وقت، مقتل سے میری لاش اٹھا لایا تھا
لوگوں میں اپنی گواھی میں خدا لایا تھا

اب یہ مو سم مییری پہچان طلب کرتے ھیں
جب میں آیا تھا یہاں تازہ ھوا لایا تھا

میرے ھاتھوں میں بھی زیتون کی شاخیں تھی کبھی
میں بھی ھونٹوں پہ کبھی حرف دعا لایا تھا

جنگ کے آخری لمحوں میں عجب بات ھوئ
شاہ لڑتے ھوے پیادے کو بچا لایا تھا

لزتِ دربرری بھول چکا ھوں اب تو
خالی ھاتوں میں کبھی ارض ؤ سماں لایا تھا

وہ بھی ردیوزہ گر ِ شہر ِتمناتھا سلیم
میں بھی اک کاسہ ِ بےنام اٹھا لایا تھا

Nov 1978.