کبھی سمجھ میں نہ آئیں گی چاہتیں میری
مگر یہ دھیان میں رکھنا محبتیں میری

تم اِس کو نام دے دینا مری محبت کا
کہ خود میں پاؤ گے اکثر شباہتیں میری

رفاقتیں مری آباد تم کو رکھیں گی
یہ صرف یاد نہیں، ہیں کرامتیں میری

ترا ہی ذکر مرا دائمی وظیفہ ہے
تری ہی یادیں بنی ہیں ضرورتیں میری

کلی کو اپنے تبسّم سے خوف آتا ہے
ہوئی ہیں جب سے خزاں بار نکہتیں میری

میں اُسکو سوچ کے خوش ہوں تو ملنے پر
مجھے سنبھال نہ پائیں گی حسرتیں میری