عشق ہی تو ہے جو بصارت کو بصیرت میں۔ ۔ ۔ وحشت کو عبادت میں ۔ ۔ ۔ عداوت کو رضاعت میں یوں تبدیل کرتا ہے کہ عمر کے منظرنامے پر نئے رنگوں کے نقش بننے لگتے ہیں۔ زرد پھولوں کی بارش بھی ہوا کے آنچل پر اپنے لمس کے انگار اس طرح چھوڑ جاتی ہے کہ روح کے رخسار ان کی نرمیوں سے دہک اٹھیں۔
بدن کی مٹی میں عشق کا گلاب جڑ پکڑ لیتا ہے تو درویش کا چولا کتنا ہی میلا کیوں نہ ہو اس کا وجدان خوشبو کے معجزے تخلیق کرتا ہے۔ ۔ ۔ روشنی کی آیتیں تحریر کرتا ہے کبھی عروسِ شب کی پیشانی پر تو کبھی بادِ صبح کی حیرانی پر۔ اک کیفیت حال دھمال ہے جو اندر کا الائو بجھنے نہیں دیتی۔ آہوں کی پکھیاں جھلتے سانسوں کی تسبیح ٹوٹنے لگتی ہے۔ ہڈیوں کا بالن بن جاتا ہے۔ پر ہستی میں مستی فقیری میں بادشاہی, نیاز مندی میں بے نیازی کا بھید مل جاتا ہے۔ گویا عشق کا فیض بھی دعا کے فیض کی طرح جلد یا بدیر اپنی تاثیر کی گواہی دیتا ہے اور جب اس کیفیت کا دائرہ شاعر کے گرد بنتا ہے تو لفظ قوت اظہار کے ہم سفر ہو جاتے ہیں۔ یہ ہمسفری خواہ چاند تاروں کی ہو یا شب آثاروں کی اپنے ہنر تو اجاگر کرتی ہے سو شاعری کبھی خیمہ۔ ۔ ۔ میں تو کبھی چاندنی کے جائے نماز پر سجدہ ریز ہو جاتی ہے۔ یہ موسم سعید کے آنگن میں ٹھہرتا ہے تو وہ کہتے ہیں۔
میں آوارہ بادل ہوں
تو ساون کی تیز ہوا
آئو مل کر خوابوں کو تصویر کریں
جب تھک جائیں
قطرہ قطرہ
رم جھم .. رم جھم
خاک میں سوئی خوشبو کو بیدار کریں
رنگوں کو آزاد کریں۔
کون ہے جو راتوں میں خوابوں کا پڑائو نہیں چاہتا مگر یہ کوئی ایسا نگر ہے جو خواہش سے مشروط ہے۔ ہجرو وصال کے جزیروں پر کوئی اور یہ ضابطے ترتیب دینے والا۔ کوئی جذبہ دیوانگی ہے جس کی مدھر ان دیکھی گونگی زنجیریں جو پائوں پڑ جاتی ہیں اور جو سنائی دیں نہ دکھائی پر ان کیلئے وجود کو کہیں تھمنے نہ دے اور رتجگے جو مسکراتے رہیں آنکھوں کی خوشنما حویلیوں میں
ادھر جبیں پہ سنبھلتے نہیں مرے سجدے
اِدھر خدا کا عبادت سے جی نہیں بھرتا
وہ محوِ شوق ہے کب سے مگر مرے اندر
عجب خلا ہے محبت سے جی نہیں بھرتا
شعلہِ غم آتش دل جو بھی ہو
وقت لگتا ہے دھواں ہوتے ہوئے
صحن شعور میں کیا کیا عالم نہیں گزرتے۔کبھی بھیگتی راتوں میں دور تک پھیلے اجنبی ٹیلوں کے درمیان بنتے راستوں پر قافلے اپنا سفر جاری رکھتے ہیں تو کوئی صحرائی آواز کونجوں سے ہم کلام گیت گاتی ہے اور راستے بناتی جاتی ہے جیسے جستجو کی تسخیر کو بصارت مل جائے۔
کبھی بچپن والے با غوں میں پرندوں کے پر اکٹھے کرنے کا جنون ماہ و سال گزرنے کا احساس نہیں ہونے دیتا اور بالوں میں چاندنی ڈھلک جاتی ہے۔ منزل کا نشان تو کیا ہر موڑ پر اک نیا سنگ میل ہوتا ہے جس پر نام لکھوں یا مٹائوں کسے خبر ہونا ہے۔ یہ احساس جب سعید خان کے ہاں قیام کرتا ہے تو لکھتے ہیں
اب ہم کو کسی سے بھی شکایت نہیں رہتی
اس حشر کے آگے تو کوئی قیامت نہیں رہتی
دل اب بھی دھڑکتا ہے ترے نام پہ لیکن
اب دیر تلک کوئی بھی ساعت نہیں رہتی
عمر کے اس آئینہ خانے میں کتنی ہی تصویریں ہیں جنہیں ہاتھ لگائیں تو ہتھیلیوں پر مقدر کی لکیریں پھیکی پڑ جائیں ہونٹ چھو لیں تو پیاس کے صحیفے اتریں۔ ۔ ۔ عجیب ہے قصہ شب و روز بھی۔ کبھی تدبیر کی حیرانی کبھی تکمیل کی جولانی کبھی فتح مندی کا غرور کبھی شکست سے چور چور گمان و یقین ہم رقص نظر آتے ہیں۔ اس پر بھی سعید فیصلہ کن استدلال کے ساتھ کہتے ہیں۔
لب کشا شہرِ ملامت ہے چلو پوچھتے ہیں
ہم سے کس کس کو شکایت ہے چلو پوچھتے ہیں
میری رسوائی پہ چپ میرے شناسائوں کی
بے بسی ہے کہ مروت ہے چلو پوچھتے ہیں
کسی بے درد رفاقت کا نشاں ہے شاید
اس کی آنکھوں میں جو وحشت ہے چلو پوچھتے ہیں
ان کی شاعری میں کناروں کے درمیان بہتے ہوئے دریا کی لہروں کا اطمینان اور سرشاری ہے۔ ایک زخم خوردہ آگاہی اک خوشگوار سادگی اک انا پرست سپردگی ۔ ۔ ۔ دریا جو سیلاب کرتا ہے۔ مگر بے آب کر دینے کے اختیار کے ساتھ۔ غلامی میں بھی طبع حکمرانی سعید کے ہاں غالب ہے۔
وہی ہے دل کی ضرورت جو آس پاس رہے
کسی کے ہجر میں کب تک کوئی اداس رہے
نہ وحشتوں کو رہا ہے خیال رسوائی
نہ کوئے یار کے سنگ آئینہ شناس رہے
نصیب جاں تھے عجب فاصلے محبت میں
نہ اس سے دور رہے ہم نہ اس کے پاس رہے
چند دہائیاں پیشتر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اردو ادب کے عہد ساز شاعر احمد فراز نے عشق میں انانیت پسندی کو جدید فکری تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے شاعری میں ایک تازہ روایت کی بنیاد رکھی۔ پورے قد سے کھڑے مغلوب وفا کا مدلل اور پروقار لب و لہجہ مگر ریشمی جذبہ و احساس سے آراستہ۔اس کے بعد لکھی جانے والی نظم و غزل میں اس اندازکا گہرا اثر ملتا ہے۔ سعید بھی متاثر نظر آتے ہیں مگر اس کو خوب نبھاتے ہیں۔
آنکھوں کو زخم زخم تو دل کو لہو کریں
پھر جی یہ چاہتا ہے تری جستجو کریں
حائل ہیں اپنی راہ میں ہم خود انا پرست
خود کو بھلا سکیں تو تری آرزو کریں
جیسے سب اہلِ شہر مرے غم شناس ہو ں
جب گفتگو کریں تو تری گفتگو کریں
اس حرف آخر کے ساتھ کہ سعید اپنے جنون میں حرف کو لفظ ۔ ۔ ۔ لفظ کو معانی ۔ ۔ ۔ معانی کو کہانی کر دینے کی انفرادیت کے امانتدار ٹھہریں۔