Results 1 to 3 of 3

Thread: مغربی کلچر و تہوار ۔Valentines

  1. #1
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default مغربی کلچر و تہوار ۔Valentines

    خدا سے دوری بلکہ اس کے خلاف بغاوت کے نتیجہ میں ۔انسان خالق مالک اور نظم وضبط دینے والی ہستی کے سائے سے محروم ہوجاتا ہے تو اسے زندہ رہنے کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ۔خدا نہ ہو 'تو ہر شے مفہوم سے عاری ہو جاتی ہے ۔آورش کے جواز ختم ہو جاتے ہیں۔کاوشیں بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اورا نسان روحانی طور جلاوطن اور تنہا ہوجاتا ہے ۔ مادہ پرستی کی وجہ سے انسان میں روحانی خلاء پیدا ہونے سے مغر بی انسان کی تہذیب نے روح کے خلاء یعنی اس کی تنہائی دور کرنے لئے مختلف تہوار تجویز کئے ہیں۔ جیسے سالگرہ ۔یوم ویلنٹا ئن ۔ Valentines day وغیرہ مشرق میں بھی ہرکام میں مغرب کی تقلید نے مغربی تہواروں نے ہماری معاشرت میں مستقل جگہ بنا لی۔بالخصوص سالگرہ کوتو تولازم ملز و م قراردیا گیا ہے ۔ امیر کی تو گویا ہر دن عید ہے۔لیکن غریب پر ان تہوار منانے کی ایسی اُفتاد پڑی ہے کہ سالگرہ تو اس کے لئے زندگی موت کا مسئلہ بن کر رہ گئی ہے۔گویا سالگرہ کے بغیر غریب کی زندگی کا سفر رُک جائے گا اور غریب کی زندگی بے معنی ہوکر رہ جائے گی ۔ اور اس کا مستقبل تاریک ہو کر رہ جائے گا۔ پاکستان میںیوم وَیلَنٹائن( Valentine sday ) کے ذریعہ پاکستانی نئی نسل کے دل و دماغ میں بوائے و گرل فرینڈ کی ضرورت کو اُجاگر کیا جارہا ہے ۔ گویا Valtines day کے حوالے سے لڑکی لڑکا دونوں کے درمیا ن محبت بھرے مراسم قائم ہونے ضروری ہیں۔ گویا پاکستان میں نئی نسل کے دل ودماغ میں بوائے و گرل فرینڈ سے اظہار محبت کی ضرورت کو راسخ کیا جا رہا ہے۔ گویا Valetines کے ذریعہ نئی نسل کے لئے ایسا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے کہ نوجوان لڑے لڑکیاں کھل کر محبت کا کھیل کھیل سکیں ۔ حالانکہ مشرق کی تہذیب اور عورت کی فطرتی حیاء کب اس مغربی تہوار کے حوالے سے اجازت دیتی ہے کہ لڑکا لڑکی حیاء کے پردے چاک کرکے محبت کے نام پر معاشرہ میں فحاشت کی اشاعت کریں ۔

    مغربی تہذیب نے عورت مرد کے درمیان محبت کو فقط جنسی اغراض تک محدود کیا ہوا ہے ۔ مغرب میں جنسی محبت کے حوالے سے عورت و دولت کی سب سے زیادہ پرستش جاری ہے ۔ جنسی محبت کے علمبردار فرائیڈ ( مغربی فلسفی) کے تصورات کو ہوا دی جارہی ہے کہ بقول اس کے کہ جنس سر میں سما جا ئے تو محبت جنم لیتی ہے ۔اور اس کے نزدیک جنسی جذبوں کا صحت مند اظہار ممکن نہ رہے تو ان کا بگاڑ محبت کی صورت میں بہہ نکلتا ہے ۔لیکن بیشک فرائیڈ کا نظریہ کی انسان فطرت تائید نہیں کرتی۔کیونکہ محبت دو افراد کے مابین جنسی ربط کا عنوان نہیں یہ ان کے درمیان وجود کی ہر سطح پر وحدت 'یکجہتی اور مکمل ترین رشتہ سے عبارت ہے ۔محبت فقط جنس پرستی یعنی حسن پرستی نہیں۔پس یہ جذبہ محبت اگر جنس یا اُلفت پرستی تک محدود ہو کر رہ جائے تو محبت ہوس پرستی کا رنگ اختیار کرجاتی ہے ۔ایسے انسان پر محبت کے اسرار کیونکر کھل سکیں گے ۔ اہل مغرب کے ایک بہت بڑے طبقہ میں شادی بے روح لغو رسم بن چکی ہے ۔ازواجی مسرتیں خواب و خیال ہوگئی ہیں۔زندگی کا حسن ویران ہوچکا ہے ۔فرد تنہا ہے ۔پس یوں زندگی کا کھوکھلا پن کیوں دور ہو؟۔بنجر تنہائی کا کیسے سدباب ہو ۔گویا تنہائی کے سدباب اور اپنی زندگی میں رنگ بھرنے کے لئے مغربی تہذیب نے انسان کی بوریت کو ختم کرنے کے لئے یہ دن تجویز کئے ہیں۔ لیکن ان تہواروں میں بھی زیادہ تر جنسی محبت کار فرما ہے۔

    پاکستان میں نہ صرف مغرب کے دلداہ طبقہ نے بلکہ مشرقی اقدار کو عزیر رکھنے والا بھی طبقات نے بھیiپنی معاشرت میں مغربی تہوار سالگرہ اور  Velentines Day لازم قرار دینا شروع کردیا۔گویا پاکستانی معاشرہ میں مغربی معاشرہ کی بدیاں برائیا ں سمیٹنے میں فخر محسوس کیا جا رہا ہے ۔ Valentanesday کو میڈیا پر خوب پذیرائی مل رہی ہے گویا مغربی تہواروں کومشرقی معاشرت میں ضم کیا جارہا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنی شناخت کھو چکے ہیںکیونکہ ہماری قوم مغربی تہوار وں کو اسلامی تہوار و قومی دن کا درجہ دینے کے لئے بیقرار نظر آرہی ہے ۔

    ۔ ۔۔ Valen tine کے تہوار میں خصوصاََ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو محبت کا کھیل کھیلنے کا کھلے عام سبق دیا جاتا ہے ۔ اس کھیل میں رفتہ رفتہ نا بالغ لڑکیاں بھی شرکت کر رہی ہیں ۔ بلکہ اب تو شادی شدہ عورتیں اپنے شوہروں سے متمنی ہیں کہ وہ اس دن کی نسبت سے بھی سال کے اس مخصوص دن میں Valentines کے قیمتی تحفوں سے انہیں نواز کر ان سے نمائشی اظہار محبت کریں گویا ایسی مشرقی عورتیں مغرب کی تقلید میں اپنی شادی شدہ زندگی میں تجدید محبت کو ضروری سمجھتی ہیں ۔

    ہر سال Valen tine کے اھتمام کے ضمن میں۔۔پا کستان کی گلیاں و بازار کی دکانیں گلاب کے سرخ پھولوں اور اس دن کی نسبت سے نہایت ہی قیمتی کارڈ اور اظہار محبت کے لئے قسم قسم کے تحفوں سے بھری پڑیں ہوتی ہیں بازار یا گلیوں میں جوق در جوق لڑکے لڑکیاں اس دن کی نسبت سے تجدید محبت کے تحفوں کی خریداری میں مصروف دکھائی دیتے ہیں اور ان کے دیکھا دیکھی (جن کا تا حال کوئی بوائے یا گرل فرینڈ نہیں ہے) ایسے لڑکیاں لڑکے نا معلوم کی محبت میں گرفتار ہونے کے لئے بیقرار نظر آتے تھے ۔گویا قبل از وقت تحفے خرید کراپنی محبت کے سفر کا آغاز کرنا چاہتے ہیں ۔ پاکستان میں اس دن کی نسبت سے ہر کوئی جس کا کوئی محبوب نہیں وہ اپنے محبوب بوائے فرینڈ یا گرلز فرینڈ کی تلاش میں ہے اور جن کا کو ئی محبوب ہے وہ اپنی محبت میں رنگ بھرنے اور تجدید محبت کے لئے کوشاں ہے۔

    پا کستا نی اخبا ر ا ت ۔ٹی وی نے مغربی تہذیب کے اس مخصوص دن جو ہر سال ١٤ فروری کو منایا جاتا ہے خوب تشہر کرتے ہیں گویا اس دن کے حوالے سے پاکستانی سوسائیٹی کو یہترغیب دی جارہی ہے کہ وہ خود کو اپنے آئیڈیل کو محبت کے دلفریب سفر کے لئے تیار کریں ۔ تا کوئی نابالغ بالغ محبت کے سبق سے محروم نہ رہ سکے ۔ تاکہ Valentane کے تہوار کا سہارا لے کر ہر محروم اس چشمہ سے اپنی پیاس بجھا سکے۔

    پاکستان میں مغربی تہواروںکے دنوں کی نسبت سے ہر ایک پر اظہار محبت کا جنون طاری ہے ۔اس سے تویہ پتہ چلتا ہے والدین نئی نسل کی نہ تربیت پر توجہ نہیں دے سکے ہیں اور نہ ہی نئی نسل کو اسلامی ثقافت کا پوارا شعور دے سکے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میںاسلامی تہوراوں کو بھی رنگ رلیوں لغویات اور رسم و رواج کے طور پر منایا جارہا ہے ۔ اسلامی تہوار بھی اپنی حقیقت کھو کر رسم و رواج کے زیر اثر ہیں۔ گویا اسلامی تہواروں کے ظاہر پر زور دئے جانے کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی قوم کی اکثریت اسلامی ثقافت کی اصل روح سے نہ آشنا ہے ۔

    حا لا نکہ عیدین کے تہوار تو نفس کی قربانی کے بعد منائے جاتے ہیںبیشک وہ ماہ رمضان کے مہینہ کا ریفریشر کورس ہویا عید الضحی حضرت ابراھیم علیہ السلام کی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی یاد میں ہو ۔گویا اسلامی تہواروں و اسلامی ثقافت میں ہر قربانی کے بعد خوشی ہے۔ اسلئے ان تہوروں کی خوشی بامعنی ہے۔لیکن ان اسلامی تہواروں کی روح سے نا آ شنا لوگوں نے ان تہواروں کی شکل تبدیل کردی ہے اور ان میں بھی لغویات و رنگ رلیوں اور کسی قدر فحاشت نے جگہ بنا لی ہے ۔ حالانکہ اسلامی تہوارور ثقافت معاشرتی میل جول آ پس کے محبت کے رشتوں میں فروغ و تجدید محبت کے دن ہیں عیدین میں گلے ملا جاتا ہے عزیز و اقرب و دوستوں کو گھر پر مدعو کیا جاتا ہے۔ عید ملن کی تقریبات منعقد کی جاتیں ہیں محبت بھرے تحفوں کا تبادلہ ہوتا ہے ۔ لیکن اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ محبت کے تحفوں کے لئے مغربی تہورا یعنی سالگرہ اور ویلنٹائین ڈے ہی مخصوص اور لازم ملزوم قرا دے دئے جاچکے ہیں۔گویا تجدید محبت سالگرہ ویلنٹائین ڈے کے سوا عام دنوں میں ممکن ہی نہیں ۔

    اسلامی تہوارجو قربانی کی یاد میں منائے جاتے ہیں ان کا بنیادی مقصد دلوں کو اکٹھا کرنا دلو ں کو ملانا آپس کے رشتوں ودوستی کی تجدید محبت ہے۔ لیکن غیر اسلامی تہوارزیادہ تر ریا کاری خود غرضی نمود نمائش و رنگ رلیوں کی ترغیب دیتے ہیں۔والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد میں مشرقی اسلامی ثقافت کی اقدار کا شعور پیدا کریں۔اور دانشوروں کا فرض ہے کہ پاکستانی سو سا ئیٹی میں اسلامی ثقافت کلچر کی روح کو اُجاگر کریں تاکہ پاکستانی سوسائیٹی کے دلو ں میںاپنے اسلامی تہواروں کی عظمت اُجاگر ہو ۔

    ہر انسان خوشی و سچی خوشحالی کا طلبگار ہے۔لیکن دنیا کی تہذیبوں میں ان کے مخصوص تہوراوں میں خوشی حاصل کرنے کے لئے شراب جواء عیاشی جیسی رنگ رلیوں کو ہی خوشی سمجھا ہوا ہے ۔اوریہی غلطی ہے اور اسی بات کو نہ سمجھنے والے مغرب کے دلدادہ لوگوں کے نزدیک خوشی حاصل کرنے کے لئے ایسی رنگین محفلیں عورتوں مردوں کی مکسڈپارٹیاں 'تھیٹر ' رقص اور موسیقی کی محفلیں جیسی پُرلطف سرگرمیاں ہیں اور یہی سرگرمیاں ان کے دامن کو مسرتوں سے بھر دیں گی ۔

    مغرب کی تقلیدمیں مشرق کے ایک بڑے طبقہ نے مغربی تہذیب کے زیر اثر سالگرہ و نئے سال Valentine بُوریت کو دور کرنے اور اپنی زندگی میں رنگ بھر نے کے نام پر رقص و مو سیقی و دیگر ایسی لغویات کو اختیار کیا ہوا ہے ۔ ان مکسڈ پارٹیوں میں شرکت کرنے والی ناتجربہ کار لڑکیوں و خواتین کو بعض ہوس پرست جو مشروب پیش کر تے ہیں اس میں نشہ آور ادو یات کی آمیزش کی جاتی ہے ۔ جس کے نتیجہ میں لڑکیوں و معزز خواتین کے ہوش و حواس خطا ہو جاتے ہیں تو ایسی صورت میں ہوس پرستی کی راہ کی سب رُکاوٹیں دور ہوجاتی ہیں ۔ اور ایسی ہوا ہوس کی مکسڈ پا رٹیوں بہت سی سادہ لوح لڑکیاں اپنے عصمت کے جوہر سے محروم ہو جاتی ہیں ۔

    پس ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مغرب کے کلچر کی نقالی کو ہم نے خوشیوں کی بارات سمجھ کر غیر اسلامی تہواروں کو منانے کا قصد کرلیا ہے ۔اور ایسے اخلاق باختہ تہواروں اور رنگ رلیوںکی محفلوں نے ملک و ملت کی اخلاقی و معاشرتی بنیادیں کھو کھلی کرکے رکھ دیں ۔

    پس ایسے اخلاق باختہ تہواروں کے مضمرات سے ہمارے مذہبی علماء دانشور قوم کو آگاہ کریں۔ ان پر حقیقی خوشی و خوشحالی کے رستے و ذرائع واضح کریں ۔خوشی کے نام پر لُطف یا موج میلہ میں و تفریح تو شائد مل جائے لیکن حقیقی خوشی و سچی خوشحالی ان کے نصیب میں کہاں؟ ۔درحقیت خوشی اور لُطف یا جنسی لذت میں بہت فا صلہ ہے ۔یوں بھی کہا جا سکتا ہے ان دونوں میں کوئی مشترک بات نہیں ہے ۔لطف وہ ہے جو ہم کسی عمل کے دوران وقتی طور پر حاصل کرتے ہیں ۔اور خوشی وہ ہے جو ہم کسی عمل کے بعد محسوس کرتے ہیں اس لئے عمل کے دوران لطف کی لذت چند لمحوں میں یا ایسی محفل برخاست ہونے کے بعد ختم ہو جاتی ہے لیکن حقیقی خوشی جو دیر پا ہوتی ہے۔

  2. #2
    shaikhmubeen's Avatar
    shaikhmubeen is offline Senior Member+
    Last Online
    29th June 2015 @ 11:02 PM
    Join Date
    11 Jun 2009
    Location
    India
    Gender
    Male
    Posts
    509
    Threads
    26
    Credits
    0
    Thanked
    39

    Default

    Bahut Umda

  3. #3
    safal shah is offline Junior Member
    Last Online
    15th May 2013 @ 02:49 PM
    Join Date
    03 Mar 2012
    Gender
    Male
    Posts
    2
    Threads
    0
    Credits
    860
    Thanked
    0

    Default

    Zbrdast yar! you are an inqlabi person

Similar Threads

  1. Replies: 6
    Last Post: 22nd September 2019, 12:20 PM
  2. Replies: 4
    Last Post: 18th March 2016, 09:36 PM
  3. Replies: 10
    Last Post: 13th January 2015, 03:22 PM
  4. Replies: 2
    Last Post: 14th August 2010, 03:42 PM
  5. Replies: 30
    Last Post: 8th April 2010, 09:45 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •