عالمی اور مقامی سطح پر 2010ءمیں بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں لیکن بے یقینی کی کیفیت بھی اپنے عروج پرہے۔ 2009ءکے تناظر میں اگر 2010ءکا جائزہ لیا جائے۔ تو متعدد ممالک کیلئے یہ سال اپنے اندر خطرات سمیٹے ہوئے ہے کچھ ممالک کے لئے خوش بخشی کا سال بھی ہے اور کئی ممالک پیش آئندہ حالات کے سبب افراتفری کا شکار بھی دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً:


پاکستان میں استحکام کا امکان ہے لیکن اگر ممبئی جیسا کوئی دوسرا حملہ ہو گیا تو شائد بھارت اس مرتبہ اپنے غصے کو محص مذاکرات تک محدود نہیں رکھ سکے گا۔

افغانستان سے متعلق رواں سال کسی قسم کی امید لگانا شائد بے سود ہو گا یہ سال افغانستان کیلئے ماضی سے کٹھن ہو سکتا ہے۔

ایران کیلئے اس سال دو سوال اہم ہیں کیا تو منتخب حکومت اپنے عوام پر اتھارٹی اور رٹ قائم کر سکے گی اور کیا اسرائیل اور امریکہ اس کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ تو نہیں کر دینگے۔

عراق کیلئے امریکی قبضے کے بعد سے 2009ءپہلا پرسکون سال گزرا ہے اب 2010ءمیں عراق مکمل طورپر بحال ہو سکتا ہے تاہم خطرات اور غیر یقینی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اسرائیل کے دماے پر اس سال ایران ایٹمی پروگرام مسلط رہے گا اور صہیونی ریاست اس مسئلہ سے نمٹنے کیلئے تمام ذرائع اور آپشنز پر غور کریگی۔

عالمی مالیاتی بحران کے اثرات 2010ءمیں عام لوگوں پر زیادہ شدت سے ظاہر ہونگے۔ دنیا بھر میں مزید 6 کروڑ افراد بیروز گار ہو جائیں گے۔ جس سے سیاسی عدم استحکام جنم لے گا اور اس کے نتیجے میں سماجی شورش اور انتشار جنم لے گا۔

دنیا بھر کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے 2010ءکے نئے احکامات اور خطرات کا جائزہ پیش کیا ہے جس کی بنیاد سائنسی تحقیق اور تجزیہ پررکھی گئی ہے ماہرین کے مابق رواں سال دنیا اقتصادی بحران سے سرنکالنا شروع کر دیگی۔ سوال یہ ہے کہ نیا منظر نامہ کیسا ہو گا؟

۔ امیر ممالک کی حکومتیں قروں اور بیروزگاری کے بوجھ تلے دبی ہوں گی۔ جس سے نبرد آزما ہونے کیلئے ان کو مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ مثلاً یہ کہ مالیاتی اداروں کو چلانے کیلئے وہ جو فنڈز فراہم کرتی ہیں ان کو ختم کیا جائے لیکن اس کے ساتھ ووٹر شدید غم و غصے کا اظہار کریں گے۔ ممکن ہے مئی کے برطانوی الیکشن میں لیبرپارٹی کو نکال باہر کریں اور نومبر میں امریکی ایوان نمائندگان کے وسط مدتی الیکشن میں اوبامہ کی پارٹی اکثریت سے محروم ہو جائے اسی سال کے دوران

امریکی صدر کو افغانستان کے مسئلہ سے بھی نبٹنا ہو گا۔

اگرچہ عالمی معیشت بحران سے نکل رہی ہو گی۔ لیکن اس سال تجارت پر بہت اچھے اثرات مرتب نہیں ہونگے۔ عالمی معیشتیں قلیل المیعاد بقاءکی بجائے مستقبل میں گروتھ کس طرح جاری رکھی جائے اس پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں گی اس حکمت عملی میں زیاہ زور نئی ابھرتی ہوئی منڈیوں پر دیا جائے گا بھارت میں مینوفیکچرنگ کی صنعت زراعت کو پیچھے چھوڑ دیگی۔ اور یہ بڑی کامیابی ہو گی۔ اس سال چین نہائت اہم ملک کے طور پر سامنے آئیگا ہر عالمی صورتحال اس کو مرکزیت حاصل ہو جائیگی۔ ان معاملات میں معیشت، ماحولیاتی تبدیلی، ایٹمی سفارتکاری سبھی شامل ہیں اور چین ناگزیر ملک بن جائیگا اور اس سال یہ ملک مرکز نگاہ ہو گا شنگھائی کو ورلڈ ایکسپو میں توقع ہے کہ دنیا بھر سے سات کروڑ مہمان شرکت کرینگے۔ پھر توانگ ژو میں ایشین گیمز بھی اسی سال منعقد ہونگی۔ اسی سال چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے طور پر جاپان کی جگہ لے لے گا۔ نئے اقتصادی شارز میں انڈونیشیا کی جگہ لے گا۔

پاکستان

ماہرین کے مابق ہنگامہ خیز چند برسوں کے تناظر میں پاکستان میں گڑ بڑ رہے گی لیکن بتدریج استحکام بھی آئے گا اس سال فوج بھی جنگجوﺅں کیخلاف زیادہ کامیابی حاصل کریگی۔فوج 2009ءمیں طالبان کے خلاف اس وقت حرکت میں آئی۔ جب انہوں نے صوبہ سرحد کی مالاکنڈ ڈویژن کے بعض ان علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ جو اسلام آباد کے قریب تھے۔ مگر فوج نے انہیں سختی سے پیچھے دھکیں دیا تھا۔ امریکہ نے اگرچہ 2009ءمیں پاکستان کی امداد بڑھا دی لیکن 2010ءاور اس کے بعد یہ ناکافی ثابت ہو گی سیاسی میدان میں نواز شریف، صدر زرداری کو بے اختیار کرنے یا اقتدار سے نکالنے کیلئے زیادہ زور لگائیں گے۔ فوج اگرچہ نواز شریف کے ساتھ بھی نہیں ہے اور سیاست و حکومت میں بھی عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہے لیکن اس معاملہ میں نواز شریف کی حمائت کر سکتی ہے یہ پاکستان کا وہ بحران ہے جس سے آسانی کے ساتھ بنٹا جا سکتا ہے ممکن صدر زرداری سڑکوں پر مخالفین کے مزید مظاہروں سے قبل ان کا 17 ویں ترمیم کے تحت حاصل اختیارات چھوڑنے پر تیار ہو جائیں، زرداری اگر صدر نہ بھی رہے تب بھی امکان ہے کہ رواں سال پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت قائم رہے گی۔ کیونکہ مخلوط حکومت کے جوئنر پارٹیز نواز شریف کے حوالے سے خاصے محتاط ہیں پاکستان میں اس برس جتنے بھی خطرات لاحق ہیں ان میں سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اگر بھارت میں دہشتگردی کی کوئی واردات ہوئی تو پاکستان کے خلاف بھارتی ردعمل صرف مذاکرات کی معطلی تک محدود نہیں رہے گا۔ جنگ کا بھی امکان ہے۔

افغانستان

اگست 2009ءمیں جنرل سٹینلے میک کرشل جو افغانستان میں امریکا اور ناٹو افواج کے کمانڈر ہیں نے کہا تھا کہ اس ملک میں بین الاقوامی فوج کو ناکافی کا شدید خطرہ“ اگر یہ درست ہے تو 2010ءمیں امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کو اس ملک سے نکلنے کی راہیں تلاش کرنا پڑیں گی۔ طالبان یا ان کی شورش سے بنٹنے کی مو ¿ثر حکمت عملی کے فقدان اور مو ¿ثر ریاست اور حکومت کی عدم موجودگی کے سبب طالبان نے جنوب اور مشرق کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا ہے اس ضمن میں بہتر حکمت عملی بنانے کیلئے جنرل سٹینلے نے جو منصوبہ تیار کیا اس ناٹو افواج کی ہلاکتیں بڑھیں گی۔ انہوں نے مزید 60 ہزار فوجیوں کا مطالبہ کیا ہے اب مخمصہ یہ ہے کہ مغربی ممالک میں رائے عامہ اس جنگ کے خلاف یہ رہی ہے امریکہ اور دیگر ممالک نہ حکمت عملی میں تبدیلی کے نتیجے میں زیادہ جانی نقصان پر آمادہ ہیں نہ مزید فوجی بھیجنے پر۔ چنانچہ پریشانی کے عالم میں یورپی ممالک طالبان کے ساتھ امن قائم کرنے کے منصوبوں پر زور دیں گے۔ 2010ءمیں یہ مقصد حاصل کرنے کیلئے زیادہ پیش رفت کا امکان نہیں امریکہ جانتا ہے کہ نچلی سطح پر جنگجوﺅں پر فتح حاصل کی جائے جبکہ اقوام متحدہ اور یورپی حکومتیں اعلیٰ سطح کے امن مذاکرات کی حامی ہیں جبکہ جنگجوﺅں کی جانب سے اس من میں دلچسپی ظاہر کرنے کی علامات نہیں ہیں لیکن افغان ریاست اور حکومت کو مضبوط بنانا زیادہ مشکل ہو گا خاص طور پر 2009ءکے تباہ کن صدارتی الیکشن کے بعد جن میں حامد کرزئی کو کامیاب بنانے کیلئے مکمل دھاندلی کی گئی۔ جس سے کرزئی کے قریب ترین حلیف عبداللہ عبداللہ کے اشتعال میں اضافہ ہوا انہوں نے امن کیلئے غیر ملکی کوششوں کو افغانیوں اور غیر ملکیوں کی نظریں مشکوک قرار دینے کی مہم تیز کر دی یہی نہیں بلکہ اس سے ملک میں نسلی تقسیم بھی بڑھ گئی ۔ حامد کرزئی کے پختون حامیوں اور عبداللہ عبداللہ کے تاجک گروپ میں خیلج گہری ہو گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ 2010ءمیں اس ملک کیلئے خوشگوار امکانات نہیں ہیں اتنا ضرور ہے کہ دنیا کے بدترین ممالک میں افغانستان اور ترکمانستان اب چمپئن رہے گا بلکہ صومالیہ نے یہ مقام حاصل کر لیا ہے۔

چین

یکم اکتوبر 2009ءکو چین نے اپنی فوجی صلاحیت کا شاندار مظاہرہ کیا کیمونسٹ پارٹی نے عوامی جمہوریت کے قیام کی 60 ویں سالگرہ منائی۔ چینی علم بخوم میں 60 ویں سالگرہ بہت اہم ہوتی ہے یہ علم بخوم کا ایک دائرہ کار یک دائرہ مکمل ہونے کی علامت ہے لہٰذا 2010ءکو نئے آغاز کے طور پر منایا جائیگا۔ چینیوں کے خیال میں یہ بڑا مبارک موقع ہے اور ایک نئے 60 سالہ دور کا آغاز ہے جس میں یہ ملک دنیا کی سب سے بڑی معیشت بلکہ ان کے خیال میں سب سے بڑی طاقت بن جائیگا۔ چنیوں کے اس یقین کی عملی وجوہات ہیں گزشتہ دو برس میں مغربی دنیا مالی اور فوجی اعتبار سے زوال کا شکار رہی ہے سرمایہ کاری نظام تقریباً تباہی کے دہانے پر ہے ناٹو کی فوج افغانستان میں کاغذی شیر ثابت ہوئی ہے لہٰذا چین کی کامیابی میں کوئی شبہ نہیں مگر اسے اپنی کمزوریوں پر قابو پانا ہو گا۔

اسرائیل

یہ ملک ایرانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے دھمکیاں بڑھا دے گا اور پوری دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مبذول ہو گی جس کے نتیجے میں ایران کے خلاف سخت پابندی عائد کرنے کے خطرات بڑھ جائیں گے۔ گزشتہ برس یہ شہادتیں ملی تھیں کہ مقدس شہر قسم کے قریب پہاڑ میں یورینیم افزودہ کرنے کی خفیہ سہولتیں موجودہیں خیال ہے ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے کی صدر اوباما کی پالیسی پس پشت چلی جائیگی کیونکہ اس معاملے میں دنیا بھر کے لیڈر متفق نظر آتے ہیں کہ اگر ایران نے اپنی تمام ایٹمی تنصیبات معائنے کیلئے نہ کھولیں تو سلامتی کو نسل سخت ترین اقتصادی پابندیاں عائد کر دیگی۔ ایران کی آئل ایکسپورٹ روک دی جائیگی۔ ریفائنڈ پٹرولیم کی امپورٹ پر پابندی عائد کر دی جائیگی اس من میں فرانس کے صدر نکولس سرکوزی نے 2010ءکے آغاز کی تاریخ مقرر کی ہے یا مہلت دی ہے۔ اسرائیل اس من میں بہت بے چین ہے اس کی فضائیہ نے بمباری کی ایک مشق مکمل کی۔ جبکہ پورے ملک میں سول ڈیفنس کی ریہرسل کی گئی تاکہ اگر اسرائیل ایران ایٹمی تنصیبات یہ حملہ کرے تو خصے میں موجود ایران کے خامیوں حزب اللہ اور حماس کی جانب سے ہونیوالے ممکنہ ردعمل یا راکٹ حملے سے بنٹا جا سکے۔ 2010ءمیں ایٹمی پروگرام پر ایران اور دنیا کے درمیان جو شوڈاﺅن ہوگا۔ اس میں اسرائیل کو بہت سے مواقع حاصل ہوں گے۔ اگر ایران پر پابندیاں عائد کرنے کی اسرائیل خواہشں پوری نہ ہوئی یا نا کام ہوئی اسرائیل وزیرا عظم نتن یا ہو ایران پر حملہ میں تاخیر نہیں کریں گے۔

ایران

ماہرین کا خیال ہے کہ یہ کئی عشروں سے قائم سخت گیر نہ ہیں جماعتوں کی اتھارٹی بتدریج کمزور پڑتی جائیگی۔ دوسری جانب اس امر کے امکانات بھی ہیں کہ ایٹمی مسئلہ پر ایران امریکہ یا اسرائیل کے حملہ سے محفوظ رہے جہاں تک اس ملک کی اندرونی سیاست کا تعلق ہے طاقت کی کشمکش سڑکوں سے حکمران، علماءکے حلقوں میں پہنچ جائیگی۔ دو سابق صدر ہاشمی رفسنجانی اور محمد خاتمی صدر احمدی نژاد کو عہدے سے الگ کرنے کی کوش کریں گے۔ البتہ سپریم لیڈر آئت اللہ خامنہ ای توازن برقرار رکھنے کی کوشش جاری رکھیں گے۔ احمد نژاد کی حمائت جاری رکھنے سے وہ عوامی حمایت سے محروم ہو جائیں گے۔ ایٹمی تنصیبات پر اسرائیل امریکی گرین سگنل کے بغیر حملہ نہیں کر سکے گا اگر ایسا ہوا تو ایران اپنے دوستوں کی مدد حاصل کریگا اور ان سے مل کر امریکی، اسرائیل مفادات پر حملے کریگا جس سے براستہ خیلنج تیل کی تجارت بند ہو جائیگی یہ ایک خوفزدہ کر دینے والی صورتحال ہے بہر حال ایٹمی تنصیبات پر حملہ برپا نہ ہو۔ یہ طے ہے کہ ایران میں سخت گیر علماءکی حکومت ختم ہو سکتی ہے ضروری نہیں یہ عمل 2010ءمیں مکمل ہو جائے تاہم اس میں شدت ضرور آئیگی۔

صدر اوبامہ کیلئے مشکل سال

ماہرین کے مطابق 2010ءامریکی صدر اوبامہ کیلئے سخت مشکلات اور آزمائشوں بھرا سال ہو گا دراصل بطور صدر ان کا یہ دوسرا سال حکومت کی سیاسی کمزوریوں ہی کو نہیں ظاہر کریگا بلکہ انہیں جو مسائل ورثے میں ملے ہیں ان کی شدت کا بھی اظہار ہو گا امریکی عوام ان کو مالیاتی بحران کا ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی انہیں سکون کاسامن نصیب نہیں ہو گا۔ وہ افغانستان اور عراق کے معاملے میں جو بھی طویل المعیاد فیصلہ کریں امریکی فوجیوں کی ہلاکتیں جاری رہیں گی اور ان کے خلاف جذبات بھڑکتے رہیں گے۔ اندرون ملک یہ خیال راسخ ہو گا کہ دنیا کی سپر پاور کی حیثیت سے امریکہ اپنا مقام کھو رہا ہے کیونکہ امریکی عوام اپنے ملک کی سیاسی ہی نہیں اقتصادی طاقت بھی کم ہوتے دیکھیں گے ادھر ایشیا میں نئی طاقتیں ابھریں گی جس پر امریکی عوام کے غم و غصے کا نشانہ اوبامہ بینں گے۔ گویہ سال ان کےلئے تکلیف دہ ہو گا۔ لیکن ضروری نہیں کہ 2010ءکے الیکشن میں وہ دوبارہ منتخب نہ ہو سکیں یا ناکام صدر کے طور پر پاور کھلے جائیں آئندہ برسوں میں وہ کوئی بڑا کارنامہ بھی کر کے دکھا سکتے ہیں۔
[/SIZE]