جو بھی دکھ یاد نہ تھا یاد آیا
آج کیا جانئے کیا یاد آیا
پھر کوئی ہاتھ ہے دل پر جیسے
پھر ترا عہد وفا یاد آیا
جس طرح دھند میں لپٹے ہوئے پھول
ایک اک نقش ترا یاد آیا
ایسی مجبوری کے عالم میں کوئی
یاد آیا بھی تو کیا یاد آیا
اے رفیقو سر منزل جا کر
کیا کوئی آبلہ پا یاد آیا
یاد آیا تھا بجھڑنا تیرا
پھر نہیں یاد کہ کیا یاد آیا
جب کوئی زخم بھرا داغ بنا
جب کوئی پھول گیا یاد آیا
یہ محبت بھی ہے کیا روگ فراز
جس کو پھولے وہ سدا یاد آیا
Bookmarks