Results 1 to 3 of 3

Thread: دولت امیر کا' اور افلاس غریب کامقدر؟

  1. #1
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default دولت امیر کا' اور افلاس غریب کامقدر؟

    اس کارخانہ عالم کو چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے امارت و غربت کو اس لئے بانٹا ہے کہ امیر و غریب ہردو ایک دوسرے کے محتاج رہیں۔یعنی امیر غریب کی محنت کا محتاج رہے اور غریب امیر کے پیسوں کا ' اس طرح ہر دو مل کر دنیا کے کاروبار چلائیں ۔لیکن اللہ تعالیٰ کے حضور نہ امیر صرف اپنی امارت کے باعث مقبول ہے اور نہ غریب اپنی غربت کے باعث مردود ۔

    اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوق بنایا ہے اور یہ شرف اپنی ذات میں بڑا ہے لیکن کسی کو یہ حق حاصل نہیںکہ وہ محروم و غریب طبقہ کی شرف انسانیت کی بنیادوں پر اپنی سرمایہ کاری کی عمارت تعمیر کرے ۔ اور غریب کو اس کی محنت کے صلہ سے اور اسے اس کے بنیادی حقوق اور بنیادی ضرورتوں تک سے محروم کردے ۔ پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ دار کی غارت گری اور غریبوں کا ہر سطح پر استحصال کا سلسلہ جاری ہے اور ملک میں منظم اور مربوط سودی نظام تیزی سے فروغ پا رہا ہے ۔ اس نظام نے ہمیںبُری طرح جکڑ رکھا ہے ۔

    غارت گر ' دولت مند گروہ غریب کی مجبوری کا فائدہ اُٹھا کر انسانی محنت کے تمام فوائد کو اپنی ذات تک محدود رکھے ہوئے ہے گویا غریب کا خون نچوڑ نچوڑ پرا پنی جائیز ناجائیز کمائی گئی دولت کے انبار لگا رہا ہے ۔ گویادولت کے انبار ہی اکٹھے کرنا اس نے اپنی زندگی کا مقصد قرار دیا ہوا ہے۔حرام کی کمائی وشراب ' عورت ' عیش وعشرت دولت کی نمودو نمائش ، جیسی لغویا ت دولت مند طبقہ کو بہت عزیز ہیں ۔

    لیکن اس کے مقابل عوام کی غالب اکثریت غربت کی نچلی سطح پہ ہے۔ ہوشربا مہنگائی کی وجہ سے انہیں اپنی زندگی کے سانس بچانے کی فکر ہے ۔لیکن دولت مند غریب کی محرومی بدحا لی اور فاقہ کشی کو غریب کا مقدر سمجھ کو ہوا ہے ۔حالانکہ فاقہ کشی بد حالی اور قسم قسم کی محرومیاں اور خودکشیاں غریب کا مقدر نہیں بلکہ یہ سرمایادار کی ظلم زیادتی ہے اور یہ سب کچھ امیر کی نفس پرستی خود غرضی اور سر مایہ دارانہ نظام کا کیا دھرا ہے ۔جس نے غربت افلاس کی زندگی کو غریب کا مقدر بنا کے رکھ دیا ہے۔

    تمام مفکرین اور دانشوروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ معاشرے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بنیادی وجہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے ۔جہاں بھی امیر غریب میں بہت زیادہ فرق بڑھے گاوہاں ایسے پسماندہ طبقہ میں قسم قسم کی محرومیاں جنم لیں گی اور ایسے پسماندہ معاشرہ میں بھو ک افلاس جہالتوں کے سائے گہرے ہوتے چلے جائیں گے اور تشدد عدم رواداری کو فروغ حاصل ہوگا ۔ پسماندہ ممالک میں انسان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں نمایاں طور پر نظر آتی ہیں۔ لاطینی امریکہ یا افریقہ یا سائوتھ ایشیا جیسے ممالک کو ہی دیکھ لیں۔یہاں ملکی غیر ملکی سرمایہ کاری نے اور وہاں مغربی ممالک اور امریکہ کی سیاسی و اقتصادی ریشہ دوانیوں نے ان ملکوں کا اور ان کے عوام کا بدترین استحصال کیا ہوا ہے۔ اوران ملکوں کے وسائل کو ملکی غیر ملکی طاقتو ں نے لُوٹا ہے ۔اور اپنے مفادات کے لئے یہاں کے امیر کلاس کو ہر قسم کی بد عنوانیوں کی کھلی اجازت دے دی گئی ۔
    پاکستان میں بھی سیاسی لیڈروںو ڈیروں جاگیر داروں سرمایہ داروں اور امیر کلاس کے لوگوں کے لئے بدعنوانیوں کے وسیع میدان ہیں ۔ اور ہمارے لیڈر جو قدامت پسند مفلوک حال غریبوں کے بڑے ہمدرد ہیں غریبوں کی جھونپڑیوں کے بالمقابل ان کی ڈیفنس سوسائیٹی اور گلبرگ کی بلند وبالا عالیشان کوٹھیاں نظر آرہی ہیں یعنی دونوں کے درمیان غریب امیر کا فرق زمین آسمان کا فرق نظر آرہا ہے ۔ گویا ہمارے لیڈر بھی جو اونچی آبادیوں کے بنگلوں میں بستے ہیں جن کے کروڑ ہا روپے سوئٹرز لینڈ کے بنکوں میں ہیں خالص یہو د ی بنکوں میں۔ایسے لیڈر عوامی پارٹیاں قائم کرتے ہیں اور ان عوامی پارٹیوں کے سربراہ ہیں۔یہ ملکی دولت کو ایسی فنکاری سے ہڑپ کر جاتے ہیں کہ حرام مال کا دانتوں پر کوئی نشان تک نہیں چھوڑتے ۔

    پس دولت کو لوٹ کھسوٹ کرنے والوں سے ملک کو بچایا جائے گا اور جب تک ملک میں دولت کی تقسیم کو منصفانہ نہیں بنایا جاتا ۔ تو ایسی صورت میںا نسانی بنیادی حقوق سیاسی جماعتوں کے منشور تک محدود ہو کر رہ جائیں گے' اورعوام کی بنیادی حقوق و اس کی بنیادی ضرورتیں قصہ پارینہ ہی رہیں گی ۔

    پس اگر پاکستان نے بھی اپنی معاشیات کو درست کرنا ہے تو معاشرے میں بڑھتے ہوئے کالے دھن امیر غریب میں مسلسل بڑھتے ہوئے فرق کو ختم کرنا ہوگا ۔ہمارے ملک میں جاگیر داروں ' دولت مندوں سیاسی مذہبی لیڈران کا ناجائیز حصول سرمایہ پر اتحاد ہے ۔فراڈ ہمارے معاشرہ کا خاص امتیاز بن گیا ہے ۔اس طرح فراڈ گزیدہ کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی ۔فنانس کارپوریشنوں نے عوام کو دونوں ہا تھوں سے لُوٹا ہے۔۔اُن کا مکمل احتساب نہ ہوا ۔اسی طرح ریکروٹنگ ایجنسیوں نے لوگوں کو باہر بھجوانے کے نام پر لوٹا ۔اس کا بھی کوئی مداوا نہیں ۔شیئر سٹاک مارکیٹ کریش ہوئی ۔تو اس کا بھی کوئی محاسبہ نہیں ہوا ۔ہائوسنگ سوسائیٹی فراڈ کر رہی ہیں ۔ان کا کوئی احتساب ہوتا نظر نہیں آرہاہے ۔گویا ہمارے معاشرہ میں فراڈ پنپتا ہے ۔اور ہماری قوم کے افراد ایک دوسرے سے بڑھ کر قدم مار رہے ہیں۔

    لیکن لوٹ مار کے بالادست معاشرہ میں بھوک افلاس ' ہلاکت انگیز مہنگائی کی تیز رفتار ایسی چکی چلی ہوئی ہے۔جس کی زد میںملک کے کروڑوں عوام ہیں گویا عوام ہی ہیں جوہوشربا مہنگائی کی چکی میں بُری طرح پس رہے ہیں ۔ لیکن ہمارا ایک مذہبی ٹولہ غربت افلاس کو دولت کی غلط تقسیم کا نتیجہ قرار دینے کی بجائے غریب کا اسے مقدر قرار دے کرگویا جاگیردارانہ نظام کی پشت پناہی کررہا ہے ۔ اور غریبوں کو باور کروا رہا ہے کہ غربت افلاس غریب کا مقدر ہے ' مقدر تو الہی حکم ہے اس کے سامنے گویا کسی کی چل نہیں سکتی ہے ۔ ؟ یہی وجہ ہے کہ مذہبی لیڈران بالخصوص اسلام کے نام پر اور زیادہ سے زیادہ سیاسی حقوق اور میڈیا اور عدلیہ کی آزادی کے نام پر ان سب کے احتجاج سڑکوں پر نظرآتے ہیں۔لیکن بالخصوص انہیں فاقہ مست کروڑوں افراد اور ان کے جگر گوشے نطر نہین آتے 'جو انتہائی غربت افلاس محرومی فاقوںکی حالت سی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔ ان کے بنیادی حقوق کے لئے انہوں نے کسی بھی دور میں کوئی موثر آواز اُٹھانے کی زحمت گوارا نہیں۔

    ایک ممتا کی بے بسی کے الفاظ ہیں ۔جس نے ایک روز اپنی غربت اور ہوشربا مہنگائی سے لڑ تے لڑتے آخر کار ہتھیار ڈالتے ہوئے اپنے بچوں سمیت چلتی ٹرین کے سامنے کود جا نے کو اپنی تکلیفوں اور دکھوں کا علاج سمجھا ۔ایک اطلاع کے مطابق بشریٰ کا شوہر ویلڈنگ کا کام کرتا ہے ۔اس کی آمدنی قلیل تھی ۔اس کے گھر کے بنیادی اخراجات پورے نہیں ہوتے تھے ۔اکثر اوقات بچوں کو بھوکا سونا پڑتا تھا۔خاتون بچوں کو بھوکا اور دودھ سے محروم دیکھ کر خود بھی خون کے آنسو بہاتی اور کبھی کبھار اس کا شوہر سے جھگڑا بھی ہوتا ۔بالاخر اس نے اپنی دکھوں محرومیاں کا علاج بچوں سمیت خود کشی کو قرار دیا ۔پاکستان میں اکثر خاندان گھرانے غربت افلاس ہوشربا ہلاکت انگیز مہنگائی کی زد میں ہیں۔( غربت افلاس کی زندگی کو ان کا مقدر قرار دیا جاتا ہے ) جن کے بعض افراد خانہ ہوشربا مہنگائی سے لڑتے لڑتے ہتھیار پھینک دیتے ہیں اور دل برداشتہ ہو کر خودکشی کی موت کو گلے لگا رہیں ۔پاکستان میں ایسے بے بس محروم د ل برداشتہ خود کشی کرنے والے افراد کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔

    پاکستان میں ملک کی دولت لوٹ کھسوٹ کرنے والا ایک مخصوص حکمران ٹولہ ہے ۔ اس نے قومی دولت سے اپنے لئے مہنگے ترین سیکر ٹریٹ بنوانا ضروری سمجھا مگر عوام کو ان کی بنیادی ضرویات فراہم کرنے کی کوئی منصوبہ بندی نہ کی ۔اور یہی حکمران جماعت کے جو سرکاری اہل کار تھے جو مہنگائی کو کنٹرل کرنے اور بلیک مارکیٹ کو روکنے کے نام پر سرکاری مراعات حاصل کرتے رہے ۔مگر انہوں نے اپنے دور میں یہ معلوم کرنے کی ذحمت گوارا نہیں کی کہ بازاروں میںاشیاء کس بھائو فروخت ہو رہی ہیں۔یہ رپورٹ سب اچھا کی بنا کر حکام بالا کو حقائق سے بے خبر رکھتے تھے ۔اور خود حکام بالا زمینی حقائق کے برعکس قوم کو یہ نوید دیتے رہے ہیں کہ ہماری اقتصادی حالت کا گراف ماضی کی حکومتوں سے بلند تر ہے ۔وہ حکمران گروہ جو سرکاری خزانہ چھل مارنے کی رٹ لگاتا رہا ۔اس کے دور میں بھی عوام اشیاء ضرورت مہنگے داموں خریدنے پر مجبور تھے ۔اور اس طالع آزما گروہ کی آواز صدر مشرف کے اعلانات فرمان کے ذریعہ پاکستان اور ساری دنیا میں نشر ہو رہی تھی کہ عام شہری کا معیار زندگی بلند ہو رہا ہے ( گویا وہ عام شہری کی معیار زندگی کی یہ دلیل دے رہے تھے ) ملک میں اتنے A.c یونٹ لگ گئے ہیں ۔۔َ اور اتنے زیادہ افراد موبائل فون کی سہولت سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں ۔یا ملک میں اتنی زیادہ موٹر سائیکل فروخت ہو رہی ہیں۔لیکن بنکوں سے سودی قرضہ سے حاصل کی گئیں اشیاء عوام کا پیٹ نہیں بھر سکیں۔اور جب بنکوں کے قرضے کی وصولی کے مطالبے کے قانونی نوٹس جاری ہوئے تو ایسے گھروں کا ہوشربا مہنگائی نے پہلے ہی ان کا سکون غارت کیا ہوا تھا ۔ لیکن دوسری اُفتاد ان پر بنکوں کے قرضے کی واپسی کی پڑی ۔ اور بنکوں کے کارندوں(کے ہمراہ بدمعاش سرغنہ) کے دبائو سے ان کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ۔جسکی وجہ سے بھی خود کشیوں کے جاری سلسلہ میں تیزی آگئی ۔

    پس تیسری دنیا کے اور پاکستان کے بے تدبیر لیڈران نے اپنے وسائیل مسائیل کو گہری نظر سے سمجھنے کی بجائے وائٹ ہائوس کے سرمایہ دارانہ نظام پر تکیہ کیا ہوا ہے ۔قرضوں کے حصول پر زور دیا ہوا ہے۔لیکن غیر ملکی قرضوں پر چلنے والی ملکی معیشت اقتصادی بہتری کی بجائے سخت ترین اقتصادی بد حالی کا شکار ہے ۔افسوس ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے والے زعماء لیڈران ہر اقتصادی و عدل و انصاف عدلیہ جیسے مسائل کو عبوری اور وقتی سمجھتے رہے ہیں اور ان مسائیل کو دفع وقتی کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے اسے دائمی طور پر حل کردیا ہے ۔جسے وہ حل سمجھتے ہیں وہ حل نہیں ہوتا بلکہ ان بے تدبیر زعماء کی اپروچ ہی غلط ہوتی ہے ۔گویا ان کی غیر فطرتی غیر قدرتی غلط اپروچ کے نتیجہ میں ملک اقتصادی بدحالی اور عدلیہ بحالی کے بحرانوں کی زد میں ہے ۔اور اگر ہمارے صدر مشرف اور ان کی ٹیم کے اپنے پیدا کردہ اور موجود ہ سیاسی زعماء کے پیدا کردہ بھی بحران ہیںپس ان سب بحرانوں سے ملک کو ان سیاسی زعماء نے بچانا ہے اور اگر خدانخواستہ یہ پاکستان کو ان بحر ا نوں سے بچانے میں کامیاب نہ ہوئے تو عوامی بغاوت سے جو بدترین انقلاب رونما ہوگا۔گویا ایسی صور حال سے غیرملکی طاقتوں کو پاکستان کے سرحد و بلوچستان کے عوام کو مزید تقسیم کرنے کے مواقع میسر آئیں آجائیں گے ۔ایسی صور تحال سے ملک کی سلامتی سا لمیت اور اس کی بقاء کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتاہے

  2. #2
    Asfand4U is offline Advance Member
    Last Online
    22nd May 2022 @ 02:27 AM
    Join Date
    20 Aug 2014
    Location
    DG Khan
    Gender
    Male
    Posts
    5,003
    Threads
    540
    Credits
    6,404
    Thanked
    313

    Default

    Nyc post mery tu dill par lagy yh bataiy

  3. #3
    Join Date
    29 Jul 2018
    Age
    35
    Gender
    Male
    Posts
    52
    Threads
    2
    Credits
    939
    Thanked
    0

    Default

    یہ آگاہی ہمارے ساتھ شئیر کرنے کا بہت شکریہ

Similar Threads

  1. Replies: 2
    Last Post: 29th July 2018, 05:48 PM
  2. Replies: 2
    Last Post: 28th September 2017, 12:32 AM
  3. Replies: 6
    Last Post: 24th September 2013, 07:38 AM
  4. Replies: 25
    Last Post: 15th February 2011, 06:09 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •