ْشیطان نے قیامت تک لوگوں کو گمراہ کرنے کی اجازت لی ہوئی ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو میرے ( مومن خاص ) بندے ہوں گے ان پر تیرا غلبہ نہیں ہوسکے گا ۔یعنی وہ تیرے قابو میں یا تیرے بہکاوے میں نہیں آسکیں گے ۔ازل سے ابد تک انسان اور شیطان کی جنگ جاری ہے اور جاری رہے گی ۔شیطان مختلف کرداروں سے خدا کی مخلوق کو آزما تا اور بہکاتا رہے گا ۔ہر زمانے میں اس کے نئے نئے ہتھیار اور ہتھکنڈے ہوتے ہیں۔کبھی وہ ناچ گانے کے روپ میں بہکاتا ہے تو کبھی بد رسوم و رواج کے ذریعہ آزماتا ہے کبھی فلموں اور تھیٹروں کے ذریعہ کبھی ٹی وی 'کیبل کے ذریعہ کبھی انٹر نیٹ پر نئے نئے فیشن کے ذریعہ خدا کی مخلوق کو سبز باغ دکھا کر گمراہ کرتا رہتاہے۔ ا ور انہیں گمراہ کرکے خدا اور رسول کی پسند یدہ راہوں سے دور لے جاتا ہے ۔

فیشن پرستی میں مبتلا اندھا دھند ہر لغو فیشن کی تقلید سے انسان دراصل اتباع رسم فیشن و متابعت ہوا ہوس کابندہ بن جاتا ہے اور اسلامی تمدن اور دین سے دورہو کر وہ شیطان کی اتباع کر رہا ہوتا ہے ۔دین بگڑتا ہی فیشن پرستی اور بدرسوم ہے ۔فرمایا اے مومنو ! فرمانبرداری کے دائرہ میں سب کے سب داخل ہو جائو اور شیطان کے قدم بہ قدم نہ چلو ( کہ) یقیناََ شیطان تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے ۔( بقرہ :٢٠٩) اتباع رسم متابعت ہوا و ہوس کیا ہے ۔فیشن پرستی اور اس کی اندھا دھند تقلید یہ نفسانی اغراض سے جنم لیتی ہے ۔جب کوئی نیا ( بالخصوص لباس) فیشن آتا ہے ۔ایسا لباس جس میں عورتوں کے جسمانی خطوط کی زینتوں کی نمائش مقصود ہوتی ہے ۔ایسے فیشن کی اندھا دھند تقلید شروع ہوجاتی ہے تو دیکھتے ہی دیکھتے گویاسارا معا شر ہ نفس پرستی کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ بالخصوص بعض فیشن کی رسیا عورتیں جب حیاء سے عاری لباس میں نظر آتیں ہیںتو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا( فیشن پرستی کی انتہا نے ) شرم و حیا کے تمام پردے چاک کردئے ہیں ۔فیشن کی بہت سی اقسام ہی بعض تو وہ ہیں جو مردوں سے متعلق ہیں اور بعض عورتوں سے ۔اور بعض اقسام دونوں میں مشترک ہیں ۔ آجکل ایک یہ فیشن چل نکلا ہے کہ مرد اور عورتیں ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔بالخصوص سکول کالج میں جانے والی بعض لڑکیا ںجین پتلون میں ملبوس نظر آئیں گی۔ آنحضرت ۖ نے فرمایا '' اللہ تعالیٰ نے ان مردوں پر لعنت کی ہے جو عورتوں سے مشابہت کرتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو مردوں سے مشابہت کرتی ہیں (بخاری ) اسی طرح ایک دوسری حدیث میں آنحضرت ۖ نے اندھا دھند تقلید کے بارے میں فرمایاکہ جو بھی کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ ان میں سے ہے۔( یعنی ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ) '' (ابو دائود ) حدیث میں تشبہ بقوم یعنی ( بُرے کاموں میں کسی قوم کی نقالی کرنا آج کے دور میں مسلمان کا شعار بن کہ رہ گیا ہے ) پس یہ وہ زمانہ ہے جس میں عیسا ئیت نے اگر دلوں کو کافر نہیں بنایا تو انسانی چہروں کو ضرور کافر بنادیا ہے اور بہت سے مغربی تہذیب کی دلداہ نوجون اور نوجوان لڑکیاں اپنے سروں کے بال ' اپنی داڑھیوں اور اپنے لباس میں مغرب کی نقل کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔کبھی ان کے طور طریق اور ظاہری شکل عیسائیوں سے ملتی ہے اور اسی طرح ہندو کلچر کی دلداہ لڑکے لڑکیوں کے لباس اور رسم و رواج( جو سالگرہ منگنی شادی بیاہ کی تقریب میںنظر آتا ہے ) کی ایسی سب تقریبات یہ مغربی کلچر یا ہندو انہ کلچر کی عکاس ہیں۔ مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ مغربی کلچر یا ہندوانہ کلچر کی اندھا دھن تقلید کرے ۔بالخصوص پاکستانی قوم نے ہندو کلچر کی اتباع میں نسلوں کی تباہی کے بہت خطرناک اقدام کئے ہیں گویا ان کے ہاں اسلامی تمدن کا قبلہ ٹیڑھا ہو کر رہ گیا ہے ۔دن رات ہندوستانی فلموں میں مگن رہتے ہیں ۔ان کی اولادوں کی شکلیں بدل گئی ہیں ۔ انڈین فلم بینی کے بداثرات کے نتیجہ میں ان کے روزمرہ کے طرز کلام میں فرق پڑ گیا ہے ۔ان کے ہاں ہیرو کا تصور ہی بدل گیا ہے۔ہندوستانی فلموں کی پرستش کرنے کے نتیجہ میں پاکستان میں ہندوانہ لباس ہندوانہ کلچر اور انڈین ایکٹر ایکٹرسوں کی پرستش جاری ہے ۔ گویاہندو کلچر کی گندگی بے حیائی اور بے غیرتی بالخصوص یہ نئی نسل کا طرہ امتیاز ہے اور نہ عبادت کی ہوش نہ کسی اعلیٰ مقصد کی ،یہاں تک کہ لوگ (جنسی فلمی لغویات لٹریچر کا شغل فرما رہے ہیں ) اس وجہ سے انڈین فلموں کے رسیا اب اعلیٰ درجہ کے لٹریچر سے بالکل بے بہرہ ہو کے رہ گئے ہیں۔

دور جدید کے ایجاد کردہ فیشن میں بے حیائی کا عنصر نمایاں ہے ۔لیکن اسلامی تمدن میں بالخصوص عورت کے ملبوسات میں بعض احتیاطیں اس کی عفت عصمت کی پاکیزگی اور حفاظت کیلئے ضروری ہیں۔اسلام نے عورت کے محتاط با حیا لباس کی حکمت بھی بیان فرمائی ہے ۔عورت میں خدا تعالیٰ نے ایک ایسی کشش رکھی ہے جس کی وجہ اس کو غیر محرم کے سامنے بے حجاب لباس میں آنے کی قدغن لگائی گئی ہے۔ کیونکہ بے حجاب لباس ( جنسی خطوط کو نمایاں کرنے والا ) جنسی کشش کا باعث ہے ۔ اور مردوں کے جذ بات کی انگیخت کا باعث بن کر انہیں فتنہ میں مبتلا کرسکتا ہے ۔بدقسمتی سے فیشن کی دلدادہ بے حجاب عورتوں کی اکثریت میں اپنے حسن کو برسر عام نمایاں کرنے کا یہ میلان پایا جاتا ہے کہ ان کا لباس ان کی زینتو ں کے چھپانے کے لئے نہیں بلکہ اسے نمایاں کرکے غیروں کو دکھانے کے لئے لباس پہنا جاتا ہے ۔جب طبیعت کی اُفتاد ایسی ہو تو انسان لباس سے محروم ہونے لگتا ہے ۔اگر فیشن پرستی کا تقاضہ ہے کہ لباس اس لئے پہنا جائے کہ دیکھنے والے اسے سراہیںیعنی عورت کو اس کی داد ملے ۔ تو ایسی صورت میں لباس کا مقصد جسم کے خطوط کو نمایاں کرنا جنس مخالف کی فقط توجہ حاصل کرنا ہے ۔ گویا ان کا لباس عورت کے حیا کے جوہر کو بے حیائی میں تبدیل کرنے کا موجب ہے ۔قرآن کریم میں جس لباس تقویٰ کو اختیار کرنا ضروری قرار دیا گیا ( جو خدا خوفی خدا سے تعلق سے ) حیا ایمان کی پاسداری کا لباس ہے ۔لیکن جس لباس کی تراش میں ہی جنسی خطوط کی نمائش مقصود ہو۔ایسے حیا سے عاری لباس ،تقویٰ کے ہر حسین روحا نی نقش اور ہر دلکش اخلاقی رنگ سے عاری لباس ہوگا ۔اسلام غیر محرم کے سامنے بے حجاب حسن کی نمائش اجازت نہیں دیتا ۔لیکن فیشن میں بس ایسے ایسے ایسے عریاں لباس سل رہے ہو تے ہیںکہ گویا ایسے ملبوسات فیشن کی تقلید میں حیا کے پردے چاک کر دینے مترادف ہیں۔ان میں پہننے والیوں کے ننگ ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن جدید ایجاد کردہ فیشن کی دوڑ میں فیشن کی دلداہ خواتین حیا اور ایمان کو غارت کرنے والے لباس فخریہ طور پر پہن کر اپنی روشن خیالی کا ثبوت دیتی ہیں ۔

پس اسلام ایسے حیا سے عاری فیشن جس میں جسمانی اعضاء کی نمائش مقصد ہو اس کی مذمت کرتا ہے کہ اپنی حیا اور اپنے ایمان کو پس پشت ڈال کر فقط اپنے نفس کی تسکین اور مردوں کی ستا ئش کی خاطر ایسا لباس زیب تن کیا جائے۔ اسلام بر سر عام جسمانی حسن کی نمائش کی اجازت دیتا۔ اس سے کئی قسم کی بدیاں پیدا ہوتی ہیں ۔کیونکہ خصوصاََ عورت کا بے حجاب لباس اور اس کے پُرکشش حسن دلربا کی نمائش معاشرہ میں بے راہ روی میں فروغ کا ذریعہ ہے ۔

لیکن جو لوگ جدید فیشن کے ملبوسات کے پہناوے کو روشن خیالی کا نام دے رہے ہیں وہ اس کے ساتھ اسلامی تمدن کو حقیر جان کر پردہ کو فرسودگی کی علامت سمجھتے ہیں تو پھر ان کی بے حجاب نسل ہر قدم بے حیائی کی طرف اُٹھاتی چلی جاتی ہے ۔ بے پردگی بھی کئی قسم کی ہوتی ہے ۔چہرے کی بے پردگی' جسم اور کی اعضاء کی اسی طرح مکس پارٹیاں جہاں مرد عورت اکٹھے ہوں یا سکولوں کالجوں میں اکٹھی تعلیم وغیرہ وغیرہ۔یہ سب کچھ روشن خیالی کے نام پرنئی نسل اپنے لئے جائیز سمجھتی ہے۔

اس قسم کی مخلوط مجلسیں مرد عورت کی آزادی فسق وفجور کی جڑ ہیں ۔جن ممالک میں ایسی آزادی کو روا رکھا گیاہے، ذرا ان کی آزادی بے حجابی پے پردگی کا جائزہ لیا جائے اور ان کی عفت پاکدامنی پر جو داغ لگ رہے ہیں اُن سے عبرت حاصل کی جائے