چاند میری طرح پگلتا رہا
نیند میں*ساری رات چلتا رہا
جانے کس دُکھ سے دل گرفتہ تھا
منہ پر بادل کی راکھ ملتا رہا
میں تو پائوں*کے کانٹے چُنتی رہی
اور راستہ بدلتا رہا
رات گلیوں میں*جب بھٹکتی تھی
کوئی تو ساتھ جو ساتھ چلتا رہا
سرد رُت میں ، مُسافروں*کے لیے
پیڑ بن کر الائو جلتا رہا
موسمی بیل تھی میں*سُو کھ گئی
وہ تناور درخت پھلتا رہا

پروین شاکر