رہائی تو رہائی ہے کہیں سے ہو
مگر خود سے رہائی کا عجب اک لطف ہوتا ہے
کہ انساں خود سے ملتا ہے تو پھر جی بھر کے سوتا ہے
رہائی تو رہائی ہے کہیں سے ہو
مگر خود سے رہائی میں عجب سی ایک لذت ہے
خود اپنی اس پرستش سے نکلنا ہی محبت ہے
رہائی تو رہائی ہے کہیں سے ہو
مگر خود سے رہائی میں عجب اک چین ملتا ہے
انہی غمناک آنکھوں میں گلابی پھول کھلتا ہے
رہائی تو رہائی ہے کہیں سے ہو
مگر خود سے رہائی میں تصور ہے جہانوں کا
میری یہ سوچ کرتی ہے سفر کتنے زمانوں کا
رہائی تو رہائی ہے کہیں سے ہو
مگر خود سے رہائی میں نہیں ہے قید دنیا کی
کہ پھر اپنی صفائی میں نہیں ہے قید دنیا کی
رہائی تو رہائی ہے۔۔۔ کہیں سے ہو
Bookmarks