ٴزندگی جبر ِ مسلسل کی طرح کاٹی ہےٴ
فقیر شاعر ساغر صدیقی کا فن و شخصیت

یہ آرٹیکل راقم نے روزنامہ وقت کے لئے تحریر کیا تھا،آپ کے خدمت میں پیش ہے۔

ساغر صدیقی کہا کرتے تھے کہ ٴٴلاہور میں بہت قیمتی خزانے دفن ہیں مگر انہیں آسانی سے تلاش نہیں کیا سکتا ۔ٴٴ ساغر صدیقی کا شمار بھی لاہور کے انہی خزانوں میں کیا جا سکتا ہے جنہوں نے تمام عمر لاہور میں گزاری، وہ زمانے کے بے حسی اور دوستوں کی بے اعتنائیوں کا شکار رہا اور کوئی بھی اس خزانے کو پہچاننے سے قاصر رہا۔ آج ساغر کا شمار اردو کے بہترین شعرائ میں کیا جاتا ہے۔
ساغر صدیقی1928ئ انبالہ ٟبھارتٞ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنا بچپن سہارنپور اور انبالہ میںگزرا ۔ساغر صدیقی کا اصل نام محمداختر شاہ تھا اور وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے ۔ساغر کا بچپن نہایت کسمپری میں گزرا ۔لہذا انہوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی اور بعدازاں ایک بزرگ حبیب حسن خاں سے اردو زبان کی تعلیم حاصل کی ۔ اسی دور میں ان کے اندر شاعری کا جذبہ پیدا ہوا ۔نامساعد حالات سے تنگ آکر ایک دن انہوں نے امرتسر کی راہ لی اور یہاں ہال بازار میں ایک دوکاندار کے پاس ملازمت اختیار کر لی جو لکڑی کی کنگھیاں بنا کر فروخت کیا کرتا تھا۔ انہوں نے یہ کام بھی سیکھا۔ دن بھر کنگھیاں بناتے اور رات کو اسی دوکان کے کسی گوشے میں پڑے سو جاتے۔ وہ چودہ، پندرہ برس کی عمر میں شعر کہنے لگے اور دوستوں کو سناتے ۔ ساغر صدیقی نے آغاز میں اپنا تخلص ناصر مجازی رکھا تھا لیکن جلد ہی اسے چھوڑ کر ساغر صدیقی ہو گئے۔ اسی دور میں انہوں نے امرتسر میں علوم شرفیہ کی بہترین درسگاہ جامعہ السنہ الشرقیہ ہال کے ماہانہ طرحی مشاعروں میں شرکت شروع کر دی ۔ 1944ئ میں اردو مجلس کے نام سے ایک بزم ڈاکٹر تاثیر اور مولانا تاجور نجیب آبادی کے زیر سایہ قائم ہوئی تو اس کے مشاعروں میں باقاعدہ شریک ہونے لگے ۔ بہت کم مدت میں ساغر نے اپنے عہد کے بزرگ شاعروں سے اپنی صلاحتیوں کو منوا لیا اور تمام احباب ان کے فن سے متاثر ہوئے ۔ اس دوران وہ جالندھر، لدھیانہ اور گورداسپور میں ہونے والے مختلف مشاعروں میں شریک ہوتے رہے ۔
تقسیم ہند کے وقت انہوں نے امرتسر سے پاکستان ہجرت کی اور لاہور آگئے۔ لاہور میں دیو سماج روڈ پر واقع ایک ہوسٹل کے کمرے میں سکونت اختیار کر لی ۔ کچھ عرصہ بعد اس ہاسٹل کو خیرباد کہہ دیا اوردوستوں کے ہاں یا ہوٹلوں میں قیام کرنے لگے ۔ انہی دنوں ساغر کے ذہن میں پاکستان کا قومی ترانہ لکھ کر اسے فلمانے کا خیال ابھرا کیونکہ اب تک پاکستان کا کوئی قومی ترانہ نہ تھا۔ چنانچہ ساغر صدیقی نے فداشاہ جہاں پوری اور نعیم ہاشمی کے ساتھ مل کر ایک ترانہ لکھا اور اسے اپنی آواز میں فلمایا۔ یہ ترانہ پہلی مرتبہ ایجنٹ سینمالاہور میں دکھایا گیا ۔اس بعد انہوں نے کشمیری حریت پسندوں کی جدو جہد آزادی پر انقلاب کشمیر کے نام سے فلم بھی بنائی ۔
1947ئ سے 1952 تک ساغر صدیقی نے اپنی زندگی کا بہترین دور دیکھا۔ وہ لاہور کے کئی روزانہ اور ہفتہ وار پرچوں سے منسلک ہوگئے، بلکہ بعض جریدے تو اسی کی ادارت میں شائع ہوتے رہے۔ فلمی و ادبی رسالےٴتصویر ٴ کے ایڈیٹر بھی رہے اور ان کی شب و روز محنت کے سبب اس رسالے نے بہت جلد عوامی مقبولیت حاصل کر لی ۔بعدازاں مختلف وجوہات کی بنائ پر یہ رسالہ بند ہو گیااور انہوں نے ایک فلمی اخبار جاری کیا مگر اقتصادی بحران کے سبب یہ اخبار غلام جیلانی نیازی کے ہاتھ پانچ روپے کے عوض فروخت کر دیا ۔ اس کے ان کی حالت دن بہ دن ابتر ہوتی چلی گئی اور وہ زمانے کی ستم ظریفی کا نشانہ بنتے رہے۔
ساغر صدیقی کی زندگی میں ان کو یونس ادیب کی صورت میں ایک ایسا دوست میسر آیا جس نے صحیح معنوں میں دوستی کا حق نبھایا۔ ساغر صدیقی کے کلام کو محفوظ کرنے میں میزا ادیب کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ اے حمید اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ ٴٴساغر صدیقی کو اگر یونس ادیب نہ ملتا تو وہ شائد اتنی جلدی دریافت نہ ہوتا اور عین ممکن تھا کہ لوگوں نے اس کی شاعری کو لوٹ کا مال سمجھ کر آپس میں بانٹ لیا ہوتا۔ میں سمجھتا ہوں ساغر صدیقی کم از کم اس اعتبار سے ضرور خوش قسمت تھا کہ اسے یونس ادیب مل گیا، محبت کرنے والا دوست مل گیااور اس کی شاعری اور شخصیت گوشہ گمنامی کی تاریکیوں میں گم ہو جانے سے محفوظ رہی۔ یونس ادیب کی دوستی ساغر صدیقی سے بڑی گہری اور قیام پاکستان سے پہلے کی تھی۔ وہ ساغر صدیقی کا حقیقی معنوں میں سراغ نگار ہے اور ساغر صدیقی کے ظاہری اور باطنی کرب سے آگاہ تھا۔ اس نے ساغرصدیقی کو زندگی کی ساری منزلوں کی سیڑھیاں چڑھتے اترتے دیکھا تھا۔ٴٴ یونس ادیب ٴشکست ساغرٴ میں لکھتے ہیں کہ ٴٴقیام پاکستان کے چند روز بعد ایک شام کو میں، نعیم ہاشمی اور فدا شاہ جہانپوری میجسٹک ہوٹل میں بیٹھے تھے کہ دروازے کے شیشوں میں سے سڑک پر ساغرصدیقی گزرتا ہوا نظر آیا۔ وہی گھنگھریالے چمکدار بال، خوبصورت آنکھیں اور دلکش فنکارانہ خدوخال لیکن وہ کسی گہرے زلزلے کی زد سے نکلا ہوا لگتا تھا۔ ہم اسے ہوٹل میں لے آئے، میں نے اس سے پوچھاامرتسر سے کب آئے؟ سب خیریت سے آگئے تھے؟وہ بولا ٴبس آگیا ہوں کیا بتا¶ں کس زخمی احساس کے ساتھ آیا ہوں، لیکن لاہور شہر اجنبی نہیں لگتا یہاں آ کر بڑی خوشی ہوئی ہےٴ۔ ساغر صدیقی پر ابھی جذب ومستی کی حالت طاری نہیں ہوئی تھی، وہ صاف ستھرا لباس پہنتا تھا، بال ہر وقت کنگھی کئے ہوئے ہوتے تھے۔ وہ دیوسماج روڈ پر ایک متروکہ بلڈنگ کے ایک بوسیدہ کمرے میں رہتا تھا۔ نئے وطن پاک میں وہ ایک نئی زندگی شروع کرنا چاہتا تھا، لیکن ابھی اس کے ذہن میں کوئی منصوبہ واضح نہیں تھا۔ٴٴ
ڈاکٹر مالک رام مقدمہ دیوان ساغر میں بیان کرتے ہیں کہ ٴٴ1952ئ کی بات ہے کہ وہ ایک ادبی ماہنامے کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے سردرد اور اضمحلال کی شکایت کی۔ پاس ہی ایک اور شاعر دوست بھی بیٹھے۔ انہوں نے تعلق خاطر کا اظہار کیا اور اخلاص ہمدردی میں انہیں مارفیا کا ٹیکہ لگا دیا۔ سردرد اور اضمحلال تو دور ہو گیا لیکن اس معمولی واقعے نے ان کے جسم کے اندر نشہ بازی کے تناور درخت کا بیج بو دیا۔ بدقسمتی سے ایک اور واقعے نے اس رجحان کو مزید تقویت دی۔ٴٴ
لاہور میں انہوں نے اپنے بہتر مستقبل کے خواب دیکھے تھے اسی لاہور میں وہ عمر بھر روٹی کے محتاج رہے۔ ساغر صدیقی نے ایک مرتبہ کہا تھاٴٴمیری ماں دلی کی تھی، باپ پٹیالے کا، پیدا امرتسر میں ہوا، زندگی لاہور میں گزاریٝ میں بھی عجیب چوں چوں کا مربّہ ہوںٴٴ۔ ساغر نے مارفیا اور چرس کا بے بہا استعمال شروع کر دیا جس سے ان کی حالت دن بدن بگڑتی چلی گئی ۔ اس نشے اور مدہوشی کی کیفیات کے باوجود ساغر کی شاعری عروج پر تھی ۔ وہ جس مشاعرے میں بھی جاتے اپنے فن کی دھاک بٹھا دیتے ۔ لائل پور کاٹن مل میں ملک گیر طرحی مشاعرہ ہوتا تھا۔ 1958ئ میں جگر مراد آبادی کی صدارت میں مشاعرہ ہوا۔ مصرع طرح تھاٜ ٴسجدہ گاہ عاشقاں پر نقش پا ہوتا نہیں ٴ مختلف شعرائ کے بعد ساغر صدیقی نے اپنی یہ غزل سنائی ٜ
ٴایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں
ہر شناور کو نہیں ملتا تلاطم سے خراج
ہر سفینے کا محافظ ناخدا ہوتا نہیںہوتا
ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقام خواجگی
ہر کس وناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیںٴ
یہ غزل سن کر جگر جھوم اٹھے اور حاضرین محفل نے خوب داد دی ۔ جگر مرادآبادی نے اپنی باری آنے پر کہا کہ میری غزل کی ضرورت نہیں حاصل مشاعرہ غزل ہو چکی اور اپنی غزل کو اسیٹج پر ہی پھاڑ دیا۔
1965ئ کی جنگ میںساغر صدیقی نے قلم کی مدد سے وطن عزیز کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی ۔ 1971ئ میں سقوط مشرقی پاکستان کے واقعہ نے ان پر گہرا اثر کیا اور انہوں نے چپ سادھ لی ۔ تنگدستی اور افلاس کے باوجود ساغر کے ہاں شان و درویشی ، خودداری اور بے نیازی اپنے عروج پر نظر آتی ہے ۔ساغر رات کو جب کسی فٹ پاتھ پر سوتے تھے تو دن کو ان کے سرہانے سے شعروں کے گلدستے نکلتے تھے ۔ جب ساغر صدیقی نے صدر ایوب کا قصیدہ لکھا ٴٴکیا ہے صبر ہم نے ہمیں ایوب ملاٴٴ تو صدر ایوب نے آپ کے ساتھ ملنے کی خواہش ظاہر کی ۔ جب سیکورٹی آفیسر ساغر کو ساتھ لانے کیلئے ان کے ہاں پہنچے تو انہوں نے ساتھ چلنے سے صاف انکار کر دیا اور بے نیازی سے سگریٹ کی خالی ڈبیا پر ایک شعر لکھ کر صدر ایوب کو بھیج دیا۔ شعر یہ تھا:
ٴٴہم سمجھتے ہیں ذوق سلطانی
یہ کھلونوں سے بہل جاتا ہے ٴٴ
ساغر کو عیش و آرام کی زندگی ، نرم و نازک گدوں اور گرم چادروں سے محبت نہ تھی ۔ اس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ فٹ پاتھوں پر بے سروسامانی کے عالم میں گزارا۔ اگر کوئی انہیں فٹ پاتھ پر لیٹے دیکھ کر بھکاری سمجھتا اور انکی مدد کرتا تو وہ اسے بلا کر رقم لوٹا دیتے اور کہتے کہ ٴٴمیں فقیر ہوں، بھکاری نہیں ہوں۔ٴٴ
غم پسندی ساغر صدیقی کی غزل کا دل پسند موضوع ہے ۔ ان کی غزل کے دوسرے موضوعات میں آوارگی، خمریات، داخلیت پسندی، عشق مجازی، عشق حقیقی، جدو جہد، ترقی پسندی، مادیت کی مخالفت اور اپنے دور کی پرآشوبی وغیرہ شامل ہیں ۔ اس نے غزل، نظم، قطعہ، رباعی، ہر صنف سخن میں خاصا ذخیرہ چھوڑا ، وہ خود تو اسے کیا چھپواتا، ناشروں نے اپنے نفع کی خاطر اسے چھاپ لیا اور اسے معاوضے میں ایک حبّہ تک نہ دیا۔انہوں نے سلطان باہو کے کلام کا پنجابی سے اردو منظوم ترجمہ بھی کیا تھا ۔ ان کے چھ مجموعے ان کی زندگی میں لاہور سے چھپے۔ غم بہار، زہر آرزو1946ئ، لوح جنوں 1971ئ، اور سبز گنبد اور شب آگئی 1972ئ میں شائع ہوا۔ ساغر صدیقی نے فلموں کیلئے بھی شاعری کی ۔ ساغر نے انور کمال پاشا کی فلموں ٴدو آنسوٴ ٴغلام ٴ، ٴسرفروشٴ اورٴباپ کا گناہ ٴ کے گیت تحریر کیے جو بے حد مقبول ہوئے۔ لیکن جلد ہی انہوں نے اس رنگین دنیا سے منہ موڑ لیا اور کبھی دوبارہ اس جانب رخ نہ کیا۔
جنوری1974ئ میں ان پر فالج کا حملہ ہوا۔ فالج کے اس حملے سے کسی حد تک صحت یاب ہوگئے، لیکن ان کا دایاں بازو ہمیشہ کے لیے بے کار ہو گیا۔ اور کچھ بعد منہ سے خون آنے لگا۔ جسم سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا تھا۔چنانچہ 19 جولائی 1974ئ صبح کے وقت ان کی لاش سڑک کے کنارے ملی اور دوستوں نے انہیں میانی صاحب قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔

شیراز حسن