مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 1033 مکررات 0
فرضیت حج کی سعادت عظمی ہمارے آقا سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے ساتھ مختص ہے گو کہنے کو تو حج کا رواج حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے ہے مگر اس وقت اس کی فرضیت کا حکم نہ تھا۔ چنانچہ صحیح مسلک یہی ہے کہ
حج کب فرض ہوا؟ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں، کچھ حضرات کہتے ہیں سن ٥ھجری میں فرض ہوا، اکثر علما سن ٦ھجری میں فرضیت کے قائل لیکن زیادہ صحیح قول ان علماء کا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ حج سن ٩ھ کے آخر میں فرض ہوا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم نازل ہوا وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا۔ یعنی اللہ کی خوشنودی کے لئے لوگوں پر کعبہ کا حج (ضروری ) ہے اور یہ اس شخص پر جو وہاں تک جا سکے۔
چونکہ یہ حکم سال کے آخر میں نازل ہوا تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو فعال حج کی تعلیم میں مشغولیت اور آئندہ سال کے لئے سفرحج کے اسباب کی تیاری میں مصروفیت کی وجہ سے خود حج کے لئے تشریف نہیں لے جاسکے، بلکہ اس سال یعنی سن ٩ھ میں حضرت ابوبکر کو حاجیوں کا امیر مقرر فرماکر مکہ بھیج دیا تاکہ وہ لوگوں کو حج کرادیں اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود سال آئندہ یعنی سن ١٠ھ میں اس حکم الٰہی کی تعمیل میں حج کے لئے تشریف لے گئے یہ عجیب اتفاق ہے کہ فرضیت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی پہلا حج کیا جو آخری حج بھی ثابت ہوا۔ چنانچہ یہی حج " حجۃ الوداع" کے نام سے مشہور ہے اسی حج کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ عالمتاب اور وجود پر نور نے اس دنیا سے پردہ کیا۔