا خیال تک نہیں ۔

    دراصل مغربی اکابرین کو صاف نظر ہے کہ اسلام کی فطرتی تعلیم دلوں پر اثر انداز ہورہی ہے ۔ اہل مغرب اسلام کی مقبولیت سے خوف ذ دہ ہیں ۔یہ اسلام کے حسین اور روشن چہرہ کو اپنے لوگوں سے چھپانے کے لئے میڈیا پروپیگنڈا کے ذریعہ اسلام کو جبر دہشت گردی کا بھیانک الزام دے رہے ہیں۔گویا اپنے اس اقدام سے وہ اپنے اعوام کو اسلام کی حقیقت سے دور رکھنا چا ہتے ہیں ۔

  3. #3
    amazing_me is offline Junior Member
    Last Online
    12th July 2010 @ 07:32 PM
    Join Date
    12 Jul 2010
    Posts
    11
    Threads
    1
    Credits
    230
    Thanked
    0

    Default

    thanx for sharing

  4. #4
    lusi08 is offline Junior Member
    Last Online
    7th October 2021 @ 03:42 AM
    Join Date
    10 May 2011
    Age
    35
    Gender
    Male
    Posts
    25
    Threads
    0
    Credits
    1,311
    Thanked
    0

    Default

    Veeeeery verry verry nice sharing

Similar Threads

  1. Replies: 28
    Last Post: 13th February 2023, 11:01 AM
  2. Replies: 13
    Last Post: 12th September 2022, 09:35 PM
  3. Replies: 6
    Last Post: 21st May 2021, 08:28 AM
  4. Replies: 15
    Last Post: 18th March 2017, 09:01 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •