شہد کے استعمال سے کینسر سے بچاؤ
تازہ ترین انکشاف کی رو سے جس کو پنجاب ایگریکچرل یونیورسٹی لدھیانہ میں کئے طویل مطالعہ اور ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ شہد میں
کینسر سے مدافعت کی تاثیر موجود ہے۔
یونیورسٹی کے ماہنامے جریدے کے تازہ شمارے میں بتایا گیا ہے کہ شہد کی مکھیاں پالنے والوں میں دس لاکھوں میں سے صرف تین کو
کینسر کا مرض لاحق ہوتا ہے جبکہ دیگر پیشوں میں اس کی شرح 10 گنا ہے۔ اس مطالعہ میں کارنیل یونیورسٹی کی اس تحقیق سے کینسر کے
جوڑوں کے علاج کے لئے شہد کے استعمال پر مذید تحقیقات کی راہ کھلی ہے۔
شہد اور اصلاح جگر
شہد ہیموگلوبن آر بی سی کی مقدار میں اضافہ کرتا ہے۔ اس مطالعہ کے مطابق شہد کا استعمال گیس کے مریضوں کے لئے بھی مفید ہے اور
جگر کی اصلاح بھی ہوتی ہے کیونکہ شہد سے ملنے والی شکر کو جزوبدن بنانے میں جگر کو بہت کم محنت پڑتی ہے۔
شہد سے جگر سے گلوکوز کو محفوظ خیرے میں اضافہ ہوتا ہے جس سے نہ صرف یہ کہ جگر کے خلیوں کو غذا فراہم ہوتی ہے بلکہ گلائیکو
جن کی مقدار بھی بڑھ جاتی ہے اور نئے خلیوں کی افزائش کا عمل بھی تیز ہو جاتا ہے جس سے وہ پرانے خلیوں کی جگہ لے لیتے ہیں۔
شہد اور جسمانی کمزوری
تاجدار مدینہ کی زندگی مبارکہ کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ وہ ہر صبح شہد کے شربت کا پیالہ نوش فرماتے تھے اور کبھی یہ
مشروب نماز عصر کے بعد پسند فرمایا جاتا تھا اور اس کا اثر یہ ہوا کہ وہ اپنی پوری زندگی میں نہ تو کبھی بیمار پڑے اور نہ ہی کبھی تھکن
کا اظہار فرمایا۔ آپ کی زندگی سے یہ سبق ہمارے اکثر مسائل کا حل ہے۔ ان اوقات میں جب پیٹ خالی ہو اور آنتوں کی قوت انجذاب دوسری
چیزوں سے متاثر نہ ہو، شہد پینا جسم کے اکثر و بیشتر مسائل کا حل ہے۔ یہ کسی بھی حالت، بیماری اور کمزوری میں بلا کھٹکے پیا جا
سکتا ہے۔
اکثر لوگ جسمانی اور ذہنی تھکاوٹ کو دور کرنے کے لئے مختلف قسم کے کشتہ جات اور ٹانک تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ یہ امر کسی شک و
شبہ کے بغیر حقیقت ہے کہ شہد سے بڑھ کر تھکاوٹ، پژمردگی اور کمزوری کو دور کرنے والی چیز آج تک نسخہ زمین پر میسر نہیں آ سکی۔
امتحان کے دنوں میں طالب علم کو شہد پلا کر دیکھا گیا۔ اس سے وہ زیادہ دیر تک پڑھ سکے اور ان کی یادداشت اعتدال سے بہتر رہی۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا کے مشہور پہلوان ہرکولیس اور گولائتھ پر اپنی توانائی کو بڑھانے کے لئے شہد پیتے تھے۔ مشہور بھارتی
سینڈ ورام مورتی کی طاقت کا منبع بھی شہد تھا۔
(طب نبوی اور جدید سائنس)
شہد کے افعال ایک نظر میں
*
تازہ شہد محرک اور ملین (اجابت لانے والا) اثر کرتا ہے۔ پرانا شہد ایک سال کے بعد قابض، محرک، مقوی، مرضی اور ملین اثر رکھتا ہے۔
عام تعذیہ کا موجب ہے۔
*
حرکت دودیہ کو بڑھاتا ہے اور ہضم غذا میں مدد دیتا ہے۔
*
ضرورت پر یہ ایسی غذا ہے جو فوری جذب و تحلیل ہو جائے۔
*
یہ ایسا ایندھن ہے جو اہم عضلات بدن جو آرام نہ پاتے ہوں (مثلاً عضلات قلب) کے کام آتے ہیں۔
*
شہد لیموں کے ساتھ درون جسم غدودوں کے ترشحات میں خوبی پیدا کرتا ہے۔
*
رات 2 چمچے چائے کے برابر شہد ایک پیالی پانی میں ملا کر پینے سے بہترین نیند لاتا ہے۔
*
پیٹ کے نفخ کو کم کرنے اور عام استحالہ (طاقت) کو بڑھانے میں مفید اور بچوں کے پیشاب کی کثرت میں فائدہ مند ہے۔
*
عام طور پر کمزوری (نا طاقتی) کے لئے مفید ہے۔
*
جریان خون کو روکنے والی حابس عروق ادویہ میں شامل ہے۔
*
شہد میں ایک خاص پروٹین (کمی مادہ) جو شہد کی مکھیوں سے نکلتا ہے، شامل ہے۔
*
سینے سے بلغم خارج کرنے، گرم پانی یا بارلی (جو) میں ملا کر بلغمی کھانسی اور دمہ میں استعمال ہوتا ہے۔
*
شہد انسانی جسم میں حرارت کو بڑھا کر دوران خون کو تیز کرتا اور خون صاف کرتا ہے۔
*
شہد کا استعمال زیابیطس میں نقصان دہ نہیں کیونکہ اس میں
Velulose
ہوتا ہے۔
*
منہ اور حلق کی خشکی میں اور تغذیہ کے لئے بطور نیوٹریشن استعمال ہوتا ہے۔ زیادہ مقدار میں ملین ہے۔
*
شہد جسم سے فاسد مادوں کو نکالنے کے لئے زہریلے اثرات چے بچاتا ہے۔
خالص شہد کی پہچان
بہترین شہد ربیع کا ہے۔ اس کے بعد موسم گرما کا اور پھر سردی کا۔ اطباء اس امر پر متفق ہیں کہ یہ بہترین ٹانک ہے۔
لوگوں نے شہد کی پہچان کے لئے کئی طریقے مشہور کئے ہیں۔ ایک میں نمک کی ڈلی شہد میں ملاتے ہیں۔ اگر شہد نمکین ہو جائے تو ملاوٹ
ہے۔ خالص شہد میں نمک حل نہیں ہوتا۔ ٹیسٹ غلط نہیں لیکن شہد میں 25 فیصدی پانی بھی ہوتا ہے جس میں نمک حل ہو سکتا ہے، لٰہذا
ذائقہ نمکین ہو جانے کے باوجود شہد خالص ہو سکتا ہے۔
کہتے ہیں کہ خالص شہد روٹی پر لگا کر کتے کو کھلایا جائے تو کتا شہد نہیں کھاتا جبکہ شیرہ کھا لیتا ہے۔ یہ بھی کوئی معیار نہیں کیونکہ
عین ممکن ہے کہ کتا کسی وقت کھانے کے موڈ ہی میں نہ ہو۔ جس کا غلط مطلب نکل سکتا ہے۔
شہد آسانی سے پانی میں حل نہیں ہوتا۔ جب خالص شہد قطرہ قطرہ پانی کے پیالہ میں ٹپکایا جائے تو یہ قطرے ثابت وسالم پیندے تک چلے
جاتے ہیں جبکہ شربت یا شیرہ کا قطرہ پیندے تک جانے سے پہلے ٹوٹ کر حل ہو جاتا ہے۔
ANY OF TYPING ERRORS'D BE REPORTED
Bookmarks