بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم دوستو
زندگی ۔۔۔ ایک تماشا
۔۔۔ دنیا کی یہ زندگانی تو محض کھیل تماشا ہے ، البتہ سچی زندگی تو آخرت کا گھر ہے ۔۔۔
۔( العنکبوت : ٦٤)۔
اِن آیات سے یہ مراد نہیں کہ چونکہ دنیا کی زندگی عارضی اور کھیل تماشا ہے لہذا اسے چھوڑ کر ایک طرف ہو جانا چاہئے۔ بلکہ اصل مراد یہ ہے کہ دنیا کی زندگی بہت چھوٹی ہے اور اس کے مقابلے میں آخرت کا گھر ہمیشہ رہنے والا اور بڑا پائیدار ہے۔ یہ چھوٹی سی دنیوی زندگی تو اس لیے عطا کی گئی ہے کہ اُس دائمی زندگی کے لیے سامان کر لیں۔
اب اگر ہم اِس چھوٹی سی زندگی ہی کو منزلِ مقصود بنا کر بیٹھ گئے تو پھر جب یہ ختم ہو جائے گی اور وہ ہمیشہ رہنے والی زندگی شروع ہوگی ۔۔۔ جس کے لیے کچھ تیاری نہ کی ہوگی تو ۔۔۔ سوچئے کہ ۔۔۔ کیسی حسرت و ندامت ہوگی کہ ہم ذریعے کو مقصود بنائے رہے اور مقصود کو بھولے بیٹھے رہے۔
چنانچہ باری تعالیٰ کا فرمان ہے ؛
۔> ۔۔۔ اور (اچھی) آخرت تو آپ کے رب کے نزدیک (صرف ) پرہیزگاروں کے لیے (ہی) ہے۔
( الزخرف : ٣٥ )
پھر فرمایا ؛
۔> ۔۔۔ اور آخرت تو درجوں کی تمیز میں اور بھی بڑھ کر ہے اور فضیلت کے اعتبار سے بھی بہت بڑی ہے۔
( بنی اسرائیل: ٢١ )
مزید فرمایا ؛
۔> ۔۔۔ اور جس کا ارادہ آخرت کا ہو اور جیسی کوشش اس کے لیے ہونی چاہئے ، وہ کرتا بھی ہو اور وہ باایمان بھی ہو ، پس یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی اللہ کے ہاں پوری قدردانی کی جائے گی۔
( بنی اسرائیل: ١٩ )
درحقیقت دنیوی زندگی بڑی مختصر زندگی ہے۔
اپنی کوتاہیوں کے باعث ہم اسے نہ صرف لمبی بلکہ شاید دائمی ہی سمجھتے رہتے ہیں لیکن ۔۔۔ جب یہ دنیوی زندگی ختم ہو جائے گی اور جب آخرت کے احوال پیش آئیں گے تو اُس وقت اِس دنیوی زندگی کا مختصر ہونا صحیح طور پر ذہن نشین ہو جائے گا۔
Bookmarks