Source: http://qaseemhaider.sitesled.com/vastuniverse.html
پرانے زمانے میں خیال کیا جاتا تھا کہ کائنات بس اتنی ہی جتنی سر کی دو آنکھوں سے نظر آتی ہے۔ مگر جدید دور بینوں اور مصنوعی سیاروں سے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں وہ مبالغے کی حد تک حیران کن ہیں۔
ہماری زمین جو ہمیں اتنی وسیع و عریض نظر آتی ہے، کائنات میں اس کی حیثیت سمندر کے مقابلے میں ایک قطرے سے بھی کم ہے؟ حالانکہ اس کا قطر تقریباً تیرہ ہزار کلومیٹر ہے۔ ہماری زمین،سورج کا ایک سیارہ ہے اور اس کا سورج سے اوسطاً فاصلہ چودہ کروڑ اٹھاسی لاکھ کلومیٹر ہے۔ یہ اپنے مرکز کے گرد سولہ سو کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گھوم رہی ہےاور خلا میں سورج کے گرد ایک لاکھ دس ہزار کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے چکر لگا رہی ہے۔ یعنی دو گھنٹے میں یہ ہمیں لے کر دو لاکھ بیس ہزار کلومیٹر فاصلہ طے کر جاتی ہے اور وہ بھی یوں کہ ہمیں کسی قسم کی حرکت کا احساس تک نہیں ہوتا۔ سورج کے گرد اس کا ایک چکر چھیانوے کروڑ کلومیٹر کا ہوتا ہے اور وہ اسے ایک سال میں مکمل کرتی ہے۔
تازہ تحقیق کے مطابق ہماری زمین کے علاوہ سورج کے خاندان یعنی نظام شمسی میں دس سیارے اور بھی ہیں۔ مشتری Jupiter) ) اس فیملی کا سب سے بڑا سیارہ ہے۔ اس کے حجم کا حال یہ ہے کہ اس میں ہماری زمین جیسی ایک ہزار زمینیں سما سکتی ہیں۔ یہ سورج سے 773280000 کلومیٹر دور ہے۔ دیگر سیارے عطارد (Mercury)، زہرہ (Venus)، مریخ (Mars)، زحل (Saturn)، یورینس (Uranus)، نیپچون (Neptune) اور پلاٹو (Pluto) ہیں۔ پلوٹو کا سورج سے فاصلہ 5872000000 کلومیٹر ہے۔
خود ہمارا یہ سورج جسے ہم روز دیکھتے ہیں اور جو ہمیں ایک معمولی کی طرح دکھائی دیتا ہے، ہماری زمین جیسی چودہ لاکھ زمینوں کو اپنے اندر سمو سکتا ہے۔ یہ بھی ساکن نہیں، بلکہ خلا میں گیارہ لاکھ کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے سفر کر رہا ہے۔ یہ اپنے عظیم حجم کے باوجود ہماری Galaxy، جسے ہم Milky Way کہتے ہیں، کا درمیانے حجم کا ایک ستارہ ہے۔
ہماری اس گلیکسی کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سورج اس کے اندر اپنا ایک چکر گیارہ لاکھ کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے سفر کرتا ہوا پچیس کروڑ سال میں پورا کرتا ہے۔ ہماری اس گلیکسی کا Diameter تقریباً ایک لاکھ نوری سال (Light Years) ہے۔ یعنی اگر ہم ایک ایسا راکٹ یا Space Ship بنا لیں جوایک لاکھ اسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کر سکے تو اسے ہماری گلیکسی کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچنے کے لیے ایک لاکھ سال لگیں گے۔
ہماری گلیکسی میں سورج کے علاوہ ایک سو بلین مزید ستارے ہیں جن میں سے بعض سورج سے کروڑہا گنا بڑے اور ہزارہا گنا زیادہ روشن ہیں مثلاً ستارہ Antaresسورج سے 3500 گنا زیادہ روشن اور اپنے اندر چھ کروڑ سورج سمو سکتا ہے۔ یہ ہم سے تقریباً 330 نوری سال دور ہے۔ اس سے بھی بڑا ایک اور ستارہ Betelgeuse سورج سے 17000 گنا زیادہ روشن اور ہم سے 270 نوری سالوں کی دوری پر ہے۔ Scheat, Riegel, W. Cephai, Aurigai اور Hereules ہماری گلیکسی کے ان سے بھی بڑے ستارے ہیں، انھیں Super gaints کہتے ہیں۔ ان سے کروڑہا کلومیٹر بلند اٹھنے والے شعلے اللہ تعالی کی جلالی قدرت کے مظہرہیں۔ اگر ان ستاروں کو سورج کی جگہ پر رکھ دیا جائے تو نہ صرف ہماری دنیا بلکہ ہمارے سارے نظام شمسی میں سوائے آگ کے کچھ نہ ہو۔ مثلاً اگر Scheat کو سورج کے مقام پر رکھ دیا جائے تو زہرہ اس کے محیط میں آجائے اور اگر Betelguse سورج کی جگہ آجائے تو ہماری زمین اور مریخ کو اپنے اندر نگل لے اور اگر Aurgai سورج کے مقام پر آجائے تو سیارہ uranus اس کے محیط میں آجائے گا۔ یعنی سورج سے لے کر یورینس تک آگ ہی آگ ہوگی اور نظام شمسی کی آخری حدود تک شعلے ہی شعلے ہوں گے۔
انسان ان اجرام فلکی کے حجم، چمک اور رفتار کے تصور سے کانپ جاتا ہے۔ ان کی تخلیق کے متعلق سوچنے لگیں تو عقل ساتھ نہیں دیتی، ذرا فاصلوں پر غور کریں تو اگر ہم روشنی کی رفتار (جو دو لاکھ ستانوے ہزار چھ سو کلومیٹر فی سیکنڈ ہے) سے سفر کریں تو بھی اپنی ساری زندگی میں ان تک نہیں پہنچ سکتے۔ ان میں سے بعض ستارے بغیر کسی دوربین کے آسمان پر چمکتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ چونکہ ہمیں ان کی عظمت کا علم نہیں، لہذا وہ ہمارے لیے محض ایک معمولی نقطہ ہوتے ہیں۔
قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ ہم عقل استعمال کرکے اپنے گردوپیش میں بکھرے مظاہر قدرت کی حقیقت کو جاننے کی سعی کریں۔ چونکہ اس کے بغیر نہ ان سب کو بنانے والی ہستی کی عظمت کا ہمیں شعور ہو سکے گا نہ ہم اس کی صحیح معرفت حاصل کر سکیں گے اور نہ اس سے اتنا ڈریں گے جتنا کہ اس سے ڈرنا چاہیے:
سورۃ یونس کی آیت 101میں کائنات میں غوروفکر کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا
'' کہو ذرا اس کو دیکھو تو سہی جو آسمان اور زمین میں ہے، جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے لیئے نشانیاں اور ڈراوا کیا فائدہ دے سکتی ہیں''
یہ اعداد و شمار صرف ہماری کہکشاں کے 100 بلین ستاروں میں سے چند ایک کے ہیں جس کے پیمانے بھی شاید ہماری محدود عقل میں آنے مشکل ہیں۔ اس سے آگے چلیں تو خود ہماری کہکشاں کا کائنات میں کوئی مقام نہیں ہے۔ ہم اپنی کہکشاں کے علاوہ محض آنکھ سے مزید تین کہکشائیں دیکھ سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک Andromeda ہے جو ہم سے اکیس لاکھ اسی ہزار نوری سال دور ہے۔ یہ ہماری کہکشاں سے ڈھائی گنا بڑی ہے۔ یعنی اس میں ستاروں کی تعداد ڈھائی سو بلین ہے۔
اس کائنات میں اربوں کہکشائیں ایسی بھی ہیں جنھیں محض عام انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا، بلکہ انھیں دیکھنے کے لیے انتہائی طاقت ور دوربینیں درکار ہیں۔ یہ ایک دوسرے کے قریب نہیں، بلکہ ان کے درمیان لاکھوں کروڑوں نوری سال کے فاصلے ہیں۔ یہ تمام کہکشائیں ساکن نہیں، بلکہ اپنے مرکز کے گرد گھوم رہی ہیں اور خلا میں چل بھی رہی ہیں۔ ان میں سے بعض کی رفتار کروڑ ہا میل فی گھنٹا ہے اور یہ ہم سے لاکھوں کروڑوں نوری سال دور ہیں۔ ان لاتعداد کہکشاؤں کے گھومنے اور ناقابل تصور رفتار سے سفر کرنے کا جادوئی منظر دوربینوں کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنی دوربینیں لے کر اس فاصلے کے آخر تک پہنچ جائیں تو تب بھی یہی نظارہ ہوگا اور اس سے آگے بھی یہی نظارہ ہوگا، کیونکہ کائنات میں مسلسل وسعت ہو رہی ہے۔ انسانی علم ترقی کرتے کرتے، اس صدی میں پہنچ کر یہ چیزیں بیان کرنے کے قابل ہوا ہے، لیکن قرآن مجید نے پندرہ سو سال پہلے ہی یہ اطلاع ہمیں دے دی تھی:
"اور آسمان کو ہم نے بنایا قدرت کے ساتھ اور ہم بڑی ہی وسعت رکھنے والے ہیں۔"
(الذاریات 51:47)
یہ ہے اس کائنات کے پیمانوں کا ہلکا سا عکس، جو انسان بھی اس بے پایاں قوت، حیرت انگیز رفتار اور نور کے سیلاب پر غور کرے گا، وہ یقینا پکار اٹھے گا:
"اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ کارخانہ بے مقصد نہیں بنایا۔ تو اس بات سے پاک ہے کہ کوئی عبث کام کرے، سو تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔"
(آل عمران 3:191)
پھرانسان کا دل کانپنے لگے گا اور اس کے لیے یہ یقین کرنا قطعاً مشکل نہ رہے گا کہ اصل زندگی واقعی پردے کے پیچھے آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہے، جسے ممکن بنانے والا کوئی ہماری طرح کا انسان نہیں، بلکہ وہ ہستی ہے جس نے یہ حیرت انگیز کائنات بنائی ہے۔
یہ سب کچھ دیکھ کر ایک سلیم الفطرت آدمی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتاہے کہ یقینًا یہ نظام ایک مقتدر اور طاقت ور ہستی کی زیر نگرانی ہی چل سکتاہے۔ اگر یہ خود بخود ہو رہا ہوتا تو اتنی درستگی اور توازن ممکن نہ تھا۔ علاوہ ازیں بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسے چلانے والا ایک ہی ہے۔ایک سے زیادہ چلانے والوں کی صورت میں یہاں جنگ و جدل برپا رہتا مگر یہاں کا امن، سکون اورہر ایک کی اطاعت و فرمانبرداری شہادت دیتی ہے کہ ان کا الٰہ اور معبود ایک ہی ہے۔
اس میں ان لوگوں کے لیے بھی سوچنے کا سامان ہے جن کے خیال میں اللہ تعالٰی نے اپنے اولیاء کو نائب بنا کر مختلف علاقے سونپ دیئے ہیں یا حاجتیں پوری کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ میرے بھائی! جو اللہ اتنی بڑی کائنات بنا سکتا ہے وہ بلا شرکتِ غیرے اسے چلا بھی سکتا ہے اور بلاشبہ اکیلا ہی چلاتا ہے۔
www.harunyahya.com , www.humsubdost.org حوالہ جات:
Bookmarks