رنج تو نے وہ بار بار دیے
نقش سے درد کے ابھار دیے

خونِ غم کیا سے کیا نہیں اترے
درد نے ذائقے ہزار دیے

تیرے غم کی قبا سجی ہم پر
اور ملبوسِ غم اتار دیے

تیرے پہلو سے دور رہ کر بھی
دن ترے ساتھ سب گذار دیے

تم کو کچھ جستجو نہ تھی، ورنہ
راستے ہم نے تھے سنوار دیے

تم نے اپنایا ہی نہیں ہم کو
تم کو سارے تھے اختیار دیے

دل کہ بس ڈوبتا ہی جاتا ہے
اب مسافر بھی سب اتار دیے
**<<~*~*~*~>>**