ہاں عام طور پر بہت سےلوگوں میں یہ الجھن پائی جاتی ہے کہ نماز کے دوران انہیں مختلف خیالات بہت آتے ہیں اور ان کی توجہ نماز میں یکسو نہیں ہوتی۔ تو اسی توجہ اور خشوع و خضوع کو پیدا کرنے کے لیے اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے یہ طریقہ بتایا ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم یہ یقین رکھو کہ اللہ یقینًا تمہیں دیکھ رہا ہے۔ جب انسان کے اندر یہ یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہے ہیں، اس کی نگرانی فرما رہے ہیں، اس کی ایک ایک حرکت حتی کہ قلب و ذہن کے خیالات بھی اس کے علم میں ہیں تو انسان کے اندر خود بخود عبادت میں یکسوئی پیدا ہو جاتی ہے، ادھر ادھر کے وساوس چھٹ جاتے ہیں۔ اللہ کی طرف دھیان بہت بڑھ جاتا ہے۔ اس توجہ اور خشوع و خضوع سے پھر اللہ کے ذکر اور اللہ کی عبادت میں لذت بھی بہت بڑھ جاتی ہے۔ پھر ایسا نہیں ہوتا کہ انسان نماز کے لیے آئے اور ہاتھ باندھتے ہی ہزار ہا قسم کے خیالات میں کھو جائے۔ اسے کچھ پتہ نہ ہو کہ امام نے کون سی سورت پڑھی ہے، کون سی رکعت چل رہی ہے۔ بس ایسے کھڑا ہو جیسے اسے مجبورًا کسی نے نماز کے لیے باندھ دیا ہو۔ یا مشینی انداز میں اپنی حرکات کرے اور چلا جائے۔ جب اللہ کی نگرانی کا یقین ہو جائے تو پھر انسان کی یہ حالت نہیں رہتی۔ اس کی عبادت رسمی نہیں ہوتی، روح سے خالی نہیں ہوتی۔ انسان کا تعلق اللہ سے جس قدر مضبوط ہو گا، اللہ سے محبت جس قدر زیادہ ہو گی، اس کی نگرانی کا یقین جس قدر زیادہ ہو گا اسی قدر اس کی عبادت میں لذت بڑھتی جائے گی۔
جو لوگ نماز کو محض اٹھک بیٹھک بنا لیتے ہیں اور بڑی تیزی سے رکعتیں پوری کرتے ہیں بھاگ اٹھتے ہیں، انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی نماز درست نہیں ہوتی۔ بخاری و مسلم میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے سامنے ایک شخص نے ایسے ہی نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اسے فرمایا "فصل فانک لم تصل" تو نماز پڑھ ابھی تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ دوبارہ نماز پڑھنے لگ گیا۔ نماز پڑھ کر پھر آ کر سلام کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا "فصل فانک لم تصل" نماز پڑھ، ابھی تو نے نماز نہیں پڑھی۔ اس نے تیسری مرتبہ پھر ویسے ہی نماز پڑھی ، آکر سلام کہا، نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اورفرمایا فصل فانک لم تصل۔ تو اب اس نے کہا "اے اللہ کے رسول، مجھے نماز سکھا دیجیے"۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اسے نماز کے ایک ایک رکن کی ادائیگی کا طریقہ سکھایا کہ ہر رکن کو اس طرح ادا کر کہ جس سے تجھ میں پوری طرح اطمینان (ٹھہراؤ) پیدا ہو جائے۔ تو رکوع میں ہو یا سجدے میں، ہر رکن پورے اطمینان سے ادا کر۔ دو سجدوں کے درمیان بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اطمینان سے بیٹھنے کا حکم دیا لیکن ہمارے ہاں کسی رکن کی اچھے طریقے سے ادائیگی کا کوئی اہتمام نہیں۔ بڑی تیزی سے رکعتیں ادا کرتے ہیں۔ اگر امام کے پیچھے ہوں تو کئی نمازی امام کے برابر چلتے ہیں اور کئی تو ہر رکن میں امام کو بھی پیچھے چھوڑتے چلے جاتے ہیں جو کہ جائز نہیں۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ امام سے پہلے وہ نماز سے فارغ تو نہیں ہو سکتے پھر نماز میں اس قدر تیزی کا کیا فائدہ کہ اپنی نماز کا حلیہ بھی بگاڑا، اجر بھی گنوایا اور امام سے پہلے فارغ بھی نہ ہو سکے۔ نماز میں امام کےساتھ برابری نہ کرنی چاہیے اور نہ اس سے آگے بڑھنا چاہیے۔ نماز جلدی جلدی ادا کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے نماز میں کوے کی طرح ٹھونگیں مارنے سے منع فرمایا (ابوداؤد، مسند احمد)۔
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ہمیں اپنی عبادتوں میں خشوع و خضوع پیدا کرنے کا جو طریقہ بتایا ہے، آئیے اسے اختیار کر کے اپنی عبادت کو ضائع ہونے سے بچا لیں۔ وہ طریقہ یہی ہے جیسا کہ حدیث میں وضاحت سے بتایا گیا کہ اللہ کی عبادت اس طرح کریں کہ گویا اللہ کو دیکھ رہے ہیں یا کم از کم یہ یقین پیدا کر لیں کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے اور ہماری ایک ایک حرکت اس کی نگا ہ میں ہے۔ ان شاء اللہ جب یہ یقین پیدا ہو گا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے طریقے کے مطابق عبادت ہو گی تو ا س میں خود بخود خشوع و خضوع، توجہ دھیان اور حسن پیدا ہو گا اور یہی عبادت میں احسان ہے۔
Bookmarks