کبھی ضد میں تیرے ہوگئے
کبھی دل نے تجھ کو گنوادیا
اسی کشمکش میں جئے ہم
تونے یاد رکھا یا بھلا دیا
کبھی بے بسی میں ہنس دئے
کبھی ہنسی نے بھی رلادیا
کبھی پھول سے رہی بے رخی
کبھی کانٹوں سے ہاتھ ملالیا
کبھی ایک کو اپنا نہ کرسکے
کبھی خود کو سب کا بنا لیا
جو ملا نہیں وہ میرا ہوا
جو پالیا اسے کھودیا
یہ عجیب کھیل ہیں پیار کے
ایک خیال سے ہی نبھالیا
ہے عجیب اپنی زندگی جسے
دنیا نے مذاق بنا دیا
Bookmarks