ہمارے رب نے ہمیں کیوں اس دنیا میں بھیجا ہے ؟
کیا کبھی کسی نے یہ سوال کیا اپنے آپ سے؟
یقینا ہم مسلمان تو جا نتے ہیں ہمیں ہمارے رب نے صرف اور صرف عبادت کے لیے پیدا کیا
اللہ کا فرمان ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْانسَ الَّا لِيَعْبُدُونِ [الذاريات : 56]
میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لیے پیدا کیا کہ وہ صرف میری عبادت کریں

بھائیو اور بہنوں بے شک ہماری خلقت صرف اور صرف اللہ کی عبادت کے لیے کی گئی ہے
آپ جانتے ہیں آپ کے خالق نے اپکو لا وجود سے ایک وجود دیا
هَلْ اتَى عَلَى الْانسَانِ حِينٌ مِّنَ الدَّھرِ لَمْ يَكُن شَيْئا مَّذْكُورا [الانسان : 1]
کبھی گزرا ہے انسان پر ایک وقت زمانے میں جب یہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا[الانسان : 1]
سچ ایک وقت تھا جب آپ کا تو کوئی وجود ہی نہ تھا پھر اپکے خالق نے اپکو اس دنیا میں ایک وجود دیا
اور اپکی ابتدا مٹی سے شروع ہوئی اور پھر ایک بے وقعت پانی کے نچوڑ سے


اپکے رب کا فرمان ہے:
وَبَدَا خَلْقَ الْانسَانِ مِن طِينٍ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہ مِن سُلَالَۃ مِّن مَّاء مَّھينٍ [السجدة :7/ 8]
اور انسان کی بناوٹ مٹی سے شروع کی، پھر اسکی نسل ایک بے وقعت پا نی سے چلائی
وَاللَّہ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَہ [فاطر : 11]
اللہ تعالی نے تمھیں مٹی سے پھر نطفہ سے پیدا کیا


سبحان ربی ما اعظمک


اپکے رب کا فرمان ہے:

یقینا ہم نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ، پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قراردے(ٹھرا) دیا پھر اس نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا، پھر اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکرا بنا دیا، پھر گوشت کے ٹکرے میں ہڈیاں پیدا کر دیں پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنادیا، پھر دوسری بناوٹ میں اسے پیدا کیابرکتوں والا ہے وہ اللہ جو سب سے اچھا بہتر ہے پیدا کرنے والوں میں
سبحــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــان ربی الاعلی



ذرا غور تو کریں آپ کن مراحل سے گزر کر آج ایک شخصیت بنے بیٹھے ہیں
آپ کا تو کوئی وجود ہی نہ تھا آپ کی ابتدا ہی ایک بے وقعت پانی ہے

اس عظیم ذات نے ایسی اندھیری اور ظلمت کی جگہ بھی اپکی مکمل حفاظت کی ، اپکو ایسی جگہ بھی رزق پہنچا دیا
اپکے رب کا فرمان ہے:

يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ امَّھاتِكُمْ خَلْقاً مِن بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ ذَلِكُمُ اللَّہ رَبُّكُمْ لَہ الْمُلْكُ لَا الَہ الَّا ھوَ فَانَّى تُصْرَفُونَ [الزمر : 6]
ان تَكْفُرُوا فَانَّ اللَّہ غَنِيٌّ عَنكُمْ وَلَا يَرْضَى لِعِبَادِہ الْكُفْرَ وَان تَشْكُرُوا يَرْضَہ لَكُمْ

وہ تمہیں تمھاری ماؤں کے پیٹوں میں ایک بناوٹ کے بعد دوسری بناوٹ بناتا ہے تین، تین اندھیروں میں، یہی اللہ تعالی تمھارا رب ہے اسی کے لیے بادشاہت ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، پھر تم کہاں بہک رہے ہو؟اگر تم ناشکری کرو تو یاد رکھو اللہ تعالی تم سب سے بے نیاز ہے ،اور وہ اپنے بندوں کی ناشکری سے خوش نہیں اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمھارے لیے پسند کرتا ہے

یقینا ہمارے خالق نے ہم پر اتنا احسان کیا لیکن کیا ہم نے اسکا حق ادا کیا؟
کیا اپکے رب نے اپکو ان مراحل سے گزر جانے کے بعد اپکو اپکے حال پر چھوڑ دیا؟
یقینا نہیں


اسنے اپکو اس دنیا میں ایک نازک سا وجود دے دینے کے بعد بھی اکیلے نا چھوڑا
اپکی خدمت اپکی حفاظت کے لیےاپکی ماں کے دل میں اپکے لیے ایسی بے لوث اور بے غرض محبت ڈال دی

اپکی ماں اور اپکے باپ کو تو اللہ نے اپکی حفاظت ، پرورش ،اپکی غذا کا صرف ایک سبب بنایا حقیقت میں تو وہی خالق ہی اپکے لیے آپ سے میلوں دور زمین پر اپکے نام کا اناچ اگاتا رہا جس کے ایک ایک دانے پر اپکا نام لکھا جاتا اور وہ ہزار مراحل سے گزر کر ایک دن اپکا لقمہ بن جاتا


باپ کو تو اللہ نے ایک ذریعہ ہی بنایا اسکی کمائی کو ایک بہانا بنایا
لیکن حقیقت میں رب الاسباب تو ہمیشہ سے وہی خالق ہی رہا

اسنے اپکو آنکھ ، کان ،اور دماغ کے ذریعہ وہ سب سکھا دیا جس سے آپ بالکل غافل تھے
آپ نے کان کے ذریعہ سن کر ایک زبان سکھی چیزوں کو دیکھ کر دماغ میں انکے نام یاد کرتے چلے گۓ


آخر سوچنے کا مقام ہے
کہ ہمارے رب نے ہمیں اتنے نازک مراحل سے گزار کر ایک وجود دیا اور پھر ہماری مکمل حفاظت کی
یھاں تک کے آج ہم اپنے اپ کو ایک شخصیت سمجھنے لگ گۓ
اور حیرت ہے اس مخلوق پر جو لاوجود سے وجود حاصل کرکے ان نازک مراحل سے گزر کر جب شبابیت کو پہنچا تو اسی خالق کے وجود پر شک کرنے لگا ، اپنے اسی خالق کے لیے مثالیں مارنے لگا
اوَلَمْ يَرَ الْانسَانُ انَّا خَلَقْنَاہ مِن نُّطْفَۃ فَاذَا ھوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ
وَضَرَبَ لَنَا مَثَلاً وَنَسِيَ خَلْقَہ [يس 77/78]

کیا انسان کو اتنا معلوم نہیں کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا؟ پھر یکایک وہ صریح جگڑالو بن بیٹھا اور وہ ہم پر مثالیں مارنے لگا ،اور اپنی اصل پیدایش کو بھول گیا

یہ ساری باتیں میں نے اس لیے ذکر ہرگیز نہیں کی کہ اپکو اپکی خلقت کے مراحل کی یاد دلا سکوں
بلکہ یہ سب ذکر کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اپکو اس اہم خلقت کا وہ سبب یاد دلا سکوں جو آج کسی کو یاد نہیں رہا الا ماشاء اللہ
اب ذرا آپ اکیلے میں بیٹھ کر غور کریں
آپ کے رب نے اپکو لا وجود سے ایک بہترین وجود دیا ،اور بچپن سے ایک ایک لقمہ اپکو کہلاتا رہا
اپکی حفاظت ، پرورش کے لیے اپکے ماں باپ کو متیعن کر رکھا
یھاں تک کہ آپ اپنے پیروں پر کھڑے ہوگۓ
ان سب احسانات کے پیچھے آخر کیا مطلوب تھا آپ سے؟
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْانسَ الَّا لِيَعْبُدُونِ [الذاريات : 56]
میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لیے پیدا کیا کہ وہ صرف میری عبادت کریں
کیا اب بھی آپ سمجھتے ہیں کہ اپکو اس دنیا میں اپنی نفسی خواہشات پوری کرنے کے لیے بیجا گیا ہے؟
آج کیوں انسان اسی خالق کی نافرمانی کرتے ہوۓ اسکے ان احسانات کو بھول جاتا ہے؟
سچ میں ہم نے اپنے رب کا حق ادا نہ کیا جو اسکا حقیقی حق تھا
میں اگر انسان کے گناہوں کا ذکر کرنے بیٹھ جاؤں تو یقینا یہ موضوع بہت طویل ہوجاۓ گا جبکہ میں ابھی تک اپنے اصل پوائنٹ پر نہیں آسکی ہوں

ایک رات میں نے ہسپتال میں گزاری وہاں میں صرف ننھے منھے نازک بچوں کو دیکھنے گئی تھی وہاں ہر تھوڑے وقفہ کہ بعد اس دنیا میں ایک نیا انسان وجود لیتا تھا
میں ننھے منھے نازک بچوں کو باری باری دیکھتی جار ہی تھی ، لیکن ہر بچے کو دیکھ کر میرے ذہن میں یہی سوال اٹھتا کہ یقینا اس ننے نازک انسان کو اللہ نے اس دنیا میں صرف اپنی عبادت کے لیے بھیجا ہے لیکن کیا یہ بھی بڑا ہوکر اپنے نفسیاتی خواہشات کو پوری کرنے میں مصروف ہوجاۓ گا؟
اس ننھے نازک بچے کو اب وہی خالق پالتا رہے گا اس کی قسمت کا ایک ایک دانہ اناچ وہ اب اس دنیا میں بھی بھیجےگا
لیکن اسکے ان سارے احسانات کا فائدہ تو صرف تب ہی ہوگا جب یہ بچہ بھی بڑا ہوکر اپنے خالق کی رضا کو تلاش کرے ، اس کا حق ادا کرے جو اسکا حقیقی حق ہے
لیکن اگر ان بیسوں بچوں میں کوئی ایک بھی بڑا ہو کر اللہ کا وہ حق ادا نہ کرسکا جس کے لیے وہ اس دنیا میں بھیجا گیاتھا اور اگر وہ بھی اس دور کے انسانوں کی طرح اپنے نفس کے پجاری بن کر بیٹھ گۓ تو۔۔۔۔
یہ عجیب سوالات تو میرے ذہن میں گھومتے ہی رہے لیکن
سوال تو مجھے اپنے آپ سے کرنا تھا
کیا میں نے اپنے رب کا حق ادا کر دیا؟ کیا میں نے اسکے احسانات کا شکر ادا کرلیا؟
کیا میں نے اپنی خلقت کا مقصد حاصل کر لیا؟
یقینا جب انسان اکیلے میں اپنے آپ سے یہ سوال کرے گا تو اسکی آنکھیں خود نم ہوجائیں گی
کیا اس عظیم خالق کا اتنا بھی حق نہ تھا کہ ہم اسکے حکم پر سمعنا و اطعنا کہتے؟
اسکی جگہ ہم نے ان احسانات کا کیا بدلہ دیا؟
اس عظیم خالق کے ہر حکم پر ہم نے اپنے شیطانی نفس کی اطاعت کو قبول کیا
احسانات تو خالق نے کیے تھے اور ہم اسکے مخالف کی اطاعت میں پڑ گۓ
یقینا انسان بڑا جاہل ہے
حیرانی ہے اس شخص کی زندگی پر جس پر آج ایک نماز تک بھاری ہے
میرے نزدیک سب سے بدترین زندگی ہے اس شخص کی جس کے دن رات بغیر نمازوں کے گزرتے ہیں
آخر ایسے شخص کے وجود کا فائدہ ہی کیا ہے
ہمارے رب نے تو ہمیں ہماری خلقت کا سبب اسکی عبادت بتائی ہے
لیکن جس شخص پر سب سے اہم عبادت نماز ہی مشکل ہو وہ میرے نزدیک اس دنیا کا سب سے فضول انسان ہے ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔