ایک دن سقراط گاؤں کے اسکول میں آیا۔ سب لوگ اسے جانتے تو تھے ہی۔ جونہی بچے بچیوں نے اس کی صورت دیکھی، ان کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے۔ پڑھنا لکھنا بھول گیا۔ اور سب کی نظریں دروازے پر گڑ گئیں۔ جہاں بڈھے میاں کھڑے بڑے غور سے بچوں کی صورتیں دیکھ رہے تھے۔
سقراط نے کچھ کہے سنے بغیر کمرے کا ایک چکر لگایا۔ پھر اپنے آپ سے منہ ہی منہ میں باتیں کرنے لگا۔ ”نہ کسی کے کانوں میں مُرکیاں دیکھیں نہ ناک میں نتھ، نہ کسی کے چہرے پر میل، نہ کسی کی ناک بہہ رہی ہے، نہ ناخن بڑھے ہوئے ہیں (ایں، یہ کیا؟ اس بچی کے ناخن تو بڑھے ہوئے ہیں۔ کیسے افسوس کی بات ہے! لیکن نہیں یہ کوئی نئی لڑکی ہوگی) اور ہاں نہ کسی کا پیٹ بڑھا ہوا ہے، نہ چہرے پر زردی ہے، نہ آنکھیں خراب ہیں، نہ کپڑے میلے ہیں۔ سب کے چہروں پر خوشی اور مسکراہٹ ہے۔ معلوم ہوتا ہے اصلاح اور ترقی کے لئے جو ہم نے کوشش کی تھی وہ بے نتیجہ ثابت نہیں ہوئی“۔
چوتھی جماعت کے ایک شوخ لڑکے نے کہا۔ ”بڑے میاں یہ ہم پر منتر پڑھ پڑھ کر کیا پھونک رہے ہو؟“۔
سقراط یوں چونک اٹھا گویا وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہو۔ بولا ”سلام اے لوگو! ہاں میں ایک خواب دیکھ رہا تھا“۔
”تو بڑے میاں! اس میں حیرانی کی بات ہی کیا ہے۔ ابا جان کہتے ہیں کہ تم خواب دیکھنے کے عادی ہو۔ لیکن ہم تو خواب نہیں دیکھ رہے ہم تو سب جاگ رہے ہیں“۔
”تو پھر ضرور میرے خواب میں سے ایک خواب سچا ثابت ہوا ہے“۔
ایک ننھے سے لڑکے نے کہا۔ ”واہ وا۔ لو اب سقراط میاں ہمیں ایک کہانی سنائیں گے“۔
سقراط کے آنے سے ماسٹر صاحب کا چہرہ بھی اپنے شاگردوں کی طرح خوشی سے دمکنے لگا تھا۔ انہوں نے پوچھا ”کہئے آپ کو کون سا خواب سچا ثابت ہوا؟“۔
”میں چھوٹے لڑکوں اور لڑکیوں کا ایک ایسا اسکول دیکھ رہا ہوں جس میں گندگی نام کو بھی نہیں، جہاں نہ کوئی بچہ بیمار ہے، نہ کسی نے سونے چاندی کے زیور پہن رکھے ہیں۔ یہی خواب میرا سچا ثابت ہوا ہے“۔
ماسٹر صاحب نے کہا۔ ”یہ تو کچھ بھی بات ہیں۔ مہینوں سے ہمارے اسکول کی یہی حالت ہے کبھی کبھی کوئی نیا بچہ اسکول میں داخل ہوتا ہے تو ہمیں تھوڑی سی تکلیف ہوتی ہے لیکن ہم جلدی ہی اسے بھی راہ پر لے آتے ہیں“۔
عین اس موقع پر ایک عورت داخل ہوئی۔ وہ چپ چاپ اور شمائی ہوئی تھی لیکن تھی چست چالاک اور اکثر یہاں آیا کرتی تھی اس کے ہاتھ میں ایک کتاب او رکچھ کاغذ تھے۔ اسے دیکھ کر سب لڑکے اور لڑکیاں اٹھ کھڑے ہوئے اور جہگیں بدلنے لگے تھوڑی دیر میں سب لڑکے ایک طرف ہوگئے اور سب لڑکیاں دوسری طرف۔ تب اس عورت نے لڑکیوں کو سلائی کا ایک سبق پڑھانا شروع کر دیا۔ سقراط نے کمرے سے نکل جانا چاہا۔ مگر لڑکے اسے کب چھوڑنے والے تھے۔ سب کے سب چلا اٹھے۔ ہیں، ہیں بڑے میاں کہاں چل دیئے ٹھہرو تم ابھی نہیں جا سکتے۔ تم پہروں بیٹھے بڑی عمر کے لوگوں سے باتیں کرتے رہتے ہو۔ کیا ہم نے کچھ قصور کیا ہے؟
سقراط نے کہا۔ ”یہاں میری ضرورت بھی کیا ہے جو کچھ تمہیں بتا سکتا ہوں۔ تم اور تمہارے استاد اس سے بہت زیادہ جانتے ہیں۔ میں کسی ایسی جگہ جاؤں گا جہاں میری ضرورت ہو“۔
استاد نے کہا۔ ”نہیں آپ نہیں جا سکتے۔ ہم نے سب کچھ آپ ہی سے سیکھا ہے۔ کچھ دیر یہاں ٹھہرئیے اور کوئی نئی بات بتائیے“۔
سقراط نے کہا۔ ”میں کیا بتا سکتا ہوں؟ میں استاد تھوڑا ہی ہوں“
اسی شوخ لڑکے نے پھر کہا ”اچھا تو کوئی کہانی ہی سنا دو“۔ کہانی کا نام سننا تھا کہ سب لڑکے چلا اٹھے۔ ”ٹھیک ہے کہانی بھئی کہانی“۔
سقراط نے کہا۔ ”میں کہانیاں واہانیاں نہیں سنایا کرتا“۔
اس پر کئی لڑکے بول اٹھے۔ ”ہم نہیں مانتے تم بچوں والے ہو۔ اپنے بچوں کو تو ضرور کہانیاں سناتے ہوں گے“۔
سقراط نے کہا۔ ”یہ کام میرا نہیں۔ ان کی ماں انہیں کہانیاں سنایا کرتی ہے لیکن تمہاری ماؤں کو اپلے تھاپنے ہی سے فرصت نہیں ملتی“۔
اس پر ننھی لڑکیوں نے ایک زبان ہو کر کہا۔ ”ہرگز نہیں۔ تمہیں ہماری ماؤں پر الزام لگاتے شرم نہیں آتی“۔ انہوں نے تو یہ کام برسوں سے چھوڑ رکھا ہے۔
سقراط نے کہا۔ ”خوب خوب، مجھے بہت ہی افسوس ہے کہ میں نے تمہاری ماؤں پر یہ جھوٹا الزام لگایا ہے۔ مجھے امید ہے تم معاف کر دو گے“۔
”معاف تب کریں گے جب تم ہمیں کوئی کہانی سناؤ گے“۔
”اچھا تو سنو، ایک تھا مگرمچھ بہت ہی بڑا… “۔
”رہنے دو، ہم ایسی بے ہودہ کہانی نہیں سننا چاہتے۔ سنانی ہے تو کوئی کام کی کہانی سناؤ“۔
”دیکھو میاں سقراط! عقل کے ناخن لو اور ہمیں اچھی کہانی سناؤ، جس میں بادشاہ ہوں، شہزادوں شہزادیوں کا ذکر ہو، اگر تم چاہو تو ایسی کہانی سنا سکتے ہو“۔
” اچھا تو سنو، ایک تھا بادشاہ۔ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ، وہ ایک چھوٹی سی ریاست پر حکومت کرتا تھا۔ رعایا اس سے بہت خوش تھی۔ جہاں بادشاہ کا پسینہ گرتا وہاں رعایا اپنا خون بہانے کو تیار ہو جاتی“۔
لڑکوں نے کہا۔ ”اب آئے نا راہ پر، ہاں تو پھر کیا ہوا؟“
”اس چھوٹی سی ریاست سے ملی ہوئی ایک بہت بڑی ریاست تھی جس پر ایک بہت ظالم بادشاہ حکمران تھا۔ اس بادشاہ کی بڑی آرزو یہ تھی کہ کسی طرح اس چھوٹی ریاست پر قبضہ جمالوں۔ اس چھوٹی ریاست کے بادشاہ کے ہاں کوئی بیٹا تو نہ تھا ہاں ایک خوبصورت بیٹی تھی۔ بڑے بادشاہ نے اپنے دل میں سوچا کہ اگر میرے بیٹے کی شادی اس بادشاہ کی بیٹی سے ہو جائے تو بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کی سلطنت پر میرا قبضہ ہو جائے گا۔
لیکن چھوٹا بادشاہ اور اس کی رعایا اس کی نیت سے واقف تھے چنانچہ انہوں نے اس کے بیٹے کی شادی اپنی شہزادی کی شادی کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر بڑا بادشاہ بہت ہی جھنجھلایا اور اپنے وزیروں کو بلا کر ان سے صلح مشورہ کیا۔ وزیروں نے کہا۔ اس چھوٹے بادشاہ نے ہماری ہتک کی ہے۔ ہمیں اس پر چڑھائی کرکے اس کی ریاست پر قبضہ کر لینا چاہئے۔ چنانچہ انہوں نے چڑھائی کی تیاریاں شروع کر دیں۔ جب چھوٹے بادشاہ کو اس کی خبر ہوئی تو وہ اپنے دل میں بہت ڈرا کیونکہ اس کی فوج بڑے بادشاہ کی فوج کے مقابلے میں ایک چوتھائی بھی نہ تھی۔
اس چھوٹے بادشاہ نے اپنے امیروں وزیروں کو بلایا اور کہا ”اگر ہم لڑے تو یہ بادشاہ ہماری سلطنت پر قبضہ کر لے گا۔ اور اگر میں نے اپنی بیٹی اس کے بیٹے سے سے بیا دی تب بھی وہ ہماری سلطنت پر قبضہ کرے گا ہم کریں تو کیا کریں؟“
اس کی رعایا نے جواب دیا۔ ”ہم لڑیں گے اور اپنی جانیں حضور پر فدا کر دیں گے“۔
بادشاہ نے کہا۔ ”لیکن اس کا کچھ فائدہ نہ ہوگا غنیم کے مقابلے میں ہماری فوج بہت ہی تھوری ہے“۔
اس پر سب چپ ہوگئے لیکن اس ریاست کے تمام باشندے اپنے بادشاہ سے بے حد محبت رکھتے تھے۔ چنانچہ ایک دیہات میں اور کیا شہروں میں، سب جگہ لوگوں کو یہی فکر تھی کہ ہم اپنے بادشاہ اور اپنے ملک کو غنیم کے ہاتھ سے کس طرح بچائیں یہاں تک کہ حیوانوں اور درندوں کو بھی اپنے بادشاہ کی امداد کی فکر ہوئی۔
جب بادشاہ نے دوسری مرتبہ اپنے امیروں وزیروں کو طلب کیا تو اس موقع پر شیر بھی آئے او رکہنے لگے۔ ہم دشمن کے گھوڑوں اور مویشیوں کو چیر پھاڑ ڈالیں گے“۔
بھیڑئیے اور گیڈر آئے اور کہنے لگے۔ ہم دشمن کے خیموں کے اردگرد گھومتے رہیں گے اور جو کوئی اکیلا وکیلا باہر نکلے گا اسے کھا جائیں گے۔
کووّں نے کہا یوں کام نہ چلے گا۔
عین اس موقع پر ایک مکھی بادشاہ کی ناک پر آکر بیٹھی۔ بادشاہ نے ہاتھ سے اڑا دی مگر مکھی وہاں سے جانے کا نام نہ لیتی تھی۔ اس دفعہ وہ آکر بادشاہ کے کان پر بیٹھ گئی۔ بادشاہ جھنجھلا اٹھا اور کہنے لگا۔ اس مکھی نے تو ناک میں دم کر دیا۔ یہ مجھے کیوں تنگ کرتی ہے؟ میں پہلے ہی پریشان ہو رہا ہوں۔
بادشاہ کے کان میں بھنبھناہٹ کی آواز آئی جسے کوئی کہہ رہا ہو۔ میں حضور کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔
بادشاہ چونک اٹھا اور کہا یہ کون بولا؟
وزیر نے عرض کیا۔ حضور! کوئی بھی نہیں بولا۔
بادشاہ کے کان میں پھر وہی باریک آواز آئی۔ میں بولا تھا۔
اب تو بادشاہ اچھل پڑا اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اپنے ارد گرد دیکھنے لگا مگر اس کے آس پاس کوئی نہ تھا۔ ناچار پھر آکر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا مگر دل ہی دل میں سخت حیران ہوتا اور کہتا تھا کہ میری پریشانیوں اور اندیشوں نے کہیں مجھے دیوانہ تو نہیں بنا دیا۔
اتنے پھر وہی آواز سنائی دی کہ میں حضور کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔
امیر وزیر سب دم ب خود کھڑے ہوگئے کسی کے منہ سے ایک لفظ نہ نکلا۔ مگر اب بادشاہ سمجھ گیا کہ یہ ضرور کسی ایسی ہستی کی آواز ہے جو نظر نہیں آتی۔
بادشاہ نے پوچھا تم کون ہو؟
”میں مکھیوں کا بادشاہ ہوں اور آپ کی مدد کے لئے حاضر ہوا ہوں“۔
بادشاہ نے کسی قدر ناراضی سے کہا۔ جاؤ یونہی فضول وقت ضائع نہ کرو۔ بھلا تم میری کیا مدد کر سکتے ہو؟ تم مجھے پریشانیوں میں مبتلا دیکھ ک رمجھ سے ٹھٹھا کرنے آئے ہو۔
”نہیں۔ میں اس خیال سے ہرگز نہیں آیا ہوں۔ میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں۔ اور اگر آپ وعدہ کریں کہ میں جو کچھ مانگوں آپ دیں گے تو میں آپ کی مدد سے دریغ نہ کروں گا۔“
بادشاہ نے ہنس کر کہا۔ ”جاؤ تمہیں اجازت ہے میری دشمن کو برباد کرنے میں اپنا سارا زور لگا دو لیکن مجھے یقین ہے کہ تم نہ تو میری کچھ مدد کر سکتے ہو نہ میرے دشمن کو نقصان پہنچا سکتے ہو“۔
آس پاس جو لوگ بیٹھے تھے جب انہوں نے بادشاہ کو آپ ہی آپ باتیں کرتے اور ہنستے دیکھا تو انہیں بہت فکر ہوئی۔ وہ سمجھے کہ پریشانیوں کی وجہ سے بادشاہ کا سر پھر گیا ہ ے اور وہ دیوانوں کی طرح آپ ہی آپ ہنس رہا ہے۔ لیکن بادشاہ نے سارا وقعہ ان سے بیان کر دیا۔ اس بات کا تو کسی کو بھی یقین نہ تھا۔ مگر مکھیاں ہماری کچھ امداد کر سکتی ہیں۔ البتہ اس خیال پر انہیں بہت ہنسی آئی کہ مکھیاں ہماری سلطنت کی حفاظت کرنا چاہتی ہ یں۔ اس موقع پر ایک بڈھا جو سب سے پیچھے بیٹھا تھا اٹھ کھڑا ہوا اور مکھی کی شرطیں مان لینے کے خلاف دہائی دینے لگا۔ اس نے چلا کر کہا۔ بادشاہ سلامت! آپ نے مغرور اور ظالم ہمسائے سے بھی زیادہ خطرناک دشمن کے ہاتھ اپنی سلطنت بیچ ڈالی ہے۔
اس پر چاروں طرف سے آوازیں آنے لگیں۔ چپ رہ بڈھے، کیا بکتا ہے؟ اور بے چارے بڈھے کو زبردستی خاموش کرکے اپنی جگہ پر بٹھا دیا گیا اس کے تھوڑی دیر بعد مجلس ختم ہوگئی۔ اور سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو چل دیئے مگر اس عرصے میں بڈھا منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا رہا۔
ایک لڑکے نے کہا۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو وہ بڈھا ضرور سقراط ہی ہوگا۔
سقراط نے کہا اگر تم یوں میری باٹ ٹوکو گے تو میں باقی کہانی تمہیں نہ سناؤں گا۔
ایک ننھی سی لڑکی نے کا۔ یہ تو تم نے بتایا ہی نہیں کہ اس خوب صورت شہزادی کا کیا حال ہوا؟
سقراط نے چپکے سے اسکول سے باہر نکلتے ہوئے کہا۔ یہ پھرکبھی بتاؤں گا آج صبح میں نے پہلے ہی تمہارا بہت سا وقت ضائع کر دیا۔
کچھ دنوں کے بعد سقراط اپنی کہانی کا باقی حصہ سنانے پھر اسکول میں آیا۔ کمرے میں داخل ہونے سے پہلے وہ اسکول کے احاطے میں ادھر ادھر اور نیچے بڑے غور سے دیکھتا رہا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس کی کوئی چیز کھو گئی ہے لیکن تھوڑی دیر بعد وہ اسکول کے کمرے میں داخل ہوگیا۔
لڑکوں نے پوچھا۔ ”احاطے میں تمہاری جو چیز کھو گئی تھی وہ ملی یا نہیں؟
سقراط نے جواہ دیا۔ ”نہیں“۔