تحریر : ایم مبین


رہائی


دونوں چپ چاپ پولیس اسٹیشن کے کونےمیں رکھی ایک بنچ پر بیٹھےصاحب کےآنے کا انتظار کر رہےتھے۔ انہیں وہاں بیٹھےتین گھنٹے ہو گئے تھے۔ دونوں میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ ایک دوسرے سےباتیں کریں ۔ جب بھی دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے اور دونوں کی نظریں ملتیں تو وہ ایک دوسرے کو مجرم تصور کرتے۔
دونوں میں سےقصور کس کا تھا وہ خود ابھی تک یہ طےنہیں کر پائےتھے۔ کبھی محسوس ہوتا وہ مجرم ہیں کبھی محسوس ہوتا جیسےایک کے گناہ کی پاداش میں دوسرے کو سزا مل رہی ہے۔ وقت گذاری کے لئے وہ اندر چل رہی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے۔ ان کے لئے یہ جگہ بالکل اجنبی تھی ۔ دونوں کو یاد نہیں آ رہا تھا کہ کبھی انہیں کسی کام سےبھی اس جگہ یا ایسی جگہ جانا پڑا تھا ۔ یا اگر کبھی جانا پڑا ہو گا تو بھی وہ مقام ایسا نہیں تھا ۔
سامنے لاک اپ تھا ۔ پانچ چھ آہنی سلاخوں والےدروازے اور ان دروازوں کے چھوٹے چھوٹے کمرے۔ ہر کمرےمیں آٹھ دس افراد بند تھے۔ کوئی سو رہا تھا تو کوئی اونگھ رہا تھا ‘ کوئی آپس میں باتیں کر رہا تھا تو کوئی سلاخوں کے پیچھے سے جھانک کر کبھی انہیں تو کبھی پولس اسٹیشن میں آنےجانےوال ے سپاہیوں کو دیکھ کر طنزیہ انداز میں مسکرا رہا تھا ۔
ان میں سےکچھ کے چہرے اتنے بھیانک اور کرخت تھے کہ انہیں دیکھتےہی اندازہ ہو جاتا تھا کہ ان کا تعلق جرائم پیشہ افراد سے ہے یا وہ خود جرائم پیشہ ہیں ۔ لیکن کچھ چہرے بالکل ان سے ملتے جلتے تھے۔ معصوم بھولے بھالے ۔ سلاخوں کے پیچھےسے جھانک کر بار بار وہ انہیں دیکھ رہےتھے۔ جیسےان کےاندر تجسس جاگا ہے۔ ” تم لوگ شاید ہماری برادری سےتعلق رکھتے ہو ۔ تم لوگ یہاں کیسے آن پھنسے؟ “وہ جب بھی ان چہروں کو دیکھتے تو دل میں ایک ہی خیال آتا کہ صورت شکل سے تو یہ بھولےبھالے معصوم اور تعلیم یافتہ لوگ لگتے ہیں یہ کیسے اس جہنم میں آن پھنسے۔
باہر دروازے پر دو بندوق بردار پہرہ دے رہے تھے۔ لاک اپ کے پاس بھی دو سپاہی بندوق لئے کھڑے تھے ۔ کونے والی میز پر ایک وردی والا مسلسل کچھ لکھ رہا تھا ۔ کبھی کوئی سپاہی آ کر اس کی میز کےسامنے والی کرسی پر بیٹھ جاتا تو وہ اپنا کام چھوڑ کر اس سے باتیں کرنےلگتا ۔ پھر اس کےجانے کے بعد اپنےکام میں مشغول ہو جاتا تھا ۔
اس کےبازو میں ایک میز خالی پڑی تھی ۔ اس میز پر دونوں کے بریف کیس رکھے ہوئے تھے۔ ان کےساتھ اور بھی لوگ ریلوے اسٹیشن سے پکڑ کر لائے گئےتھے ان کا سامان بھی اسی میز پر رکھا ہوا تھا ۔ وہ لوگ بھی ان کےساتھ ہی بینچ پر بیٹھےتھے لیکن کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ ایک دوسرے سے باتیں کر سکے۔ ایک دو بار ان میں سےکچھ لوگوں نے آپس میں باتیں کرنےکی کوشش کی تھی ۔ اسی وقت سامنے کھڑا سپاہی گرج اٹھا ۔
” اےخاموش! آواز مت نکالو ‘ شور مت کرو ۔ اگر شور کیا تو لاک اپ میں ڈال دوں گا ۔ “ اس کے بعد ان لوگوں نےسرگوشی میں بھی ایک دوسرے سے باتیں کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ سب ایک دوسرے کے لئے اجنبی تھے۔ یا ممکن ہےایک دوسرے کےشناسا ہوں جس طرح وہ اور اشوک ایک دوسرے کےشناسا تھے۔ نا صرف شناسا بلکہ دوست تھے۔ ایک ہی آفس میں برسوں سے کام کرتے تھے اور ایک ساتھ ہی اس مصیبت میں گرفتار ہوئے تھے۔
آج جب دونوں آفس سے نکلے تھے تو دونوں نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا کہ اس طرح مصیبت میں گرفتار ہو جائیں گے۔
آفس سے نکلتے ہوئے اشوک نےکہا تھا ۔ ” میرےساتھ ذرا مارکیٹ چلو گے؟ ایک چُھری کا سیٹ خریدنا ہے۔ بیوی کئی دنوں سےکہہ رہی ہے لیکن مصروفیات کی وجہ سےمارکیٹ تک جانا نہیں ہو رہا ہے۔ “
” چلو! “ اس نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا ۔ مجھےسات بجےکی تیز لوکل پکڑنی ہےاور ابھی چھ بج رہے ہیں ۔ اتنی دیر میں ہم یہ کام نپٹا سکتے ہیں ۔ “ وہ اشوک کےساتھ مارکیٹ چلا گیا تھا ۔
ایک دوکان سے انہوں نےچُھریوں کا سیٹ خریدا تھا ۔ اس سیٹ میں مختلف سائز کی آٹھ دس چُھریاں تھیں ۔ ان کی دھار بڑی تیز تھی اور دوکاندار کا دعویٰ تھا روزانہ استعمال کے بعد بھی دو سالوں تک ان کی دھار خراب نہیں ہو گی کیونکہ یہ اسٹین لیس اسٹیل کی بنی ہوئی ہیں قیمت بھی واجب تھی ۔
قیمت ادا کر کے اشوک نے سیٹ اپنی اٹیچی میں رکھا اور وہ باتیں کرتے ہوئے ریلوے اسٹیشن کی طرف چل دیئے۔ اسٹیشن پہنچے تو سات بجنے میں بیس منٹ باقی تھے دونوں کی مطلوبہ تیز لوکل کے آنے میں پورے بیس منٹ باقی تھے۔
فاسٹ ٹرین کے پلیٹ فارم پر زیادہ بھیڑ نہیں تھی دھیمی گاڑیوں والے پلیٹ فارم پر زیادہ بھیڑ تھی لوگ شاید بیس منٹ تک کسی گاڑی کا انتظار کرنے کی بہ نسبت دھیمی گاڑیوں سے جانا پسند کر رہےتھے۔
اچانک وہ چونک پڑے۔ پلیٹ فارم پر پولیس کی پوری فورس ابھر آئی تھی ۔ اور اس نے پلیٹ فارم کے ہر فرد کو اپنی جگہ ساکت کر دیا تھا ۔ دو دو تین تین سپاہی آٹھ آٹھ دس دس افراد کو گھیرے میں لے لیتے ان سےپوچھ تاچھ کر کےان کےسامان اور سوٹ کیس ‘ اٹیچیوں کی تلاشی لیتےکوئی مشکوک مطلوبہ چیز نہ ملنےکی صورت میں انہیں جانےدیتے یا اگر انہیں کوئی مشکوک یا مطلوبہ چیز مل جاتی تو فوراً دو سپاہی اس شخص کو پکڑ کر پلیٹ فارم سےباہر کھڑی پولیس جیپ میں بٹھا آتے۔
انہیں بھی تین سپاہیوں نےگھیر لیا تھا ۔
” کیا بات ہےحوالدار صاحب ؟ “ اس نے پوچھا ۔ ” یہ تلاشیاں کس لئے لی جا رہی ہیں ؟ “
” ہمیں پتہ چلا ہے کہ کچھ دہشت گرد اس وقت پلیٹ فارم سےاسلحہ لے جا رہےہیں ۔ انہیں گرفتار کرنےکے لئے یہ کاروائی کی جا رہی ہے۔ “ سپاہی نےجواب دیا۔
وہ کل آٹھ لوگ تھے جنہیں ان سپاہیوں نےگھیرے میں لے رکھا تھا ان میں سےچار کی تلاشیاں ہو چکی تھیں اور انہیں چھوڑ دیا گیا تھا ۔ اب اشوک کی باری تھی ۔
جسمانی تلاشی لینے کے بعد اشوک کو بریف کیس کھولنے کے لئے کہا گیا ۔ کھولتے ہی ایک دو چیزوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنےکے بعد جیسے ہی ان کی نظریں چُھریوں کےسیٹ پر پڑیں وہ اچھل پڑے۔ ” باپ رے اتنی چُھریاں ؟ صاب ہتھیار ملے ہیں ۔ “ ایک نے آواز دے کر تھوڑی دور کھڑے انسپکٹر کو بلایا ۔
” حوالدار صاحب یہ ہتھیار نہیں ہیں ۔ سبزی ترکاری کاٹنے کی چھریوں کا سیٹ ہے۔ “ اشوک نےگھبرائی ہوئی آواز میں انہیں سمجھانے کی کوشش کی ۔
” ہاں حوالدار صاحب ! یہ گھریلو استعمال کی چُھریوں کا سیٹ ہے ہم نے ابھی بازار سےخریدا ہے۔ “ اس نے بھی اشوک کی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی ۔
” تو تُو بھی اس کےساتھ ہے‘ تُو بھی اس کا ساتھی ہے؟“ کہتے ہوئے ایک سپاہی نےفوراً اسے دبوچ لیا ۔ دو سپاہی تو پہلے ہی اشوک کو دبوچ چکے تھے۔ ” ہم سچ کہتے ہیں حوالدار صاحب ! یہ ہتھیار نہیں ہیں یہ گھریلو استعمال کی چُھریوں کا سیٹ ہے۔ “ اشوک نے ایک بار پھر ان لوگوں کو سمجھانےکی کوشش کی ۔
” چپ بیٹھ ! “ ایک زور دار ڈنڈا اس کےسر پر پڑا ۔
” حوالدار صاحب ! آپ مار کیوں رہےہیں ؟ “ اشوک نے احتجاج کیا ۔
” ماریں نہیں تو کیا تیری پُوجا کریں ۔ یہ ہتھیار ساتھ میں لئے پھرتا ہے۔ دنگا فساد کرنے کا ارادہ ہے۔ ضرور تیرا تعلق ان دہشت پسندوں سے ہو گا ۔ “ ایک سپاہی بولا اور دو سپاہی اس پر ڈنڈے برسانے لگے۔ اس نےاشوک کو بچانےکی کوشش کی تو اس پر بھی ڈنڈے پڑنے لگے۔ اس نےعافیت اسی میں سمجھی کہ وہ چپ رہے۔ دو چار ڈنڈے اس پر پڑنے کے بعد میں ہاتھ رک گیا ۔ لیکن اشوک کا برا حال تھا ۔ وہ جیسے ہی کچھ کہنے کے لئے منہ کھولتا اس پر ڈنڈے برسنے لگتےاور مجبوراً اسےخاموش ہونا پڑتا ۔
” کیا بات ہے؟“ اس درمیان انسپکٹر وہاں پہنچ گیا جسےانہوں نےآواز دی تھی ۔
” صاب اس کے پاس ہتھیار ملے ہیں ۔ “
” اسےفوراً تھانےلےجاؤ ۔ “ انسپکٹر نےآرڈر دیا اور دوسری طرف بڑھ گیا ۔ چار سپاہیوں نےانہیں پکڑا اور گھسیٹتے ہوئے پلیٹ فارم سےباہر لےجانے لگے۔ باہر ایک پولیس جیپ کھڑی تھی۔ اس جیپ میں انہیں بٹھا دیا گیا اس جیپ میں اور دوچار آدمی بیٹھے تھے۔ ان سب کو چار سپاہیوں نے اپنی حفاظت میں لے رکھا تھا ۔ اسی وقت جیپ چل پڑی ۔
” آپ لوگوں کو کس الزام میں گرفتار کیا گیا ہے؟ “ جیسےہی ان لوگوں میں سےایک آدمی نےان سے پوچھنے کی کوشش کی ایک سپاہی کا فولادی مکہ اس کےچہرے پر پڑا ۔
” چپ چاپ بیٹھا رہ نہیں تو منہ توڑ دوں گا ۔ “ اس آدمی کے منہ سےخون نکل آیا تھا وہ اپنا منہ پکڑ کر بیٹھ گیا اور منہ سےنکلتےخون کو جیب سےرومال نکال کر صاف کرنے لگا ۔
پولیس اسٹیشن لا کر انہیں اس کونے کی بینچ پر بٹھا دیا گیا اور ان کا سامان اس میز پر رکھ دیا گیا جو شاید انسپکٹر کی تھی ۔ جب وہ پولس اسٹیشن پہنچے تو مسلسل لکھنے والے نے لانے والے سپاہیو ں سے پوچھا ۔
” یہ لوگ کون ہیں ؟ انہیں کہاں سےلا رہے ہو ؟ “
” ریلوےاسٹیش ن پر چھاپےکےدور ان پکڑے گئےہیں ان کے پاس سے مشکوک چیزیں یا ہتھیار برآمد ہوئے ہیں ۔ “
” پھر انہیں یہاں کیوں بٹھا رہے ہو ؟ انہیں لاک اپ میں ڈال دو ۔ “
”صاحب نےکہا ہے کہ انہیں باہر بٹھا کر رکھو وہ آ کر ان کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔“ بینچ پر بٹھانے سے پہلے ان کی اچھی طرح تلاشی لی گئی تھی ۔ کوئی مشکوک چیز برآمد نہیں ہوئی یہی غنیمت تھا ۔ ان کی پولیس اسٹیشن آمد کی تھوڑی دیر بعد دوسرا جتھا پولیس اسٹیشن پہنچا ۔ وہ بھی آٹھ دس لوگ تھےشاید انہیں کسی دوسرے انسپکٹر نے پکڑا تھا اس لئے انہیں دوسرے کمرے میں بٹھایا گیا اور بھی اس طرح کے کتنے لوگ لائے گئے انہیں اندازہ نہیں تھا کیونکہ وہ صرف اس کمرے کی سرگرمیاں دیکھ پا رہے تھے جس میں وہ مقیّد تھے۔
نئےسپاہی آتےتو ان پر ایک اچٹتی نظر ڈال کر اپنےدوسرے ساتھیوں سے پوچھ لیتے۔ ” یہ کہاں سے پکڑے گئے ہیں ۔