جدائی میں رسوائی اچھی لگی ہے
کہیں جا کے تنہائی اچھی لگی ہے
بڑی دیر تک تو رہے تم نظر میں
مجھے پھر یہ پرچھائی اچھی لگی ہے
خدا جانے کیسے پلٹ آئیں یادیں
مگر دل کی انگڑائی اچھی لگی ہے
وہ لہجہ ہمیشہ رہا دھیما دھیما
وہ جب جب بھی شرمائی اچھی لگی ہے
تصور میں ملنا ہے ملنے سے بڑھ کے
بہت دل کو شہنائی اچھی لگی ہے
سنا ہے کسی سے وہ خوش ہیں بچھڑ کر
ہمیں بھی یہ تنہائی اچھی لگی ہے
وہی پرفیوم اِک لگا کر کسی نے
جو ہے سانس مہکائی اچھی لگی ہے
اس کی بس اِک جھلک دیکھنے کو
یہ اکھیوں کی ترسائی اچھی لگی ہے
Bookmarks