.
آغاز تو ہوتا ہے انجام نہیں ہوتا
جب میری کہانی میں وہ نام نہیں ہوتا
جب زلف کی کالک میں گھل جائے کوئی راہی
بدنام سہی لیکن گمنام نہیں ہوتا
ہنس ہنس کے جواں دل کے ہم کیوں نہ چنیں ٹکڑے
ہر شخص کی قسمت میں انعام نہیں ہوتا
بہتے ہوئے آنسو نے آنکھوں سے کہا تھم کر
جو مئے سے پگھل جائے وہ جام نہیں ہوتا
دل ڈوبے ہیں یا ڈوبی بارات لئے کشتی
ساحل پہ مگر کوئی کہرام نہیں ہوتا
Bookmarks