حدیث شریف کی اہمیت وضرورت قرآن کریم کی روشنی میں
،ارشاد حق تعالی ہے:

وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ-

ترجمہ:اور ائے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہم نے آپ پر قرآن کو نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لئے اسے خوب واضح کردیں-(سورۃ النحل:44)

اللہ تعالی نے آپ کو حلت وحرمت کے بارے میں کامل اختیار عطافرماکر آپ کے فرامین عالیہ کی اہمیت و حجیت کو واضح فرمایا :ارشاد ہے: وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ-

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں-(سورۃ الاعراف:157)

قرآن کریم میں نماز قائم کرنے اور زکوۃ ادا کرنے کا حکم ہے ،روزوں کی فرضیت کا ذکر ہے ،حج کا حکم دیا گیا ہے لیکن واضح طور پر نمازوں کی تعداد و اوقات ،رکعتوں کا تعین ،زکوۃ کے نصاب کی مقدار ،روزے کے مباحات ومفسدات نیز مناسک حج وعمرہ بیان نہيں کئے گئے بلکہ یہ ساری تفصیلات اللہ تعالی نے اپنے حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ فرمادی-

آپ کی اداؤں کو سنت اور ارشادات وفرمودات کو شریعت بنادیا ،ارشاد باری تعالی ہے:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ-

ترجمہ:یقینا تمہارے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ذات میں بہترین نمونہ ہے-(سورۃ الاحزاب:21)

اورسورۂ حشر میں ارشاد فرمایا:

وَمَا آَتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ -

ترجمہ:اور جو کچھ تمہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عطا فرمائیں اسے لے لو اور جس سے منع فرمائیں اس سے باز رہو،اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو ،بیشک اللہ تعالی سخت عذاب دینے والا ہے-(سورۃ الحشر:7)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے فرمان عالیشان کے آگے کسی کو چوں وچرا کی اجازت نہيں ،اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ -

ترجمہ:کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق حاصل نہيں کہ جب اللہ تعالی اور اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کچھ حکم فرمادیں تو انہيں اپنے معاملہ میں کچھ اختیار رہے-(سورۃ الاحزاب:36)

قرآن کریم کی کسی آیت کی توہین کرنا یا اس کا انکار کرنا کفر ہے اسی طرح حدیث پاک کی توہین کرنا اور حدیث متواتر کا انکار کرنا بھی کفر ہے،کیونکہ قرآن کریم وحی جلی اور احادیث مبارکہ وحی خفی ہيں،باعتبارایمان و اکرام دونوں برابرو مساوی ہیں، البتہ فرق اتنا ہے کہ قرآن کریم وحی متلو جس کی نماز میں تلاوت کی جاتی ہے اور حدیث مبارک غیر متلو ہے،جیساکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى ۔ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى -

ترجمہ:اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی خواہش سے کچھ کلام نہيں فرماتے بلکہ وہ وحی الہی ہوتی ہے جو آپ کی طرف کی جاتی ہے-(سورۃ النجم:3/4)

جامع ترمذی شریف میں حدیث مبارک ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!آپ ہم سے خوش مزاجی فرماتے ہیں ،تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :میں سوائے حق کے کچھ نہيں کہتا –

(جامع ترمذی،ابواب البر والصلة ، باب ما جاء فى المزاح.حدیث نمبر:2121)

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ تُدَاعِبُنَا. قَالَ : إِنِّى لاَ أَقُولُ إِلاَّ حَقًّا.