Results 1 to 2 of 2

Thread: امام حسین علیہ السلام آپکی محبت اور اسکے ت

  1. #1
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default امام حسین علیہ السلام آپکی محبت اور اسکے ت

    حضرت یعلیٰ بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اس سے محبت فرمائے جو حسین سے محبت کرے، حسین نواسوں میں سے ایک نواسہ ہے۔

    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    جامع ترمذی کی کتاب المناقب باب مناقب الحسن والحسین، حدیث نمبر 3708 ہے ''حضرت یعلیٰ بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اس سے محبت فرمائے جو حسین سے محبت کرے، حسین نواسوں میں سے ایک نواسہ ہے۔''

    امام حسین علیہ السلام کے مختصر سوانح حیات
    آپ کا نام و نسب ہے، حسین ابن علی ابن ابوطالب ابن عبدالمطلب ابن ہاشم القرشی الہاشمی ہے۔ آپ کی کنیت ابوعبداللہ (عبداللہ آپ کے چھوٹے بیٹے حضرت علی اصغر کا نام ہے)، آپ کے القاب سبط رسول، ریحانہ رسول، سید شباب اہل الجنہ وغیرہا ہیں۔ آپ کی والدہ سیدہ النساء حضرت فاطمة الزہراء ہیں۔ آپ 5 شعبان المعظم 4 ھ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔

    آپ کی ولادت اور شہادت کے متعلق پیش گوئی
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی ولادت سے پہلے ہی آپ کے بارے میں پیش گوئی فرمادی تھی۔
    چنانچہ ''مشکوة المصابیح'' کی کتاب مناقب اہلبیت کی فصل ثالث صفحہ نمبر 572 میں حضرت ام فضل رضی اللہ عنہا (زوجہ عم رسول حضرت عباس رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ ''وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے ایک ناپسندیدہ خواب دیکھا ہے۔ فرمایا: وہ کیا ہے؟ عرض کی وہ بہت ہی ناپسندیدہ ہے۔ فرمایا: وہ کیا ہے؟ عرض کی میں نے دیکھا ہے گویا آپ کے جسم کا ایک ٹکڑا آپ کے جسم سے جدا ہوا ہے اور میری گود میں رکھ دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''تو نے اچھا (خواب) دیکھا ہے، فاطمہ ان شاء اللہ بیٹا جنم دے گی وہ تمہاری گود میں ہوگا۔''

    پس جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ویسے ہی ہوا اور حسین (رضی اللہ عنہ )میری گود میں آئے۔ فرماتی ہیں ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور انہیں (حسین علیہ السلام کو) آپ کی گود میں رکھا دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں ۔ میں نے عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان کیا وجہ ہے؟ فرمایا جبرائیل علیہ السلام ابھی آئے ہیں اور انہوں نے خبر دی ہے کہ
    ''بیشک میری امت کے لوگ میرے اس بیٹے کو قتل کر دینگے۔ میں نے کہا اس بیٹے کو۔ تو کہا ہاں اور میرے پاس سرخ رنگ کی مٹی بھی لائے ہیں۔''

    ''تہذیب التہذیب'' امام ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی، جز: 2، صفحہ: 300، طبع دار الفکر بیروت میں ہے: محدث ابو نعیم نے روایت کیا کہ ''حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مٹی کو سونگھا اور فرمایا ''کرب وبلاء کی بو ہے۔ اور اے ام سلمہ جس روز یہ مٹی خون میں بدل جائیگی تو جان لینا کہ میرا بیٹا قتل کردیا گیا ہے۔ فرماتی ہیں میں نے اس مٹی کو ایک شیشی میں محفوظ کرلیا۔''

    اس کے علاوہ حضرت عائشہ صدیقہ حضرت علی المرتضیٰ حضرت فاطمہ الزہراء حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم اور دیگر سے امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور مقام شہادت کے بارے میں روایات اور پیش گوئیاں کتب معتبرہ میں موجود ہیں۔ لیکن حیرت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اہلبیت میں سے کسی سے اس حادثہ فاجعہ کے ٹل جانے کی دعاء ثابت نہیں۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تمام اہل بیت رسول چاہتے تھے کہ امام حسین علیہ السلام اس امتحان عظیم سے گزر کر جہاد اور شہادت فی سبیل اللہ کا حق ادا کرکے مسلمانوں کیلئے روشنی کا اونچا مینارہ ثابت ہوں اور خدا تعالیٰ کے ہاں اعلیٰ و ارفع درجات کے مستحق ٹھہریں

    امام حسین علیہ السلام کے چند دیگر سوانح:
    حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب حسین کی ولادت ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے میرا بیٹا دکھائو! تم نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا ''حرب'' فرمایا بلکہ وہ حسین ہیں۔

    حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے تینوں نواسوں (حسن، حسین اور محسن) کے نام حضرت ہارون علیہ السلام کے بیٹوں شبر، شبیر اور مشبر کے نام پر رکھے ہیں۔

    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کان میں اذان پڑھی۔ تحنیک فرمائی (یعنی کھجور چبا کر لعاب میں مکس کرکے کھلائی)، عقیقہ فرمایا، بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرنے کا حکم فرمایا۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت حسین علیہ السلام سے بے حد پیار تھا۔ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیاہ رنگ کی بالوں سے بنی ہوئی چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ حسن آئے تو انہیں چادر میں داخل فرمالیا پھر حسین آئے تو انہیں چادر میں داخل فرمالیا پھر فاطمہ آئیں تو انہیں چادر میں داخل فرمالیا پھر علی آئے تو انہیں چادر میں داخل فرمایا پھر فرمایا: ''اللہ یہی ارادہ فرماتا ہے کہ تم سے پلیدی کو دور رکھے اے اہلبیت اور تم کو خوب پاک فرمائے۔'' اسی حدیث مبارک سے پنجتن پاک کی اصطلاح بنی۔

    ہجرت کے 9 ویں سال جب نجران کے عیسائیوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کی دعوت دی جب آپ نے دلائل سے اتمام حجت فرمائی تو آپ نے انہیں مباہلہ (ایک دوسرے پر لعنت بھیجنے) کا چیلنج کیا۔ اس موقع پر جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مباہلہ کیلئے تشریف لائے تو حضرت حسین علیہ السلام کو آپ اٹھائے ہوئے تھے۔ حضرت حسن علیہ السلام دائیں جانب اور حضرت علی و حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما آپ کے پیچھے۔ اس موقع پر عیسائیوں کے سب سے بڑے پادری (اسقف) نے کہا:

    ''اے عیسائیوں کی جماعت ہرگز مباہلہ نہ کرنا میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ اللہ سے سوال کریں کہ وہ پہاڑوں کو جڑ سے اکھاڑ دے تو اللہ تعالیٰ پہاڑوں کو جڑوں سے اکھاڑ دے گا۔ پھر کہا اگر تم نے آج مباہلہ کرلیا تو تمہارا نام ونشان مٹ جائیگا اور قیامت تک روئے زمین پر کوئی عیسائی نظر نہیں آئیگا۔ اسکے بعد عیسائیوں نے مباہلہ کرنے سے انکار کردیا اور جزیہ دینے پر صلح کرلی۔''

    ان روایات سے شہزادہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظمت شان روز روشن کی طرح عیاں ہے۔

    اسی طرح خلفاء ثلثہ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم نے بھی اپنے اپنے دور خلافت میں شہزادہ رسول حضرت حسین علیہ السلام سے بے پناہ محبت فرمائی۔ فتح ایران کے بعد جب بے پناہ خزانے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں آئے تو آپ نے اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کا وظیفہ 2 دو ہزار درہم مقرر فرمایا اور نواسہ رسول حضرت حسین علیہ السلام کا وظیفہ پانچ ہزار درہم مقرر فرمایا اور شاہ ایران یزد جرد کی بیٹی حضرت شہر بانو کو امام حسین علیہ السلام کے نکاح میں دیا۔ جب خلیفہ اسلام حضرت عثمان غنی رضی اللہ علیہ کے مخالفین نے آپ کے گھر کا محاصرہ کرلیا تو حضرت امام حسین و امام حسن رضی اللہ عنہما دونوں شہزادوں نے ننگی تلواریں پکڑ کر آپ کے دروازے پر پہرہ دیا۔

    حضرت امام حسین علیہ السلام کی سیرت طیبہ:
    آپ انتہائی خوبصورت تھے۔ بخاری شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کوئی شخص حضرت حسن سے بڑھ کر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہ نہ تھا اور فرمایا حضرت حسین بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت مشابہ تھے۔ جامع ترمذی میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حسن سینہ سے سر تک اور حسین سینہ سے قدم تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت مشابہ تھے۔

    امام الشاہ احمد رضا رحمة اللہ علیہ نے فرمایا
    اس نور کی جلوہ گاہ تھی ذات حسنین آدھے سے حسن بنے آدھے سے حسین

    غرض یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی المرتضیٰ وسیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہما کی بے مثال تربیت کے نتیجے میں امام حسین علیہ السلام انتہائی پاکباز، متقی، پرہیزگار، شب بیدار، روزوں کی کثرت کرنے والے، بے حد صدقہ و خیرات کرنے والے، انتہائی بہادر، غیور، صاحب استقامت، حق گو، نیکی کے کاموں میں بڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔

    آپ کی شہادت :
    رجب 60ھ میں صحابی رسول کاتب وحی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ وصال فرماگئے۔ ان کے بعد ان کا بیٹا یزید بن معاویہ تحت نشین ہوا تو گورنر مدینہ ولید بن عقبہ نے حضرت امام حسین علیہ السلام سے یزید کی بیعت (یعنی یزید کی حکومت کی تائید کرنے) کا مطالبہ کیا تو آپ نے یزید کے فسق و فجور کی بنیاد پر اس کی بیعت کرنے سے صاف صاف انکار فرمادیا۔

  2. #2
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    39
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default

    اس کے بعد آپ 4 شعبان 60ھ کو مکہ مکرمہ چلے گئے۔ اسی اثناء میں کوفہ کے لوگوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کو کوفہ آنے (اور وہاں خلافت راشدہ کی بنیاد رکھنے) کی دعوت دی۔ آپ نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم ابن عقیل کو اپنا نمائندہ بنا کر کوفہ بھیجا۔ اہل کوفہ نے ابتداء میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی لیکن بعد میں یزیدی گورنر عبید اللہ ابن زیاد کے ڈرانے دھمکانے کے بعد آپ کا ساتھ چھوڑدیا اور امام مسلم اور آپ کے دونوں بیٹوں محمد وابراہیم کو بڑی بے دردی کے ساتھ شہید کردیا۔

    ایک روایت کے مطابق یہ 3 ذوالحج 60ھ کا دن تھا اسی روز امام حسین علیہ السلام اپنے خاندان اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ مکہ مکرمہ سے کوفہ روانہ ہوئے۔ راستے میں حضرت مسلم ابن عقیل رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر ملی آپکو کوفہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ آپنے راستہ تبدیل کیا طف (کربلا) کے مقام پر پہنچے یہ محرم الحرام 61ھ کی تین تاریخ تھی۔ یزیدی افواج نے جنکی کمان عمرو ابن سعد کررہا تھا، آپکو گھیرے میں لے لیا اور آپسے یزید کی بیعت کا مطالبہ کیا جسے آپنے مسترد کردیا۔

    7 محرم الحرام کو اہل بیت کے لیے پانی بند کردیا گیا اور امام حسین علیہ السلام کو سخت ترین جنگی کارروائی کی دھمکی دی گئی لیکن پھر بھی آپ اپنے موقف پر ڈٹے رہے چنانچہ 10محرم الحرام 61ھ کو یزیدی افواج نے جنگ چھیڑ دی۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں بھائیوں بھتیجوں بھانجوں آپ کے پیارے بیٹوں حضرت علی اکبر اور علی اصغر کو ایک ایک کرکے شہید کردیا گیا اور پھر بالآخر آپ خود بھی درجنوں شدید زخم کھانے کے بعد شہید کردیئے گئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون! لیکن آپ اپنے شرعی موقف پر ڈٹے رہے۔ امام حسین علیہ السلام کے مختصر سوانح کے بعد اب ہم حدیث بالا کے تحت چند فوائد کا ذکر کرتے ہیں۔

    حسین منی وانا من حسین
    یعنی حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔ شرح مشکوة حضرت علامہ علی قاری مکی رحمة اللہ علیہ مرقاہ شرع مشکوہ میں قاضی عیاض رحمة اللہ علیہ کے حوالے سے فرماتے ہیں:
    ''گویا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نورِ وحی کے ذریعے ان حالات کو جان لیا تھا جو امام حسین علیہ السلام اور لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کا خصوصی ذکر کرکے واضح فرمادیا کہ وہ دونوں (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلماور امام حسین رضی اللہ عنہ) محبت کے واجب ہونے اور ان دونوں سے لڑائی اور ان کی بے ادبی کے حرام ہونے میں ایک شئی کی طرح ہیں پھر اس بات کو احب اللہ من احب حسیناً (اللہ اس سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرے) فرماکر اور زیادہ مضبوط فرمایا کہ حسین کی محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اللہ کی محبت ہے۔

    حسین سبط من الاسباط
    سِبَط (سین کی زیر اور باء کی زبر کے ساتھ) کا معنی نواسہ ہے اور سَبَط (سین کی زبر کے ساتھ) کا معنیٰ شاخ یا قبیلہ کے ہیں۔ جس کا معنیٰ یہ ہے حسین علیہ السلام کی نسل سے خلق کثیر پیدا ہوگی۔

    اس حدیث مبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی محبت کو مسلمانوں پر فرض فرمادیا ہے لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام سے پر خلوص محبت کا مظاہرہ کریں اور اس سلسلہ میں خالی محبت کے جھوٹے نعرے بلند کرنے کی بجائے آپکی شاندار سیرت کو اپنا کر آپکی روح کو خوش کریں اور خود بھی سعادت دارین سے بہرہ ور ہوں۔

    آپ کی سیرت کے چند مبارک گوشے
    1۔ آپ کی سیرت کا سب سے روشن و درخشاں پہلو یہ ہے کہ آپ نے یزید جیسے فاسق و فاجر ظالم حکمران کی حمایت نہیں فرمائی اور اس سلسلہ میں نہ صرف بڑی بڑی پیش کشوں کو ٹھکرادیا۔ بلکہ ہجرت وطن سے لے کر مال و اولاد، احباب اقرباء حتیٰ کہ جان کی قربانی سے بھی دریغ نہیں فرمایا۔ حضرت خواجہ خواجگان خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے کیا خوب فرمایا:
    شاہ است حسین بادشاہ است حسین دین است حسین دین پناہ است حسین
    سرداد نہ داد دست در دست یزید حقا کہ بنائے لا الہ است حسین
    آپ کا یزید سے کوئی ذاتی اختلاف نہ تھا۔ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ ''سرالشہادتین'' میں فرماتے ہیں:
    ترجمہ ''پس امام حسین یزید کی بیعت و حمایت سے رک گئے اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ فاسق و فاجر، شرابی اور ظالم تھا۔''

    مشہور مفسر محدث اور مؤرخ حافظ ابن کثیر دمشقی اپنی تصنیف ''البدایہ و النہایہ'' جلد: 8 میں لکھتے ہیں: ترجمہ: ''یزید کے متعلق یہ باتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ وہ سازو راگ کا دلدادہ، شرابی، ناچ، گانے کا شیدائی، خوبرو لڑکوں اور نو عمر حسین و جمیل گانے والی لونڈیوں کا شوقین تھا..... اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ہر صبح شراب کے نشہ میں مدہوش اٹھتا تھا۔''

    جبکہ اسلام میں ایسا شخص مسلمانوں کی امامت وحکومت کا اہل نہیں ہوتا۔ چنانچہ قرآن پاک میں سورة شعراء کی آیت 181 میں ہے: ''اور تم گناہ کرنے والوں کے حکم کی اطاعت نہ کرو۔ جو کہ زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔'' اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ فاسق و ظالم کو امیر و حکمران نہ بنائو۔
    اور حدیث پاک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''ایسے شخص کی اطاعت نہیں جو اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہو۔''

    لہذا امام حسین رضی اللہ عنہ کیلئے کیسے ممکن تھا کہ ایسے ژخص کی بیعت کرتے۔ لہذا آپ نے ظالم و جابر، فاسق و فاجر حکمران کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ اپنا سب کچھ لٹا دیا اور قیامت تک کے مسلمانوں کو درس دیا کہ مسلمانوں کی امارت و حکومت صرف صالح لوگوں کا حق ہے فاسق و فاجر، ظالم و جابر مسلمانوں کا حاکم نہیں ہوسکتا۔
    نیز آپ نے مسلمانوں کو یہ درس دیا کہ ایک مسلمان کی شان کے لائق نہیں کہ وہ اسلام کے اصولوں پر سودے بازی کرے? مسلمان جان و مال و اولاد اور عزت وآبرو تو قربان کرسکتا ہے لیکن اسلام کے اصولوں پر سودے بازی نہیں کرسکتا?

    آج اگر ہم محبت حسین کا دعویٰ کرکے فاسقوں، فاجروں اور ظالموں کو ووٹ دے کر حکومت کیلئے منتخب کریں تو اس سے بڑھ کر امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ منافقت اور کیا ہوگی? امام حسین رضی اللہ عنہ کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ غلامان حسین یزیدان وقت کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور کسی فاسق و فاجر کو ووٹ دے کر اسے حکومت کیلئے منتخب نہ کریں?

    2۔ آپ کی سیرت کا ایک اور روشن ترین پہلو صبر واستقامت ہے کہ آپ پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے? میدان کربلا میں آپ کے ساتھی، بھتیجے، بھانجے اور بیٹے خاک و خون میں غلطاں تھے? خیموں میں بیٹیاں، بہنیں اور بیویاں اپنے بعد بے سہارا نظر آرہی تھیں? ان نہایت خوفناک حالات میں یزیدی افواج آپ کو بار بار پیش کش کررہی تھیں کہ آپ اگر اب بھی یزید کی بیعت کرلیں تو آپ کو قتل نہیں کیا جائیگا? لیکن آپ استقامت کا پہاڑ بن کر اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے?

    3۔ آپ صبر کا مجمسہ بنے رہے اور اپنے اہل بیت کو بھی صبر کی تلقین کرتے رہے۔ کتاب '' اِعْلَامُ الْوَرٰی بِاَعْلَامِ الْہُدٰی'' میں ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی ہمشیرہ سے فرمایا اے میری بہن! اللہ سے ڈرنا اور صبر کرنا ہر شئی فانی ہے۔ میرے باپ مجھ سے بہتر تھے۔ جن کی شہادت پر تم نے صبر کیا تھا۔ بیشک میرے لیے اور ہر مسلمان کیلئے رسول اللہۖ بہترین نمونہ ہیں۔ پھر فرمایا: اے میری بہن! میں تجھے قسم دیتا ہوں میری قسم کو پورا کرنا اور مجھ پر اپنا گریبان چاک نہ کرنا۔ ور مجھ پر اپنے چہرے کو ہرگز نہ نوچنا ''اور ہائے افسوس اور ہائے ہلاکت کے الفاظ سے بین نہ کرنا... جب میں جام شہادت نوش کر جائوں۔''
    اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام حسین امام الصابرین تھے۔ لہٰذا آپکے محبین کو بھی صبر و استقامت کا پیکر بننا چاہئے۔

    4۔ آپ نے میدان کربلا میں ایسے حالات میں جبکہ آپکے تمام ساتھی اور رشتہ دار شہید ہوچکے تھے اور آپکا اپنا جسم تیروں سے چھلنی ہوچکا تھا۔ نماز کو ترک نہیں کیا اس میں بھی امت کیلئے درس تھا کہ نماز بڑا قیمتی متاع ہے۔ ایسے خوفناک حالات میں بھی نماز کا ترک کرنا جائز نہیں۔ آج جو لوگ محبت حسین کا دعویٰ کرکے نماز کے قریب نہیں جاتے۔ یقین کرلینا چاہئے کہ وہ دعویٰ محبت میں سچا نہیں ہے۔ امام صادق کا جو محب صادق ہوگا وہ نماز میں کوتاہی نہیں کریگا۔

    5۔ آپ نے یزید کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس سلسلہ میں کسی خطرہ کی پرواہ نہیں کی۔ لیکن قبل اس کے حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما نے تینوں خلفائے رسول حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اعظم، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم سے مقابلہ نہیں کیا۔ بلکہ اپنے بیٹوں کے نام خلفاء کے نام پر رکھے اور ان سے مکمل تعاون کیا۔ ان سے بیعت کی ان کی اقتداء میں نمازیں پڑھیں۔

    تو یہ باتیں اس امر کی روشن دلیل ہیں کہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے نزدیک تینوں خلفاء کرام کی خلافتیں درست تھیں۔

    6۔ خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مسلمانوں میں شدید اختلاف پیدا ہوگیا۔ خلیفہ چہارم حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں صحابی رسول حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے شام و مصر میں الگ خلافت قائم کرلی۔ حضرت علی کی شہادت کے بعد حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما دونوں بھائیوں نے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح و اتحاد کی خاطر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرلی اور امیر معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کرکے امت کو ایک امیر کی امارت پر متحد فرمادیا۔ اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیش گوئی پوری ہوئی۔ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: ''میرا یہ بیٹا سردار ہے اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کرائیگا۔'' حوالہ: ''بخاری شریف'' کتاب المناقب، حدیث نمبر 3463 .

    لیکن دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی محبت کا نعرہ لگا کر صحابی رسول حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ حالانکہ اولاد حضرت علی المرتضیٰ حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرلی تھی لہٰذا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کے محبین صحابی رسول حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا ادب و احترام کریں اور جس شخصیت کی حکومت و امارت پر حضرت امام حسن وحسین رضی اللہ عنہما سمیت تمام اہل بیت اور تمام صحابہ کرام اور دنیا بھر کے مسلمان متحد ہوئے ہیں ان کے خلاف باتیں نہ کریں۔

    آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمان کو یزیدیوں کے مقابلہ میں قافلہ امام حسین علیہ السلام میں شامل رہنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ وما علینا الا البلاغ المبین!

Similar Threads

  1. Replies: 26
    Last Post: 10th March 2021, 05:29 PM
  2. Replies: 16
    Last Post: 12th May 2016, 09:12 AM
  3. Replies: 5
    Last Post: 14th March 2015, 06:08 PM
  4. Replies: 10
    Last Post: 27th November 2010, 12:45 AM
  5. Replies: 1
    Last Post: 18th December 2009, 05:43 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •