نیند تو آئی مگر خواب کے تحفے نہ ملے....!

پچیسویں سورة کی سینتالیسوں آیت ہمارے سامنے ہے: ”( اے کرّہ ارض کے باشندو....!) اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے لباسِ لیل(کی نعمت بخشی) اورنیند کو(جسمانی و روحانی قوتوں کو مجتمع کرنے کے لیے )آرام و سکون کا ذریعہ بنایا اور دن کو(معاشی و دینی، فلاحی وسماجی ) سرگرمیوں میں مصروف رہنے کا ذریعہ....“



اِنسانی نسل کے اوّلین جوڑے کو رب تعالےٰ کی جانب سے جب کُر ّہِ ارض کی سمت اِذنِ سفر ملا تو اِن کے زادِ راہ میں اللہ کی رحمتیں شامل ہو گئی تھیں۔



پُر خلوص دُعاؤں کے جواب میں اللہ تعالےٰ نے جنّت سے رخصتی کے وقت اِس فردوسی جوڑے کو ہدایت کی نعمت بھی عطا کردی تھی۔ جنّت کی دلفریب فضاؤں سے مانوس اِس اوّلین اِنسانی جوڑے کے خیر مقدم کے لیے زمین کی دلنشین و پر کیف فضائیں آنکھیں بچھائے کھڑی تھیں۔ حضرت آدم علیہ السلام اپنی اہلیہ محترمہ حضرت حو ّا علیھا السلام کے ہمراہ نہ صرف ایک بخشش یافتہ اوّلین انسانی جوڑا بن کر زمین پرتشریف لائے بلکہ حضرت آدم عليه السلام کو نبوّت کا اولین اور ایک برگزیدہ منصب دار بھی بنا یا گیا تھا۔ چنانچہ اللہ کی خوشنودیوں سے مالامال اِس انسانی جوڑے نے جب زمین پر قدم رکھا تو دیکھا کہ یہاں انسانی زندگی کی نشوونما اور اس کی بقا کا ہر سامان موجود ہے۔ انسانی ضروریات کے تمام تر خزانوں سے دامانِ ارضی کومالا مال کر دیا گیا ہے۔ پہاڑوں کے بطن میں معدنیات اور Mineralsکے خزانے محفوظ کر دیے گیے ہیں۔ زمین کے بطن میں پٹرول اورگیسس کے سمندر کے سمندر اسٹور کرکے رکھے گیے ہیں۔ پہاڑوں کے نشیب و فراز پر عمارتی لکڑیوں کے جنگلات کے وسیع تر سلسلے پھیلا دیے گیے ہیں۔فلک بوس پہاڑوں کی دشوار گزار گھاٹیوں میں حضرتِ انسان کی نقل و حرکت کو سہل ترین بنا دیا گیا ہے۔ کہساروں کے دامن میں آنکھوں کو خیرہ کردینے والی ہری بھری سپاٹ وادیاں بچھی ہیں،جہاں وہ اپنے سنگ ہائے میل نصب کر سکتا ہے، کہستانی نعمتوں سے متمتع ہو سکتا ہے۔اِس دشوار گزار راستوں پر سفر کے لیے تیز رفتار گھوڑے اور بار برداری کے لیے کھچر اور گدھے، ہاتھی اور اونٹ موجود ہیں۔ پینے کے پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے نہ صرف زمین پر دریا ؤں کا ایک جال بچھا ہے بلکہ زیر زمیں پانی کی نہریں بھی بہا دی گئی ہیں۔ پھر اسی زمین پر بے پناہ وسعت رکھنے والے سمندروں کے کھارے پانی میں نمک جیسی ایک سہل الحصول لا زوال دولت بھی موجود ہے، جس کے بغیر غذاؤں میں حقیقی لذّت پیدا نہیں ہوتی۔



اُنہوں نے یہ بھی دیکھا کہ زمین پر سے انہیں ایک آسمان نظر آرہا ہے، جہاں ستاروں کی ایک خوبصورت انجمن سجی ہوئی ہے۔شب ہوتی ہے تو یہ ستارے اپنی محفل سجاتے ہیں، پھر خوبصورت سا چاند نمودار ہوتا ہے، صبح ہوتی ہے تو چمکدار سورج اپنی بنفشئی شعاعوں سے سارے عالم کو منور کردیتا ہے۔پھریہاں بادل اُٹھتے ہیں، ہوائیں چلتی ہیں،بادلوں میں بجلی لپکتی ہے،دفعتاً، بوندا باندی شروع ہوجاتی ہے، پھر زمین پر جل تھل کر دینے والی ایک زورکی بارش برستی ہے۔ صاف و شفاف پانی کے کل کل کرتے ہوئے دھارے بہہ نکلتے ہیں۔ ندیاں، جھیل،آبشار اور تالاب بھرجاتے ہیں۔ آکسیجن سے بھرپور صاف و شفاف فضائیں ، دل پذیر سبز لباس میں ملبوس نباتات کے سلسلے ، نت نیے رنگوں کے پھولوں سے معمورلہلہاتے ہوئے باغات، لذیذپھلوں کے بوجھ سے جھکی جھکی ٹہنیاں اور نہ جانے کیا کیا۔ پھر زمین کی ہر شئے کو یہ حکم کہ جنت کے اِن نوواردین اور ان کی نسل کے لئے اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ مسخر ہوجاؤ، خدمت گزاربنو اورانہیں مسلسل فائدہ پہنچاتے رہو۔ ہاتھی سے کہا کہ انسان بظاہر کمزور ہے،اِس کی جسمانی ساخت اُس کی کمزوری پر دلالت کرتی ہے،مگراُسے کمزور نہ سمجھنا، ہم نے اسے عقل اور علم سے مالامال کر دیا ہے۔اُس کے حوصلے بلند کر دیے ہیں، یہ کارہائے عظمت کی انجام دہی میں مصروف ہوگا، تم اپنی قوتوں کے ساتھ اس کے معاون بنے رہنا۔گھوڑوں سے کہا کہ اسکی سواری کے کام آنا،گدھوں اور خچروں سے کہا کہ اس کے سامان کو اٹھاکر چلنااور مویشیوں سے کہا کہ اسے دودھ،اون اور چمڑہ فراہم کرنا۔زمین کی تہہ میں موجود مختلف دھاتوں سے کہا گیا کہ حضرت انسان زمین پر تشریف لاتے ہیں، اِن کی خدمت کے لیے بانہیں پسارے رہناکہ وہ تمہارے استعمال کی جس شکل کے بھی خواہشمند ہوں گے، اُسے بہم پہنچانا۔ پٹرول اور انرجی کے منبعوں سے کہا گیا کہ جب بھی انسان تمہارے تعاون کے سوال کے ساتھ تم تک پہنچے، تم اپنے خزانوں کے دروازے کھول دینا اور ان کی سواریوں کو تیز رفتار بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑنا۔ کس کس مخلوق کا شمار کیا جائے کہ کس طرح اُسے انسان کی خدمت پر معمور کیا گیا ہے ۔زمین کی ہر مخلوق انسانوں کو ہر طرح سے سپورٹ کئے جارہی ہے، دنیا میں اس کی بقامیں معاون و مددگار ہے اور قیامت تک اسے یہ خدمت انجام دئے جانا ہے اور مسلسل دیے جانا ہے۔



ہم اس مضمون میں انسانوں کی خدمت پر معمور ساری ہی نعمتوں کی تفصیل پیش کرنے سے قاصر ہی نہیں بلکہ یہ ہمارے بس کی بات ہی نہیں کہ ہم انسانوں کی خدمت میں مصروف کسی ایک شے ہی کی مکمل تفصیل پیش کر سکیں۔لیکن شکرانِ نعمت کے طور پر ہم” نیند“ کے کچھ پہلو پیش کر رہے ہیں، کچھ پہلو ہی پیش کر سکتے ہیں ۔ اس لیے کہ ”نیند “ جیسی نعمت کا الفاظ میں احاطہ کسی کے بس میں نہیں۔”نیند“ کی ماہیت اور کیفیت پر زمانہٴ دراز سے غور و فکر کا سلسلہ جاری ہے۔ عصری علوم کی روشنی میں اِس پر مزید تحقیقات جاری ہیں ، جن کے نتیجے میں نہ جانے اور کتنے پہلو روشنی میں آئیں گے۔



یہ جو ہمارے سر پر چمکتا ہوا تابناک سورج ہے، جس کی فیض رسانی بذاتِ خود ایک الگ موضوع ہے، کاذکر پہلے ہو جائے، کیونکہ سورج کے طلوع و غروب کے نتیجے میں عالمِ وجود میں آنے والے دن اور رات سے نیند کا بڑا گہرا رشتہ ہے ۔ یہ بغیر کسی سستی اور کاہلی کے دنیائے انسانیت میں اجالا بکھیرنے میں مصروف ہے۔ اِس کی فیض رسانی کے ذکر کے لیے کسی دلیل یا لفاظی کی ضرورت بھی نہیں ۔ یہ فرمانبردار خادم دن بھر روشنی اور توانائی کا منبع بنا رہتا ہے،



اپنے وقتِ مقررہ پر طلوع ہوتا ہے، اپنے وقت پر غروب ہوجاتا ہے۔ یہ اگر صرف روشنی کا منبع ہوتااور تپش سے خالی ہوتا تو سوچیے کہ کیا ہواہوتا۔ روئے زمین پربیکٹیریاکا ایک طوفان برپا ہو جاتاجو ہماری ساری غذاؤں اور پھل، پھول اورپودوں کو نیست و نابود کردیتا۔انسانی زندگی اپنے آثار کھو دیتی۔ اُس کا پھیلایا ہوا اُجالا اوراُس کی اُبلتی ہوئی توانائی انسانوں کے لیے کتنی عظیم نعمت ہے کہ انسان اپنی معیشت اور اپنے لیے رزق کی فراہمی کے لیے اِسی اُجالے میں بھاگ دوڑ کرنے کے قابل بنتا ہے ۔ دن کے اختتام پر جب یہ غروب ہونے لگتا ہے توتاریکی کرئہ ارض کو اپنی آغوش میں چھپا لیتی ہے۔ یہ تاریکی خود بھی ایک نعمت بن کر انسانوں کی خدمت کے لیے حاضر ہو جاتی ہے۔ رات دھیرے دھیرے جب اپنے پر پھیلاتی جاتی ہے تو گویا کسی چادر کی طرح ہمارے لیے لباس بن جاتی ہے۔سورج غروب نہ ہوتا تو شاید ہماری دن بھر کی تھکن ہمیں زندہ رہنے کے قابل نہ رکھتی۔لیکن انسانوں کے اِن قدرتی خادموں میں اتنی جرٴات کہاں کہ وہ ” فردوسی مخلوق“ کے لیے کسی قسم کے مسائل کھڑے کریں۔ ما بعد غروب آفتاب دن بھر کی ہماری تھکن،سورج کی توانائی کو اپنے بدن پر جھیل لینے کے بعد راحت و سکون کا ایک ایسا ماحول بنا دیتی ہے کہ ایک عجیب کیفیت سے ہمارا سامنا ہوتا ہے اور یہ کیفیت ہے” نیند“کی، جو ایک عظیم نعمت بن کر ہمارے سراپا پر چھا جاتی ہے۔ دلفریب لذّت کی حامل نیند کی یہی کیفیت ہے جو ہمیں اپنے بازووٴں میں سمیٹ لیتی ہے اور دنیا و ما فیہا سے بے خبر کر دیتی ہے۔ رات کی تاریکی میں دل و دماغ سے نکلنے والے سگنلس جسمانی وحیاتیاتی اعضاء کو یہ پیغام پہنچاتے ہیں کہ نیند کے ذریعے تم اپنی کھوئی ہوئی انرجی دوبارہ حاصل کرلو اور جوں ہی تمہاری بیٹری ریچارج ہو جائے تو تم دیکھو گے کہ صبح نمودار ہوتے ہوتے تم اپنی توانائی کو دوبارہ مجتمع کر چکے ہو۔اٹہترویں سورة کی نویں،دسویں اور گیارہویں آیتوں میں فرمایا:”(انسانو....!) تمہاری نیند کو ہم نے تمہارے لئے سکون کا ذریعہ بنایا،(تاکہ تم اپنی کھوئی ہوئی انرجی کو ریسٹورکرسکو) اور(اِسی طرح) ہم نے رات کو بھی(مانندِ) لباس بنایا (تاکہ یہ تمہیں ڈھانپ لے)، نیز ہم نے دن کو( حصولِ )معاش کے لیے(دوڑ دھوپ کرنے کا ذریعہ) بنایا۔“



پھر ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے جسم کی ساخت کو کچھ اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ ہمارے بدن کو ”نیند“ کی اور اِس ”نیند“ کے ذریعہ توانائی کے ایک متناسب ڈوز کی مسلسل ضرورت رہتی ہے اور یہ سورج اور چاند،دن اور رات،سردی اور گرمی کے قدرتی سائیکل سے ہمارے جسم کے لیے آرام اور توانائی سے جوڑ دیا گیا ہے جس کی شکل” نیند“ ہے۔ ہمارا جسم لازماً ایک مستقل جسمانی تپش لیے ہوئے ہوتا ہے۔ایک صحت مند جسم کی تپش میں صفر اعشاریہ پانچ ڈگری سینٹی گریڈ کا تغیرآتا رہتاہے ۔اِس تغیر کاکم از کم پانچ گھنٹوں اورزیادہ سے زیادہ اٹھارہ گھنٹوں میں رونما ہونا لازمی ہے۔ نیند کے احساس سے جسمانی تپش کا بڑا گہرا تعلق ہے ۔ جسم کی حرارت جب کم ہو جاتی ہے تو نیند کا احساس جاگتا ہے اور جب یہی تپش بڑھ جاتی ہے تو ہم نیند سے جاگ جاتے ہیں۔



اپنی آخری کتاب میں رب تعالیٰ نے رات اور دن،سونے اور جاگنے کے اس عمل کی وجہ بھی بیان فرمائی اور انسان کی عقلِ سلیم کو بھی اپیل کی کہ اس پروسس پر غور کرو کہ کس طرح تمہارا رب تم پر اپنی نعمتیں نچھاور کر رہا ہے۔اِن ہی نعمتوں کے درمیان، اِن ہی کے تعاون سے تم ایک خاص مخلوق بن کر محوِ سفر ہواور تمہیں احساس ہو کہ نہ ہو ،تم ایک مخصوص رفتار سے اپنی عمر اس دنیا میں پوری کر رہے ہو۔بچپن سے جوانی میں داخل ہوتے ہوئے تم بوڑھے ہوتے جارہے ہو۔ عمر کے اِس سفر میں رات اور دن،سورج اور چاند، نیند اور بیداری کے مراحل آرہے ہیں اور رفتہ رفتہ تم اپنی عمرکی آخری منزل پر پہنچ کر رہو گے،جہاں ٹھہر کر تم سوچنے لگو گے کہ یہ سب کچھ کیا تھا، یہ سفر کیسا تھا۔تب شاید تمہیں یہ احساس ہو جائے کہ یہ سارا سرکل دراصل تمہارے امتحان کے چلااور اب تمہیں موت کے دروازے سے گزر کر اپنے رب کے حضور حاضر ہونا ہے۔اتنی ساری نعمتیں جو تم پر لٹائی گئیں،ان سے متمتع ہوکردنیا میں گذارے گئے تمہارے شب وروز کا تمہیں اپنے مالک کو حساب دینا ہے۔



ہماری وارننگ کی خاطر اس پیکیجPackage کا تذکرہ ہمارے رب تعالےٰ نے اپنی آخری کتاب کی چھٹی سورة کی ساٹھویں آیت میں پہلے ہی کر دیا تھا:”اور وہی تو ہے جو بہ ساعتِ لیل ، تم پر(بہ شکلِ نیند گویا) وفات (کی کیفیت) طاری کردیتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ بہ ساعتِ دن ، تم کن (مشقت طلب)مصروفیات میں سرگرمِ عمل رہے۔ (اِسی طرح اس عارضی موت کی کیفیت کو ختم کرتے ہوئے )پھروہ(دوبارہ) تمہیں جلا اٹھاتا ہے ، تاکہ (نیند اور بیداری کے اِس Cycleکے ذریعہ تمہاری عمر کا)مقررہ وقت پورا کرے، پھر تم(اپنی عمر کے اختتام پر) اٰسی کی(بارگاہ کی) طرف لوٹ جاؤ گے(جہاں) پھر وہ تمہیں مطلع کرے گا کہ (دنیاوی زندگی میں) تمہاری مصروفیات کیا رہیں۔“